جنات انسانوں سے پہلے تخلیق ہوئے۔ آگ سے اور سرکش۔ اتنے سرکش کہ جب اللہ نے انسانوں کی تخلیق کے اپنے فیصلے کے متعلق فرشتوں کو اطلاع دی، تو سراپا اطاعت فرشتے تھرا اٹھے۔ عرض کی، یاخدا! کیوں ایک بااختیارفسادی نسل پیدا فرماتے ہیں، یعنی بارے فساد کے یہ جنات کم ہیں کیا؟فرشتوں کا علم ماضی کے تجربہ تک محدود تھا اور رب کا علم ہر جہت سے لا محدوداور مبنی بر حکمت۔ چنانچہ انسان پیدابھی ہوا اور سرکشی سے تحفظ کی خاطراس کے لیے انبیاء کی رہنمائی اورآسمانی روشنی کا انتظا م بھی ہوا۔ جنات کی سرکشی یوں بھی تھی کہ زمیں ہی کو فساد سے بھردینے پر اکتفا نہ کرتے۔ ایک دوسرے کے کندھوں پر قدم ٹکاکے آسمانوں تک پہنچ جاتے اورآسمانی دنیا کی جاسوسی کی کوشش کرتے۔ یہ معمول جاری تھاکہ ان کی آسمان تک چڑھائی پر پہرے بٹھا دئیے گئے۔ اب جونہی یہ زمینی حدود سے اوپر سراٹھانے کی کوشش کرتے، شہاب ِ ثاقب کا میزائل ان کے سر ہو جاتا۔ اس افتادسے یہ سٹپٹاگئے۔ کہنے لگے، یا توانسانوں کیلئے کوئی بڑی بھلائی اترنے والی ہے یا شدید گرفت۔ کسی طور اس کی کھوج لگاؤ۔ زمیں میں پھیل جاؤ او رخبر لاؤکہ آخر ایسی سخت سیکورٹی کاباعث کیاہے؟ انھی دنوں ایسا ہی ایک کھوجی ٹولہ رسول اللہ کے پاس آپہنچا۔ رسول اللہ ﷺکو قرآن پڑھتے سناتوفوراًسمجھ گئے کہ اچھا تو یہ معاملہ ہے۔ یعنی یہ قرآن اترناتھا، جس کی خاطر نظام ِ کائنات کی سیکورٹی سخت کردی گئی تھی۔ یہ تھاقرآن۔ اور یوں اتراہے ہمارا قرآن۔ قرآن جسے جنات نے سنا تو ان کی ساری سرکشی پگھل کے رہ گئی۔ القصہ، اپنی قوم کو جاکے جنوں نے خبر دی اوریہ بھی بتایا کہ بھئی ہم تو ا س قرآن پر ایمان لے آئے۔ جنات میں مومن بھی ہوتے ہیں اور کافربھی۔
یہ قرآن ایساہی تھا، جو سنتاجھوم اٹھتا۔ مکے کی ایک شب کی بات ہے۔ صبح صادق کی ذرا سی روشنی پھیلی توابوجہل نے دیکھاکہ اس کے سارے کفرکے ساتھی محمد ﷺکے گھرکے ارد گرد چھپے قرآن سن رہے تھے، روشنی ہوئی توسبھی ایک دوسرے پر منکشف ہوگئے۔ بڑے شرمندہ ہوئے۔ کہنے لگے، کیا قیامت ہے کہ دن کو دوسروں کو روکتے ہیں اور رات کوخود چھپ کے قرآن سنتے ہیں۔ کسی نے دیکھ لیا تو کیا منہ دکھائیں گے۔ وعدہ کیاکہ اب ایسا نہ کریں گے۔ اگلی شب رہ مگر پھر بھی نہ سکے۔ یہ سوچ کے کہ دوسرے نہ آئیں گے، ہر ایک اگلے دن بھی اپنی اپنی جگہ قرآن سننے کوموجود تھا۔ یہ نت وعدہ کرتے مگر قرآن انھیںنت کھینچ لاتا۔ چنانچہ معلوم ہوا۔ جنوں ہی پر نہیں جو سمجھ سکیں یہ قرآن ان کافروں کے بھی دل لوٹ لیتاہے۔ سوائے ان مسلمانوں کے کہ جنھیں دنیا جہاں کی توخبر ہوتی ہے، قرآنِ مجید میں کہی بات کی خبرنہیں ہوتی۔
