1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. یوسف سراج/
  4. ریمنڈ ڈیوس کی کتاب، تضادات کا پلندہ !

ریمنڈ ڈیوس کی کتاب، تضادات کا پلندہ !

کتاب میں ریمنڈ ڈیوس دعویٰ کرتاہے کہ اپنی فیلڈ کا وہ ایک لاجواب فنکاراورشاندار شارپ شوٹر تھا، اسلحہ شناسی اور نشانہ بازی کی اس کی سچی صلاحیت نے فنِ حرب کے اس کے اساتذہ کو بھی حیران کر رکھا تھا، بغداد و افغانستان جیسی جنگوں میں وہ خدمات سرانجام دے چکاتھا، جس کی وجہ سے سیکنڈز میں اپنی ذہنی صلاحیت بروئے کارلانے اور ہنر مندی کا کارگر استعمال کرنے جیسے امور کا وہ غیر معمولی ماہر ہو چکا تھا۔

چونکہ یہ بات ایک امریکی کہتاہے تو ہمیں اس کی بات پر یقین کر لیناچاہئے، البتہ لاہور کے مزنگ چوک میں وہ اپنے پہلے ہی امتحان میںہمیں ایسا دکھائی نہیں دیتا۔ بلکہ وہ پولیس کے کسی عام سپاہی سے بھی بد ترفیصلہ ساز، حواس باختہ وڈرپوک آدمی اورقطعی ایک اناڑی شخص معلوم ہوتاہے۔ مثلاًاسی کے بقول جیل روڈ پر رش میںپھنسی اس کی سفید سیڈان کے قریب ایک کالی موٹر سائیکل آکر رکتی ہے۔ جس پرفیضان اور فہیم دو نوجوان سوار ہیں۔ فیضان بائیک چلا رہا تھا جبکہ فہیم ا س کے پیچھے بیٹھاتھا۔ ریمنڈ بتاتاہے کہ گن فہیم کے پاس تھی، جو ریمنڈ کی طرف اس نے تان لی تھی، چنانچہ اپنی جان کو خطرے میں دیکھ کر ریمنڈ نے اپنے تحفظ اوردفاع میں کارروائی کرتے ہوئے انسانی جسم چھلنی کرنے کیلئے اپنا میگزین خالی کردیا۔

چلئے مان لیتے ہیں کہ صورت حال ایسی ہی بن گئی ہوگی۔ لیکن سوچئے، ریمنڈ کے بجائے اگر یہاںکوئی عام پولیس والا یا عام تربیت یافتہ اہلکار ہوتا توکیا وہ بھی یہی کرتا جو حضرت ریمنڈ صاحب نے کیا؟ یقینا نہیں، وہ کرتایہ کہ اپنی طرف اٹھی ہوئی گن پرفائرکرکے مخالف کی گن نیچے گرا ڈالتا، یاا س کی کلائی پر گولی داغ کے اس کا پستول والاہاتھ گن پکڑنے کے قابل نہ رہنے دیتا۔ یقینا ایک عام اعصاب اورمعمولی تربیت کے آدمی کیلئے تو اس صورتحال میں اپنے دفاع کیلئے اتنا ہی کافی تھاجبکہ ہمارا مایہ ناز سچا نشانے باز امریکی ناصرف یکبارگی پانچ گولیاںگن پکڑے فہیم کے جسم میں اتار ڈالتاہے بلکہ اس کی تربیت اسے اس پر بھی صبر نہیں کرنے دیتی، چنانچہ وہ بائیک چلانے والے فیضان کے جسم میں بھی گن گن کر ٹھیک اتنی ہی یعنی پانچ گولیاں فائر کر ڈالتاہے، جتنی گن تاننے والے کے جسم میں اتاری گئی تھیں۔ وہ گولیوں کی اسی منصفانہ تقسیم پر بس نہیں کرتابلکہ گاڑی سے اتر کے مقتولین کی تصویریں بھی بناتاہے۔ سوال یہ ہے کہ حضورِ والاپروفیشنل صاحب ! کہ کیا واقعی یہاں دس ہی گولیاں خرچ کی جانی چاہئیں تھیں؟ کیا گن بردار کے علاوہ بائیک ڈرائیور کو بھی پانچ گولیاں مارنے ہی سے خطرہ ٹل سکتاتھا؟ کیا اس قتل عام کے بعدمجمع میں نکل کے تصویریں بنانا بھی فوری خطرہ ٹالنے کیلئے ناگزیرہی تھا ؟قارئین !کیا یہاں کتاب کا دعویٰ، واقعی مصنف کے عمل کی تائیدکرتاہے ؟ جی نہیں، چنانچہ یہ ہے کتاب کا پہلا تضاد!

