قارئین کے فیڈ بیک سے ایک کالم نگار کبھی بے نیاز نہیں رہ سکتا۔ قارئین ہی کالم نگار سے متاثر نہیں ہوتے، ایک کالم نگار بھی اپنے قارئین سے اثر لیتا ہے۔ ایک باضمیرکالم نگار اپنی صحافتی دیانت اورکامل تحقیق کی روشنی میں جو موقف اختیار کرتاہے، پورے خلوص سے وہ اس موقف کودلیل میں لپیٹ کراورلفظوںکے طشت میں رکھ کر اپنے قارئین کی ذہنی ضیافت کے لئے پیش کیاکرتاہے، قارئین ہی چونکہ ایک کالم نگار کے بنیادی مخاطب اوراس کااصلی اثاثہ ہوتے ہیں، چنانچہ وہ اپناقلم کبھی ان کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کا شعوری ذریعہ نہیں بننے دیتا۔ یہ بھی البتہ ہو جاتاہے کہ کالم نگار ایک اسلوب اختیار کرتا ہے یا کوئی ایسی حقیقت پیش کرتاہے کہ قارئین میں سے بعض جسے اپنی افتادِ طبع، سیاسی و مذہبی وابستگی یا اپنی روایتی معلومات کے تناظر سے ہم آہنگ محسوس نہیں کرتے۔ ایسے میں باشعور قارئین کالم نگار تک اپنا نقطۂ نظر یا جذبات پہنچادیتے ہیں، ایک وسیع النظر کالم نگا جسے ناصرف خوش آمدید کہتاہے، بلکہ ضروری ہو توآئندہ کالم میں شامل بھی کر لیتاہے۔ بڑے بڑے کالم نگاروں کے ہاں یہ روایت رہی ہے، بلکہ بعض مرحوم کالم نگاروں کے ہاں تویہ روایت اتنی بڑھ گئی تھی کہ اخبار کو ان کے متعددکالم قارئین کے لکھے ہی چھاپنے پڑتے رہے تھے۔ یعنی قارئین کے خطوط پرمشتمل۔
جیساکہ ہوا کرتاہے، سوشل میڈیا کے علاوہ روایتی ذرائع سے بھی، دوسروں کی طرح اس کالم نگار کوبھی اپنے کالموں پر فیڈبیک موصول ہوتارہتاہے۔ بعض دفعہ تو ایسے بڑے ناموں اور جید لوگوں کی طرف سے بھی تھپکی نصیب ہو جاتی ہے کہ کئی دن کپڑے تنگ تنگ محسوس ہوتے ہیں۔ لیکن ظاہر ہے مخالفت میں بھی ردِعمل ملتا ہے۔ مثلاً پچھلے دنوں اس خاکسارنے کشمیر پر قدرے غیرروایتی موقف پیش کیا تو ا س کالم کو زیادہ تر سناٹے کا سامنا کرنا پڑا۔ البتہ طاہر القادری صاحب کے اسمِ گرامی کے ساتھ’ متنازع ترین شخصیت‘ کے الفاظ لگا کر مشہور کتاب لکھنے والے نواز کھرل صاحب نے خاص طور پر اس موقف کو سراہا۔ مفتی منیب الرحمٰن صاحب ایک سلجھی ہوئی اورمتین و متوازن علمی شخصیت ہیں۔ پچھلے اخبار میں ان کے لکھے ایک کالم پر اس خاکسار کو کالم لکھنا پڑا، تو مفتی صاحب نے اپنے کالم میں ناصرف اس پر ضروری وضاحت فرمادی بلکہ اس خاکسار کے فکاہی اسلوب پر اپنا وضعدار ردِ عمل بھی دیا۔ جس پر اس کالم نگار نے فون پر ناصرف ان کے حضور اپنی بات کی وضاحت کی، بلکہ ان کی قابلِ احترام علمی خدمات کے بارے میں مکمل کالم بھی سپردِ قلم کیا۔ جنرل مشرف کے جہادِ کارگل کی فضلیت کو یہ خاکسار اپنے ایک کالم میں تسلیم نہ کر سکاتو نتیجتاایک جہادی جماعت کے دوست نے اسے دل پر لکھ لیا۔ اگر آپ سچائی کے لیے لکھتے ہیں تو پھر آپ کو یہ سب سہنا پڑتا ہے۔ ایک کالم میں ذکر کیا کہ باپ سے وراثت میں بیٹے کو پارٹی قیادت نہ ملنے کی روایت اب سوائے جماعتِ اسلامی کے کسی دوسری دینی یا سیاسی جماعت کے ہاں موجود نہیں رہی۔ تو اس پر مرکزی جمعیت اہلِ حدیث کے مقامی ترجمان جناب ابرار ظہیر صاحب کی طرف سے خاکسار کو لکھا گیا کہ مرکزی جمعیت کے امیر ساجد میر صاحب کی اولاد میں سے بھی کوئی کسی جماعتی عہدے پرفائز اورجانشینی کی لائن میں موجود نہیں۔ بہرحال یہ سب روٹین کی چیزیں ہیں۔ ایک کالم نگار کا جن سے واسطہ رہتاہے۔
اسی سلسلے کی ایک کڑی سمجھئے کہ ایک طویل خط اس خاکسار کو وفاق المدارس السلفیہ کے ذمے دار اوررؤیتِ ہلال کمیٹی کے وفاقی رکن جناب یٰسین ظفر صاحب کی طرف سے موصول ہواہے۔ یہ خط دراصل ایک طویل مضمون ہے۔ جسے مولانا عبدالعزیز مرحوم کے بین الاقوامی قانون کے ماہر صاحبزادے نے تحریر کیاہے۔ خطبہ جمعہ دیتے ہوئے، مولانا عبدالعزیز صاحب کی وفات منبرِ رسول پر ہوئی تھی۔ بہرحال انھی مرحوم کے فرزندِ محترم کا یہ مضمون جناب یٰسین ظفر صاحب نے اس عاجز کو بھیجا ہے۔ بقول مکتوب نگارجس میں سعودیہ اورقطر کے متعلق حالیہ تنازع پرکچھ حقائق پیش کئے گئے ہیں۔ مضمون طویل ہے، تاہم خلاصہ یہ ہے کہ اخوان دو قسم کے ہیں۔ ایک عام اوردوسرے وہ جومغرب میں اعلیٰ پوسٹوں تک جاپہنچے ہیں۔ یہ مغربی تھنک ٹینکس کا حصہ بنے اوراب مغرب ہی کے ایجنڈے میں خرچ ہو رہے ہیں۔ یہ وہاں ہمارے لئے حسین حقانی اور خلیل زلمے کا کردار نبھاتے ہیں۔ یہ لوگ ایران، مغرب اوراسرائیل کے عزائم کی تکمیل میں استعمال ہوجاتے ہیں۔ قطر اس اکٹھ کی کھلی تجربہ گاہ ہے۔ مشرق وسطیٰ میں سب سے بڑا امریکی اڈہ بھی یہیں قطر میں ہی ہے۔ دنیا بھرکو چھوڑ کے طالبان یا داعش وغیرہ کے دفتر کھلتے ہیں تو کل چالیس لاکھ آبادی والے ملک اسی قطر ہی میں۔ عین ممکن ہے یہ امریکی اشیرباد کے باعث ہو یا قطر اور ایران کے درمیان موجود سمندر میں پائے جانے والے دنیا کے سب سے بڑے گیس کے ذخائر کی وجہ سے۔ بہرحال یہاں امریکی نظام ِ تعلیم اورمغربی طرزِزندگی پنپ رہاہے، اخوان نے مگرکبھی اس کی مذمت نہیں کی اوریہ کہ یہیں سعودیہ کیخلاف سوچ وعمل کے تانے بانے بنے جاتے ہیں۔ اسی کی عکاسی کرتاقطری بادشاہ اور کرنل قذافی کا ایک ویڈیو کلپ بھی انٹرنیٹ پر سامنے آچکاہے۔ جس میں وہ سعودیہ سے حرمین بازیاب کروانے کے بارے خفیہ بات چیت کرتے سنے جا سکتے ہیں۔ لکھاہے، اوبامہ انتظامیہ کے دور میں یہ کام زیادہ عروج پر رہا، اسی باعث سعودیہ کی اوبامہ سے نہ بن سکی۔ ٹرمپ کی آمد پر حالات میں تبدیلی آئی تو سعودیہ امریکہ کے قریب ہوا اوراسی ردِعمل میں قطری کارگاہِ عمل میں تیزی آگئی، چنانچہ جواباًسعودیہ بھی اپنا سخت ردعمل دینے پر مجبور ہوگیا۔ یہ ردِ عمل اخوان کے ا س طبقے کے خلاف ہے، جو مغربی استعمار کے استعمال میں ہے، وگرنہ شاہ سلمان کے آنے کے بعد سعودیہ نے اخوان کے لئے نرمی بھی دکھائی ہے۔ مثلاًسعودیہ کے کئی اداروں میں اخوانی فکر کے حامل لو گ اعلیٰ پوسٹوں پر فائز رہے اور یہ کہ اندریں حالات کسی بھی ملک کی طرح سعودیہ کو اپنی سلامتی کے لیے حتمی اقدام اٹھانے کی اجازت ہے وغیرہ وغیرہ۔
یہ خط تقریباًاسی مضمون کا ہے۔ البتہ اخوان سے متعلق مندرجات یقیناٹھوس دلائل کے متقاضی ہیں۔ یقیناسعودیہ کوایران اور اخوان سے شکایت ہو سکتی ہے، جو بجا بھی ہو سکتی ہے، مگر اسے سفارتی سطح پرحل کرنے کے بجائے، یوسف قرضاوی جیسے اسلامی سکالروں کو دہشت گرد قرار دیناقطعاًسعودی عرب ا ور اتحادِ امت کے حق میںنہیں ہوسکتا۔ یقینا اخوان نے مغربی یلغار کے جواب میں لٹریچر اور قربانیاں پیش کی ہیں۔ سعودیہ کی حرمین، پاکستان او راسلام کے لئے خدمات کے باعث ان سے ہماری محبت بھی یقینابجا ہے۔ تاہم اس کا یہ مطلب بھی مناسب نہیں کہ عالمِ اسلام کی باہمی لڑائی میں ثالث بننے کے بجائے ہم پارٹی بننے کی کوشش کریں۔ ایسے تمام عالمی موقعو ں پربڑی خوبصورتی سے پاکستان ہمیشہ اپنی ثالثی پوزیشن بنانے اور بچانے میں کامیاب رہا ہے۔ یقینا ایک بار پھریہی کردار نبھاناپاکستان اورامت کے حق میں ہے۔ سعودیہ کو اورہمیں یہ سمجھنا چاہئے کہ پاکستان کو سعودیہ سے کہیں زیادہ سخت حالات میں جینا پڑ رہاہے۔ دنیا بھر کی ایجنسیوں کا اتحاد بھارتی چھتری تلے دائم پاکستان کے درپے رہتاہے۔ بظاہر دوست اور ہمسایہ کہلانے والے ممالک پاکستان کو تین طرف سے سینڈوچ کی طرح دبوچنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں ہونے دیتے۔ پاکستان اتنا نادان بھی نہیںکہ دوستی کے پردے میں کی گئی ہر سازش اور شرارت کو سمجھتا نہ ہو۔ اس کے باوجود جنگ کی آگ بھڑکانے کے بجائے پاکستان ہمیشہ سفارتی سدھارکی راہ اپناتاہے۔ یہی حکمت عملی ہے کہ دنیا کے کتنے ہی ملک ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے بارود اور خون میں نہا گئے مگر ہم نے کسی بپھرے ہوئے بھینسے کے لیے سرخ کپڑا اور کسی بدمست ہاتھی کے سفاک رقص کیلئے میدان مہیا نہیں ہونے دیا۔ تحمل، تدبر اور حکمتِ عملی کی یہی راہ ایک بار پھر ہمیںاختیار کرنی چاہئے۔ اسی میں امت کا مفاد اور اسی میں سعودیہ کابھی بھلا ہے۔