انسان تو پھر باشعور ہیں، قرآن کی تاثیر کہیں بڑھ کر ہے۔ مدینہ میں رسول اللہ کھجور کے تنے سے ٹیک لگا کے جمعہ کا خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے۔ ایک انصاری عورت نے جھاؤ کے درخت کا منبربنوا دیا۔ جس جمعے کھجور کا تنا ہٹاکے منبر رکھا گیاتو کھجور کا یہ بے جان اور خشک تنا کسی معصوم بچے کی طرح سسکیاں اور آہیں بھرنے لگا۔ رسول اللہ ﷺنے اس پر اپنا دست شفقت پھیرا، توتب یہ خاموش ہوا۔ آپ نے فرمایا، یہ اللہ کے ا س ذکر یعنی قرآن سے دور ہٹائے جانے کی وجہ سے رو رہا تھا۔ ہم پر مگرقرآن کا اثر نہ ہو سکا۔ ہم کھجور کی چوبِ خشک سے بھی زیادہ بے حس نکلے، قرآن کے بقول، پتھروں سے بھی زیادہ سخت۔
مدینے کی ایک اور شب کی بات ہے۔ صحابی ٔ رسول اسید بن حضیرؓاپنے گھرمیں قرآن پڑھ رہے تھے، پاس ان کا ننھابیٹایحیٰ سو رہاتھا۔ پاس ہی گھوڑا بندھا تھا۔ ریگ زار ِ عرب کی چاندنی میں نہائی رات۔ عربی لہجہ، پر سوز آواز اور دل کی گہرائیوں سے نکلتی قرآنی آیات۔ رحمت ٹوٹ کے برسی اور سماں بندھ گیا۔ اسی دوران مگر یکایک گھوڑا بدکااور رسہ تڑوانے لگا۔ اسید ڈرے کہ وحشت میں آکے جانور کہیںبچہ نہ کچل ڈالے۔ ٹھہر گئے۔ یہ تھمے تو گھوڑابھی تھم گیا۔ مطمئن ہوکے پھرپڑھنے لگے توگھوڑا پھر بدکنے لگا، یہ پھر رکے توگھوڑا پھر شانت ہوگیا۔ تیسری بار بھی یہی واقعہ ہوا۔ اب جو سراٹھاکے آسمان کو دیکھا تو دلفریب قندیلیں سی آسمان سے اترتی دکھائی دیں۔ صبح خدمتِ رسول میں حاضرہوکے ماجراکہا توسرکار نے فرمایا، اسید !وہ فرشتے تھے، جوآسمان سے تمھارا قرآن سننے آئے تھے، تم پڑھتے رہتے تو فرشتے مسحور ہو کے یوں سنتے رہتے کہ صبح دم سارا مدینہ انھیں دیکھ لیتا۔ ہم مگر قرآن پڑھتے بھی ہیں تو یوں کہ فرشتے کیااتریں گے انسان تک بھاگ اٹھتے ہیں۔
ابی بن کعب ؓ مدینے کے سب سے بڑے قاری تھے۔ رسول اللہ ﷺنے انھیں بلاکے فرمایا، اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم ارشاد فرمایا ہے کہ میں تم سے قرآن سنوں۔ ابی کا رواں رواں کانپ اٹھا۔ پوچھاکیا خدا نے میرا نام لے کے یہ فرمایا ہے ؟ آقا نے بتایا، ہاں اللہ نے تمھارا نام لے کر ہی یہ فرمایاہے۔ یہ قرآن کے قاری یعنی قرآن پڑھنے والے کی شان ہے۔ فرمایا، اس کے ایک لفظ پر دس نیکیاں ملتی ہیں۔ الف لام میم ایک نہیں تین حرف ہیں۔ یعنی صرف الم کہنے پر تیس نیکیاں مل جاتی ہیں۔ حشر میں قاریٔ قرآن سے کہا جائے گا، پڑھتاجا اورجنت کی منزلیں چڑھتاجا، جہاں تیرا قرآن مکمل ہوگا، وہاں تک کی ساری جنت تمھاری ہے۔ ایک ایک گز دنیاوی زمیں پر قتل کر دینے والے مگر ہم جنتی جائداد کمانے کاکب سوچتے ہیں۔
