1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. یوسف سراج/
  4. نواز شریف لڑنا جانتاہے، آپ کھانا کھائیے!

نواز شریف لڑنا جانتاہے، آپ کھانا کھائیے!

میاں نواز شریف کے خلاف سپریم کورٹ میں نااہلی کیس کے کچھ پہلو تووہ ہیں، جن پر مخالفین اور حامیوں کےٹی وی ٹاک شوز کی رونق اور سوشل میڈیا کی رنگارنگی قائم ہے۔ افسوس تعصب اور وابستگیاں انسانوں کی سوچنےسمجھنے کی صلاحیتیں اورآگے بڑھنے کے امکانات کھا جاتی ہیں، ورنہ اس کیس میں اتنا کچھ ہے کہ جسے نظرانداز کرنا، اچھائی، امید اور بہتری کونظرانداز کردینے کے مترادف ہے۔ پارٹی بازی کا بدترین پہلو یہ ہے کہ ایک آزاد انسان بھی آزاد نہیں رہتا، وہ اپنی سوچ وفکر اور اپنا وجودلاشعوری طور پر اپنے لیڈر کوبے قیمت بیچ ڈالتاہے۔ ایسا انسان اپنی عقل اورصاف نظر آتے دلائل کا تجزیہ کرتے ہوئے درست بات تک پہنچنے اوراسے قبول کرنے کی کوشش نہیں کرتا، بلکہ آنکھیں بندکرکے اپنے لیڈر کی ہربات پر ایمان لانا اور اپنے لیڈر کے مخالفین کی ہر بات رد کرنا اپنا معمول بنا لیتا ہے۔ یوں اچھے خاصے انسان فواد چودھری، دانیال عزیر اور طلال چودھری بن کے رہ جاتے ہیں۔ اسی بے دام بندگی کے تحت لوگوں کا یہ عقیدہ بن چکا ہے کہ ان کے لیڈر دیوتا یا ولی اللہ ہیں، کہ جن سے کبھی کوئی غلطی سرزد نہیں ہوتی، اور ان کے مخالفوں سے کبھی کوئی اچھائی واقع نہیں ہوتی۔ اسی اندھی عقیدت اور پارٹی بازی میں سچائی ہمیشہ گم اور حقیقت ہمیشہ قتل ہو کے رہ جاتی ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ لیڈر پورے اعتماد سے عوام کو بے عقل بھیڑ بکریاں گردانتے ہوئے جو جی میں آتا ہے کہتا اور کرتا چلاجاتا ہے، کیونکہ اسکے ہر عمل کے دفاع پر اس کے لاکھوں ووٹرز اورنوازے گئے سینکڑوں صحافی موجود و مقرر رہتے ہیں۔

اس عام روش سے ہٹ کر دیکھنا ویسے تو گناہ سمجھا جاتاہے، لیکن اگر ہم یہ گناہ کرسکیں، اور یہ سب کچھ پیچھے دھکیل کرحقیقت کی نظر سے دیکھیں تو میاں صاحب کا کیس دونوں اعتبار سے ایک مضبوط کیس ہے۔ اس کیس کی مضبوطی یہ ہے کہ یہ واحد کیس ہے جو حکومت میں موجود ایک وزیراعظم کیخلاف عدالت میں دائر کیاگیاہے اور وزیراعظم نے ملک کا سربراہ رہتے ہوئے جس کا دفاع کرنا ہے۔ یہ ایسی آئیڈیل صورتحال ہے، جو آج سے پہلے کسی پاکستانی کونصیب نہیں ہوئی۔ اس سے پہلے جتنے بھی ایسے کیس دائر ہوئے، وہ اولاً تو عام عدالتوں کے بجائے، حکومتوں کے بنائے خصوصی احتساب کمیشنوں وغیرہ میں دائر ہوئے، یاثانیاً وہ ڈکٹیٹروں نے احتساب کے نام پر سیاستدانوں کو اپنی حمایت پر مجبور کرنے کیلئے دائر کئے، یا پھر حکومت نے اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف بدنیتی سے قائم کئے۔ ہر صورت میں یہ طاقت ور فریق کے کمزور فریق کے خلاف انتقامی مقدمات ہوتے تھے۔ لیکن خوش قسمتی سے نواز شریف کے ساتھ ایسا نہیں ہوا۔

