14 مئی 2006ء مقام لندن، معاہدہ میثاقِ جمہوریت۔ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف دستخط کرتے ہیں۔
پہلی بار ملکی سیاست میں ایک اہم ترین سیاسی پیش رفت !کہ تاریخ کا سبق ہے، عوامی حق میں عسکری حکومت جمہوری حکومت سے کبھی بہتر ثابت نہیں ہو تی۔ کائنات میں ہر ایک کا ایک کام ہوتاہے۔ اس کو چھوڑ کے دوسراکام کیاجائے تو ناصرف فتنہ و فساد لازم آتاہے بلکہ بہت سی خیر کا کام ہی تما م ہوجاتاہے۔ بدقسمتی لیکن یہ کہ پاکستان پرحکمرانی کی آدھی سے زیادہ تاریخ آمریت کے بوٹوں تلے کچلی ہوئی۔ قصور بھی بیرونی نہیں اندرونی ؎
میں اگر سوختۂ ساماں ہوں تو یہ روزِ سیاہ
خود دکھایا ہے میرے گھر کے چراغاں نے مجھے
ہرآمر کے غیر آئینی اقدامات کو اگرجوازِ زندگی بخشا توسیاستدانوں کے باہمی عدمِ تعاون اور عدلیہ کے غیرقانونی تعاون نے بخشا۔ چنانچہ اقتدارکی طرف آتے ہرچور دروازے کو بندکرنے اور اقتدار پرشب خون مارنے والی طاقتوں کو روکنے کی صورت گری کرتا، آٹھ صفحات پر مشتمل یہ معاہدہ ا ٓیا، توچہ خوب آیا۔ طے یہ پایاکہ آج کے بعدیہ دونوںپارٹیاں مرتے مر جائیں گی، کسی غیر قانونی طاقت کاساتھ نہ دیں گی، چشمِ ما روشن دل ماشاد!
یا للعجب !معاہدہ کر رہے ہیں دو جلا وطن سیاست دان، دیار غیر میں بیٹھ کر، ملک میں جن کے داخلے پر پابندی۔ ملک میںفوجی آمر کی حکومت، اقتدارمیں آنے کی تو کجا ملک میں آنے کی بھی جن کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ حالات پر لیکن کس کا زور ؟ کسی جابر کا نہ کسی جمہور کا، وقت کی رفتار الگ، وقت کا طریقِ کار الگ۔ وقت کا بہاؤاٹل، وقت کے فیصلے انمٹ۔ چنانچہ گردشِ حالات تھمی، وقت کی رفتار بدلی تودیکھتے ہی دیکھتے آمر یت کے طور پرانے اورجمہوریت کے موسم سہانے ہونے لگے۔ ایسے میں ان لیڈروں پربھی وطن واپسی کے دروازے کھل گئے۔ الیکشن 2002 کے نتیجے میںصدر بن چکے فوجی آمر کے زیرسایہ، یہ الیکشن 2008ء کاہنگام تھا۔ دونوں آئے اور الیکشن کی تیاریوں میں جت گئے۔ الیکشن میں ایک سال پڑا تھا کہ معاہدے پر دستخط کرنے والی دیو قامت لیڈر بے نظیربھٹو راولپنڈی جلسے سے واپسی پراپنی ہی گاڑی میںمار دی گئیں۔ اسی جلسہ گاہ نے پاکستانی وزیراعظم لیاقت علی خان کی بھی جان لی تھی۔ قاتل کہیں کی !خیر، جانے والوں کی خاطر کارِ حیات کب رکتے ہیں ؟ نہیں رکے !اور الیکشن ہوکے رہے۔ بی بی کی جگہ بی بی کے میاں زرداری نے اوراپنی جگہ زردار میاں نے الیکشن لڑا۔ نتائج سامنے ا ٓئے تو حیران کن اورچونکا دینے والے۔ جنرل کیانی تونے یہ کیا کام کر دیا؟ الیکشن میں دھاندلی کا دھندہ ناکام کر دیا۔ چنانچہ فوجی آمر کی پارٹی برسات میں گردکی طرح دھل کے صاف ہو گئی۔ بی بی کی ہمدردی اس کے میاں کے کام آئی اور وہ جو بی بی کی زندگی میں سوائے کرپشن کیسوں کے کہیں نظر نہ آتے تھے، وہی آصف علی زرداری الیکشنی بارات میں دلہا بنے نظرآنے لگے، ملکی تاریخ لیکن مشکورکہ کس ہنرمندی سے فوجی آمر کواس نے صدارت سے چلتا کیااور خود صدر بن کے ملک کے جوڑوں میں بیٹھ گئے۔ گستاخی معاف، جس طرح کی بدعنوانی کے موصوف پر کیسز تھے، ملک میں صدارت کے سواان کے لیے کوئی جگہ محفوظ ہو بھی نہ سکتی تھی۔ خیرجو کر سکتے تھے اورجو نہیں بھی کر سکتے تھے، موصوف نے وہ سب کھل کر کیا، میاں صاحب کی طرف سے مگرکامل ٹھنڈ پروگرام عرف ’’میثاق جمہوریت ‘‘پر عمل ہوتارہا۔ وہ اپنی باری کے منتظر کہ کب حکومت میں آئیں اور اپناالو سیدھا اور رانجھا راضی کریں۔ اگلے الیکشن میں یہ باری بھی آگئی۔ 5 سال زرداری نے جو قوم سے کیاتھا، 2013 انتخابات میں وہی قوم نے زرداری سے کیا، چنانچہ زرداری حکومت کا سانپ سمٹ کے سندھ کے بل میں گھس گیا۔ اب باری تھی میاں صاحب کے میثاقِ جمہوریت کا جھولا جھولنے کی۔ یہی تھا بدترین پہلو میثاقِ جمہوریت کا سامنے آیا کہ اب یہ پارٹیاں عسکری قوتوں کے خلاف ہی نہیں، عوامی مفادمیں بھی ایک دوسرے کے خلاف نہ جائیں گی۔ کوئی جگہ خالی مگرکہاں رہتی ہے ؟ وہ جو کہتے ہیں کہ ہر فرعونے را موسیٰ۔ نہیں، یہاں لاگو نہیں ہوتا، ایسے ہی کہہ دیا، تو بہرحال میثاقِ جمہوریت کی پر سکون جھیل میں کنکر نہیں پہاڑ لا پھینکنے والی پارٹی تحریک ِ انصاف میدان میں آگئی۔ میثاقِ جمہوریت سے اسے کیا سروکار، میثاقِ جمہوریت کوتویہ’ باریاں لینے کی منصوبہ بندی ‘کہتی تھی۔ خیر، خان نے میاں حکومت کو زنانی حکومت بنا کے رکھ دیا۔ میاں صاحب کو کرپشن کنگ کہنے میں یہی ہر حد تک جانے کو تیار ہوگئے۔ شور مچایا، دھرنے دئیے۔ پانامہ پیپرز لیک ہوئے توگویا بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا۔ میاں صاحب سے استعفیٰ مانگتے مانگتے یہ عدالتوں میں چلے گئے۔ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے 20 اپریل کو پانامہ کیس کافیصلہ ہی نہیں دیا، ایسے ایسے ریمارکس دئیے کہ رنگارنگی کا میلہ اورہماہمی کا جمعہ بازار لگا کے رکھ دیا۔ خیر فیصلہ چونکہ انگریزی میں تھا، چنانچہ حکومت نے ا س پر بغلیں بجاکے مٹھائیاں بانٹیں اور مخالفین نے مایوس ہوکے بائیکاٹ کر دیا۔ خود اہلِ صحافت سے اچھے خاصے لوگوں پر ایسی مایوسی چھائی کہ کشتی ڈبوئے ملاح کی طرف افسردہ و پژمردہ ہو بیٹھے۔ فیصلے میں تین ججز تحقیق ِ مزید چاہتے تھے جبکہ دو ججز نے تو ایسے ایسے دھواں داراختلافی نوٹ لکھے کہ ہر طرف گاڈ فادر گاڈ فادرہو گئی۔ خیرفیصلے سے بہت کچھ ہوا، لے دے، خوشی، افسوس اور چرچا۔ یہاںتک کہا گیا کہ تین جج فلاں اور دو جج فلاں ٹی وی دیکھتے تھے وغیرہ وغیرہ۔ بہرحال تبصروں سے بے نیاز 60 دنوں کیلئے جے آئی ٹی بنی اورکام کرنے لگی۔ حسن نواز، حسین نواز، مریم نواز، اسحق ڈار اورخود میاں نواز کی کئی کئی گھنٹوں پر محیط پیشیاں ہوئیں تویہ اعتراض ہوا ہوگئے کہ بیسویں گریڈ کا آفیسر اپنے وزیراعظم کا احتساب کیسے کر سکتاہے۔ اب جب کہ جے آئی ٹی کے ساٹھ روز مکمل ہونے والے ہیں توصورت یہ ہے کہ مٹھائیاں بانٹنے والے مایوس ہونے لگے ہیں اور مایوس ہونے والے مٹھائیاں بانٹنے کی تیاریاں کرنے لگے ہیں۔ جے آئی ٹی کا بائیکاٹ کرنے والے اسے گود لینے لگے ہیں اور جے آئی ٹی کو گلے لگانے والے اس سے گلے کرنے لگے ہیں۔ تحقیقات کا نتیجہ توخیر آنے والا کل ہی بتائے گا۔ یہ نتیجہ البتہ نکل آیاکہ کارِ حکومت ہو یا کارِ حیات، سکون کا کوئی ’میثاقِ جمہوریت‘ دنیامیں کام آنے والا نہیں، ایک سے نکلو تو دوسرا امتحان اور منیر نیازی کا دوسرا دریاسامنے ہوتاہے۔ چنانچہ ہمیں جذبات پر قابواوراداروں پر اعتماد رکھنا چاہئے۔ میں عمران خان اور میاں نواز شریف دونوں سے خو ش ہوں کہ ایک نے میثاقِ جمہوریت سے ملک و قوم کو پہنچنے والے نقصان کے سامنے اپنی’اوئے نواز شریف‘کی ڈھال پیش کردی تودوسرے نے خلاف روایت خاصے تحمل کا مظاہر ہ کیا۔ بولنے کا سبھی کو حق ہے۔ البتہ جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے سے مریم نواز سمیت کسی پرکوئی ظلم نہیں ہوا۔ عدل و انصاف کے سامنے مغربی حکمران ہی نہیں، ہمارے نامور خلفاء بھی جوابدہ رہے ہیں۔ اس میں مرد اور عورت کی تخصیص بھی کوئی نہیں۔ مرد اور عورت دونوںہی اللہ اور عدالت کوبرابرجوابدہ ہیں۔ اگرنبی مکرم نے یہاں تک فرمادیا تھاکہ اگر (خدانخواستہ )میری بیٹی فاطمہ بنت محمد ﷺبھی جرم میں ماخوذ ہوتی تو میں اسے بھی انصاف کے کٹہرے میں لے آتا۔ تواس ضمن میں خود کو مظلوم بنا کے قوم کوالو بنانا کارِ لا حاـصل ہے۔
بہرحال سب عدالت کے کٹہرے میں پیش ہو چکے، باقی ہے تو عدالت کے کٹہرے سے قوم کیلئے کچھ پیش ہونا باقی ہے۔ دعاہے کہ کمرۂ عدالت سے جو بھی نکلے وہ مبنی برعدل و انصاف ہو، وہی ملک وملت کابہتر ین مفاد ہو۔ باعثِ خیر و اطمینان ہو، وجہ ِشر و انتشار اور باعث ِفتنہ و فساد نہ ہو۔