صحابہ کاقافلہ سفر میں تھا۔ بھوک نے آستایاتواہل بستی سے کھانا مانگا۔ انھوں نے انکار کر دیا۔ یہ وہیں پڑاؤ کئے بیٹھے تھے کہ بستی کا ایک باشندہ بھاگا بھاگا آیا۔ کہنے لگا کوئی دم کرسکے تو ہمارے سردار کودم کردے، اسے سانپ نے ڈس لیا ہے اور زہر اس کی نس نس میں پھیلتاجاتاہے۔ ایک صحابی نے دم کیا پر مفت نہیں۔ چالیس بکریاں معاوضہ لیں اور سردار بھلا چنگا ہو گیا۔ سفر سے لوٹ کے سرکار کو قصہ سنایاتو آپ نے فرمایا، تمھیں کیسے معلوم پڑا کہ سورۂ فاتحہ بطوردم بھی پڑھی جاتی ہے؟ سورۂ فاتحہ ہمیں بھی آتی ہے، پر ہم جھگڑتے ہیں کہ امام کے پیچھے پڑھنی چاہئے یا نہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، سورۂ فاتحہ جیسی کوئی سورت توارت، انجیل اور زبور یعنی سابقہ کسی کتاب میں نہیں اتری۔
جبریل رسول ِ اقدس کے پاس تشریف رکھتے تھے کہ آسمان سے ایک کھٹاک کی آواز آئی۔ جبریل نے بتایا، اتنے نبی اور اتنی امتیں گزر گئیں مگر آسمان کا یہ دروازہ آج پہلی بار کھلا ہے اور اس سے آنے والا فرشتہ بھی آج پہلی بارزمیں پر اترا ہے۔ یہ دو تحفے لایا ہے۔ ایک سورۂ فاتحہ اور دوسرا، سورۂ بقرہ کی آخری آیات۔ آدمی سوچتاہے، آسما ن کا دروازہ تو کھل گیا مگر قرآن کے لئے ہمارے دلوں کے دروازے کب کھلیں گے؟
یہ قرآن ایسا ہی ہے۔ حرف حرف شفااور لفظ لفظ معجزہ۔ سورۂ بقرہ جہاں پڑھی جائے، جادو اس گھر میںاثر نہیں کرتا۔ سورۂ فلق اور سورۂ ناس خاص جادو کے توڑ کے لئے اتریں۔ یہ قرآن اسی ماہ میں ہمارے لئے اترا۔ پچھلا کالم آپ نے پڑھا۔ کفار نے تواپنے سائنسی تجربات سے قرآن کی روشنی پا لی، ہم جانے کب قرآن تک پہنچ پائیں گے۔ یہ سمجھے جانے کو آیا تھا، ہم مگر اس کی تلاوت سے بھی چالو ہو گئے۔ شکوہ پھر یہ کہ خوا رہیں۔ قارئین! کیوں نہ اس رمضان میں کم ازکم اس کا ترجمہ ہی پڑھ ڈالیں۔ ذرا دیکھیں توسہی رب نے ہمارے لئے اس میں لکھا کیاہے؟ تفہیم القرآن سے مفہومِ قرآن زیادہ سمجھ میں آتاہے۔ گو فتح محمد جالندھری، مولانا یوسف صلاح الدین، مولانا محمد جونا گڑھی، مولاناطاہر القادری، مولانا عبدالسلام بھٹوی، مولانا تقی عثمانی، جوادی اور دیگر کا ترجمہ بھی جدید، رواں اورعام آدمی کے لئے قابلِ فہم ہے۔