دوسری بات یہ کہ یہ کیس ملک میں بنائے ہی نہیں گئے، پانامہ نامی ملک میں دنیا بھر کے دولتمندوں کے خفیہ اکاؤنٹس یا بے نام سمندر پار کمپنیوں کے اکاونٹس ہیں۔ وہاں کے کسی کارندے نے ان بے نام کمپنیوں کے مالکان کے ناموں پر مشتمل کاغذات عالمی صحافیوں کی ایک تنظیم کودے دئیے، اس تنظیم نے دنیابھر سے رضاکارانہ کام کرنے والے متعدد صحافی اکٹھے کرکے کئی سال ان کاغذات پر تحقیق کی، یہ کاغذات سچے نکلے۔ چنانچہ صحافتی تنظیم نے شائع کردئیے۔ دنیا بھرکے متعدد دولت مندوں کے ساتھ ساتھ اس میں میاں صاحبان کی اولاد کے بھی نام آگئے۔ میاں صاحب اس سے پہلے ایسی چیزوں کا انکار کرتے رہے تھے۔ یہ مگر غیر ملکی سطح کا انکشاف تھا۔ پوری دنیا اسے مان چکی تھی۔ اس سے انکار ممکن نہ تھا۔ اپوزیشن نے احتجاج کیا۔ میاں صاحب نے کمیشن بنانے کی تجویز دی۔ جماعتِ اسلامی اس کیس کو عدالت میں لے گئی۔ کیس چلنا شروع ہو گیا۔ فیصلے کے دن میاں صاحبان اور پوری قوم سانس روکے فیصلے کا انتظار کر رہی تھی۔ خدشہ تھا، میاں صاحب نااہل ہو جائیں گے۔ دو ججوں نے ایسا لکھا بھی مگرتین ججز نے مزید تحقیقات کی ضرورت سمجھتے ہوئے جے آئی ٹی تشکیل دے دی۔ جے آئی ٹی اس لئے ضروری تھی کہ اپنے دائرۂ کار اور ضابطے کے تحت سپریم کورٹ خود تحقیقات نہیں کر سکتی تھی۔ اپوزیشن اس پرمایوس ہوگئی، حکمرانوں نے مٹھائی بانٹی۔ جے آئی ٹی بنی، نواز شریف خودبھی پیش ہوئے، ان کی اولاد اور رشتے دار بھی پیش ہوئے۔ تفتیش تفتیش ہی ہوتی ہے، کوئی بھی ملزم یامجرم اس سے خوش نہیں ہو سکتا، نہ اس کی ناخوشی سے کوئی تفتیش روکی جاسکتی ہے۔ بہرحال اب رپورٹ عدالت میں پیش ہوچکی۔ اب اس پربحث ہوگی۔ یہ خالصتاً ایک قانونی معاملہ ہے۔ رسولِ رحمت نے فرمایا، جب معاملہ عدالت میں آجائے تو پھر عدالت کو قانون کے مطابق فیصلہ کرنا ہوتاہے۔ دلائل مضبوط اور آدمی صاف ہو تووہ عدالت سے بھاگتا نہیں، عدالت جاتاہے۔ اگر عدالت ٹھیک نہیں تو بھی یہ وزیراعظم کا قصور ہے، ملک کے ہزاروں لوگوں کو روزانہ انھی عدالتوں سے واسطہ پڑتاہے۔ چنانچہ بطور وزیراعظم ادارے ٹھیک کرنا انھی کاکام تھا۔ بہرحال نواز شریف خوش قسمت ہیں کہ وہ دنیا کے طاقتور ترین ملزم ہیں۔ وہ ملک کے وزیراعظم ہیں۔ وہ انتہائی دولت مند شخص ہیں۔ انھیں دنیا کے بہترین وکیلوں کی مشاورت اور خدمات حاصل ہیں۔ ملک اور بیرون ملک ان کے بہترین تعلقات ہیں۔ وہ اتنے معصوم نہیں کہ سیاسی یا عدالتی داؤ پیچ نہ جانتے ہوں۔ وہ ایک بھٹی کے کاروبار سے اٹھ کر دنیا کے بہترین کاروباری بنے ہیں۔ وہ پاکستان جیسے ملک کے تین دفعہ وزیراعظم بن چکے ہیں۔ پاکستان وہ ملک ہے، جہاں ابھی تک الیکشن کا شفاف نظام موجود نہیں، یہاں قانون کی حکمرانی نہیں۔ یعنی یہاں کا وزیراعظم بننے کے لئے بڑی خاص صلاحیتوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ تین دفعہ وزیراعظم بن کے میاں صاحب نے ثابت کیا کہ ان میں یہ صلاحیتیں کسی بھی دوسر ے پاکستانی سے زیادہ موجود ہیں۔ سو انھیں سیدنا حسینؓ کے بعد مسلمانوں کا سب سے بڑا مظلوم اورایک بے بس معصوم نہیں سمجھنا چاہئے۔ نہ وہ اتنے شریف ہی ہیں کہ اپنا حق دے دیں۔ آپ دیکھئے گا، نواز شریف لڑے گا، زیادہ امیدہے، وہ صورتحال کو سنبھال لے گا، اگر نہیں بھی سنبھالتا اور اگر آج اسے جانابھی پڑتاہے تو میاں شریف کا وہ بیٹا نہیں جائے گاجو کبھی کاروبار کو تحفظ دینے کے لئے سیاست میں آیاتھا۔ وہ بہت کچھ کماچکاہے۔ دولت، شہرت، سیاست، تعلقات اور کہیں زیادہ کچھ۔ اتنا کہ اس کی حکومت میں کسی غریب کا بیٹااس سے آدھا بھی نہیں کما سکا۔