ایک قاری یہاں محسوس یہ کرتاہے کہ ریمنڈ کے پاس چونکہ اس دن بلٹ پروف گاڑی کے بجائے کرائے کی سفید سیڈان تھی۔ جس میں یہ نازک اندام امریکی ویسے ہی خود کو غیر محفوظ سمجھ رہا تھا۔ اس کے پاس ارد گرد کی جاسوسی کے آلات بھی تھے۔ چنانچہ اس کے آلات نے جونہی ارد گرد کہیں اسلحے کی موجود گی کی نشان دہی کی، حواس باختہ ہو کے اس نے اسلحہ برداراور اس کے ساتھی پرپورا میگزین خالی کر دیا۔ یہ محض ایک ڈرے ہوئے امریکی کی حواس باختگی تھی، اس کی جان کو نہ تو کوئی فوری خطرہ لاحق تھا اور نہ اس کا ردِ عمل ہی دفاعی حدود کے اندررہ سکا تھا۔ یہ ایک امریکی ردعمل تھا۔ جس میں کسی موہوم خطر ے کے مقابل دوچار انسانوں کی قیمت کی آخر حیثیت ہی کیاہو سکتی تھی؟

دوسری بات، کتاب میں ریمنڈقاری کو بتاتاہے کہ وہ اردو اور پنجابی نہیں جانتاتھا۔ چنانچہ موقع پر موجود اہلکار کی بات نہ یہ سمجھ سکااور نہ اہلکار کو اپنی بات سمجھا سکا۔ البتہ حیرت انگیز طور پر کتاب ہی کے مطابق جب ریمنڈ ا س واقعہ کے بعدمزنگ چوک سے صرف انارکلی تک پہنچتاہے تو وہ یہ یکسربھول جاتاہے کہ اسے نہ اردوزبان آتی ہے اورنہ پنجابی زبان۔ ریمنڈ لکھتاہے کہ انار کلی کے قریب جب ہجوم نے اس پر یلغا رکردی تو پولیس اہلکار نے ہجوم کو بتایاکہ انھیں اس آدمی سے دور رہنا چاہئے کیونکہ ریمنڈ کے پاس ابھی تک گن موجود ہے۔ چنانچہ مجمع ڈر کے پیچھے ہٹ جاتاہے۔ یہاں ایک اور سوال بھی اٹھتا ہے، جو ہم بعد میں ذکر کریں گے، البتہ نوٹ کرنے کی بات یہ ہے کہ ریمنڈ یہاں ہمیں یہ نہیں بتاتاکہ پولیس اہلکار نے ہجوم سے یہ بات انگلش میں کی تھی، ویسے عقلابھی ایسامحال ہے، کیونکہ ایک عام پاکستانی اہلکار کو عام ہجوم سے انگلش میں نہیں اردو یا پنجابی ہی میں بات کرنی چاہئے تھی، اور ایسا ہی ہوابھی ہو گا، اگر ہوا ہوگا، لیکن یہاں ریمنڈ ڈیوس صاحب کی کتاب ہی اس کی کتاب کی تردید کرتی ہے۔ کیونکہ کتاب کے مطابق ریمنڈ باوجود اردونہ جاننے کے، اردو میں کی گئی یہ بات سمجھ بھی لیتاہے، یاد بھی رکھتا ہے اور کتاب میں ذکر بھی کرتاہے۔ یہی نہیں، انار کلی تھانے کے احوال بتاتے ہوئے، ریمنڈ ایک بار پھر یہ بتاتاہے کہ تھانے میں اس سے اردو اور پنجابی زبان میں سوال کیے گئے۔ یقیناآپ جانتے ہیں کہ اردو اور پنجابی، دونوں زبانیں آپس میں بہت ملتی جلتی اوربولنے میںاتنی قریب ہیں کہ دونوں ہی زبانوں سے انجان کوئی شخص بتاہی نہیں سکتاہے کہ اس سے کسی ایک زبان میں نہیں، بلکہ دو الگ الگ زبانوں میں بات کی گئی تھی۔ و ہ مگر ہمیں بتاتاہے، یہی نہیں، وہ ان کے الگ الگ نام بھی بتادیتاہے کہ ان میں سے ایک زبان اردو تھی اور دوسری پنجابی۔ قاری سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ یا تو ریمنڈ کو دونوں زبانیں آتی تھیںاور وہ کتاب میں اپنے قاری سے زبان نہ آنے کے متعلق جھوٹ بول رہاہے یا پھر وہ ہر کہیں جھوٹ بول رہا ہے، سوائے ان مقامات کے جہاں کوئی خارجی تصدیق یاشواہد اس کے بیانات کی تائید کرجائیں۔