قاسمی صاحب نے اپنے کالم میں لکھا کہ نواز شریف کے ایک متوالے نے تین دن سے کھانا نہیں کھایا۔ ایسے لوگ بہت بھولے ہیں۔ یہاں دن رات بے گناہوں پر مقدمے ہوتے ہیں۔ عورتوں سمیت پولیس پورے پورے خاندان کو اٹھا کر لے جاتی ہے۔ عزت داروں کی عزت اور جائیداد نیلام ہو جاتی ہے۔ نظام ایسا ہے کہ غریب اور کمزور کو ہر روز مرنا اور ہر روز جینا پڑتاہے۔ تھانیدار ناجائز پرچے کاٹ دیتاہے۔ پٹواری رشوت لیے بغیر کام نہیں کرتا۔ اصلی پیسوں کے عوض مارکیٹ سے اصلی چیزنہیں ملتی۔ بغیر رشوت یا طاقت کے اپنا حق نہیں ملتا۔ دن دیہاڑے ڈاکے پڑتے ہیں۔ کوئی پرسان حال نہیں۔ تعلیم، صحت اور دیگر بنیادی سہولیات قوم کو میسر نہیں۔ یہ سارا کرپٹ اور عوام دشمن سسٹم میاں صاحب کے نیچے کام کرتاہے۔ اسے ٹھیک کرنے یا ٹھیک نہ کرنے کے ذمے دارکوئی اور نہیں خود میاں صاحب ہیں۔ لیکن اس کے باوجود عوام پر ٹوٹتے نت نئے مظالم پر میاں صاحب نے کبھی آنسو نہیں بہائے، کبھی کھانا نہیں چھوڑا۔ یہاں بچیوں کا جہیز نہ ہونے پر والدین خود کشیاں کر لیتے ہیں، میاں صاحب نے کبھی کھانا نہیں چھوڑا۔ یہاں غریب لوگوں کی بجلی کٹ جاتی ہے اور وہ گرمی میں تڑپتے رہتے ہیں، میاں صاحب نے کبھی کھانا نہیں چھوڑا۔ پچھلے دنوں رد الفساد کے تحت کتنے بے گناہ علماء بھی عدالتوں کے دھکے کھاتے رہے۔ میاں صاحب نے ایک بیان تک نہیں دیا۔ ہاں درست ہے کہ میاں صاحب نے موٹروے بنایا مگر اس پر غریب کی کھوتی ریڑھی رکشے یا موٹر سائیکل کو جانے کی اجازت نہیں۔ اس لئے اے بھولے عوام! آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، آپ تسلی رکھئے، میاں صاحب پر آپ کی ہمدردی پر نہیں کرپشن پر کیس بناہے۔ آپ کھانا کھائیے، میاں صاحب اپنا کیس لڑنا جانتے ہیں۔