واقعہ کی رات کے بعد پہلی صبح ریمنڈ کو میکڈونلڈسے ناشتہ کروایا جاتاہے توریمنڈ ڈیوس لکھتاہے کہ یہاں ناشتہ کروانے والافوجی اس سے کہتا ہے، ’’سرآپ بہت اچھے شوٹر ہیں، آپ نے بہت اعلیٰ تربیت لی ہوئی ہے۔ ‘‘ ریمنڈ نے کتاب میں یہ لکھ تو دیا ہے، لیکن سوال پیدا ہوتاہے کہ پاکستانی فوجی اتنے بے وقوف کب سے ہو گئے کہ وہ مقابل کے پسٹل کی محض جھلک دیکھ کر پانچ گولیاں پسٹل بردار اور پانچ گولیاںاس کے ساتھی کے جسم میں اتاردینے والے کسی حواس باختہ شخص کو بہترین شوٹر ہی نہیں، بلکہ اعلیٰ تربیت یافتہ بھی قراردے ڈالیں ؟ پھر ایک ایسے وقت میں کہ جب ایساکرنے والا کوئی غیر ملکی بھی ہو، ان کا قیدی بھی ہواور خود انھی کے دو ہم وطنوں کو محض اپنی وحشت سے قتل بھی کرچکا ہو؟ شاید ریمنڈ ڈیوس صاحب کا تصور یہاں خود کوپاکستانی کے بجائے کسی امریکی فوجی سے ہمکلام پاتاہے۔ لطف دیکھئے ریمنڈ صاحب کو کتاب میں اس وقت ایک طرف جان کے لالے بھی پڑے ہوئے ہیں اور دوسری طرف وہ اپنی اس تعریف کی تائید بھی کرنا ضروری خیال فرماتے ہیں۔ مزید لطف کی بات یہ کہ ابھی تک نہ ریمنڈ سے واقعہ کی تفصیلات پوچھی گئیںاورنہ اس کے ذاتی حالات وواقعات تفتیش کیے گئے، اس کے باوجود اس کی اعلیٰ تربیت اور بہترین شوٹنگ کی تعریف کردی گئی ہے، جس پرخوش ہو کر اب سارا واقعہ ریمنڈ ڈیوس صاحب از خودہی فوجی کو سنانے لگتے ہیں۔

کتاب کا ایک اور تضاد اس وقت سامنے آتاہے جب ایک طرف ریمنڈ فہیم اور فیضان کو شوٹ کرنے کی وجہ یہ بتاتاہے کہ وہ وردی میں نہ تھے، لہذا دہشت گرد ہو سکتے تھے، ویسے تواس کایہ لکھنا بھی بجائے خود ایک تضاد ہے کیونکہ ایک اور جگہ موصوف لکھتے ہیں کہ پاکستان میں وردی والوں پر بھی بھروسہ نہیں ہو سکتا، یعنی وردی میں بھی دہشت گرد ہو سکتے ہیں۔ لیکن بہرحال فہیم اور فیضان کے قتل کی وجہ وہ ان کے بغیر وردی کے مسلح ہونا بتاتاہے اور انھیں شوٹ کر دیتاہے، البتہ دوسرے مرحلے پر، انارکلی سڑک اور تھانے کے اندر اسے وردی میں ملبوس پولیس سارجنٹس کو دیکھ کر تحفظ کااحساس بھی ہوتاہے جبکہ اسی رات فوج کی وردی کی حفاظت میں پوری رات آپ جناب مارے خوف کے صرف پندرہ منٹ ہی سو سکتے ہیں، صرف اس بنا پر کہ پہریدار فوجی اپنی گن ہولسٹر سے نکال کے ہاتھ میں پکڑ لیتا ہے!میرا خیال وردی نہیں، خود ریمنڈ کی سوچ اس کا مسئلہ ہے۔ بہرحال کتاب کو ایک اور تضاد مل جاتاہے۔

حیران کن طور پرپہلی ہی صبح ناشتے کی میز پر ڈیوس صاحب کو ریسٹورنٹ میں چلتے ٹی وی پر پورا پاکستان ناصرف سراپا احتجاج دکھائی دیتا ہے، بلکہ مذہبی جماعتوں کے ہجوم اس کی پھانسی کا مطالبہ کرتے بھی دکھائی دیتے ہیں۔ سوال اٹھتاہے کہ ایک پاکستانی چینل پر صرف ایک ہی رات کے بعد یعنی جب ابھی واقعہ جاننے کے متعلق ہماری مذہبی جماعتیں کیا، خود پولیس بھی تفتیش شروع نہیں کر سکی تھی، ریمنڈ میکڈونلڈ پر ناشتہ کرتے ہوئے، پاکستانی قوم کو اپنی پھانسی کے لئے سراپااحتجاج دیکھ لیتاہے۔ کیا واقعی پہلی ہی صبح عوامی احتجاج شروع ہو چکا تھا؟کیا ناشتے کے مختصر عرصے میں واقعی ریمنڈ پاکستانی اردو میڈیا پر یہ سب دیکھ اورپھر سمجھ بھی سکتاتھا؟ جبکہ اس نے ہمیں بتا رکھاہے کہ اسے اردو نہیں آتی ؟ ٹھہرئیے، ابھی آپ کو مزید حیران ہونا ہوگاکیونکہ یہیں، یعنی واقعہ کی پہلی ہی صبح پاکستانی لیفٹیننٹ ریمنڈ کومقتول فہیم کی بیوی کی زہریلی گولیاں کھا کر کی گئی خود کشی کی خبر بھی سنا دیتا ہے، یعنی ٹھیک اس خودکشی کے متعلق بتا دیتاہے، جسے ابھی دس پندرہ دن بعد ریمنڈ کے چودہ روزہ ریمانڈ کے ختم ہونے کے دن وقوع پذیر ہونا تھا ! (جاری ہے )