1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. یوسف سراج/
  4. ریمنڈ ڈیوس کی کتاب، تضادات کا پلندہ (2)

ریمنڈ ڈیوس کی کتاب، تضادات کا پلندہ (2)

پیشی کے بعداگلی صبح کینال روڈ پر پولیس کے ٹریننگ کالج میں قونصل جنرل کارمیلاکاٹرائے کی قیادت میں امریکی ٹیم ریمنڈ ڈیوس سے ملاقات کرتی ہے۔ امریکی طبی ٹیم ریمنڈ کا معائنہ کرتی ہے، انھیں ان کے جسم پر کسی قسم کے تشددکے نشانات نہیں ملتے۔ جب کہ کتاب میں ریمنڈ قاری کو بتاتاہے کہ پہلے قرطبہ چوک اورپھر انارکلی سڑک پر ہجوم اس پرتشدد کر چکاتھا۔ جس کے جواب میں ریمنڈ ڈیوس ہاتھوں سے دفاع کرتا رہا۔ اب یا تو ریمنڈ امریکی نہیں افریقی جسم رکھتاتھاکہ جو پاکستانی ہجوم کی مار سہہ کربھی بے نشاں رہا، یا امریکی ڈاکٹر اتنے نا اہل تھے کہ وہ ایسا کوئی نشان حضرت والا کے جسم سے ڈھونڈنے میں ناکام رہے۔ ادھر ریمنڈ ڈیوس مدظلہ بھی ایسے صابر صوفی کہ تن کا تشددمن کے گیان میں پی ہی گئے۔ آخرپاکستانی ہجوم کا تشددتھا، کوئی پین کلرہی لے لی ہوتی۔ حالانکہ مشتعل پاکستانی ہجوم کے بارے ریمنڈ صاحب یہ بھی جانتے ہیں کہ اسی طرح کے ایک ہجوم نے گوجرہ میں ایک عیسائی کو مار ڈالا تھا، ہجوم ہی کے متعلق کتاب میںیہ تضاد بھی موجود ہے کہ انار کلی روڈ پر ہجو م پولیس کی موجودگی میں ریمنڈ کی طرف لپکتاہے، توپولیس والا ہجوم کو یہ بتاکے ڈرا دیتاہے کہ ریمنڈ مسلح ہے۔ البتہ کتاب کہتی ہے کہ یہی پولیس والا جب ریمنڈ سے گن لے کر چلتابنتاہے تواس دوران ریمنڈ کو اکیلے پا کر بھی ہجوم پاک صاف اور تقدس بھری نظروں سے ہی دیکھتارہتاہے۔ یہ ہوتی ہیں کچھ کتابوں کی کرامات، جنھیں ٹیکنیکلی تضادات کہتے ہیں۔

14 روزہ ریمانڈ کے دوران پولیس نے ریمنڈ سے تفتیش کرنا تھی، جس کے متعلق قونصل جنرل صاحبہ ریمنڈکوسمجھا گئی تھیں کہ خود کو سفارت خانے کا ملازم بتانے کی کوشش کرنا، تفتیش گو پولیس نے ریمنڈ ڈیوس کی کرنا تھی، یہاں مگر تفتیش ریمنڈ ڈیوس صاحب پولیس ڈیپارٹمنٹ کی کرتے نظر آتے ہیں، اسی دوران ِ تفتیش کے متعلق وہ ہمیں بتاتے ہیں، کہ انھیں پولیس کی تفتیشی اہلیت پر اعتبار نہ تھا، کیونکہ لاہور میں چند درجن پولیس آفیسر تھے، اور انھیں ماہانہ 250 کیس نمٹانا ہوتے تھے۔ ریمنڈ بتاتاہے کہ پولیس اس سے غیرمتعلقہ سوال بھی پوچھتی رہی، مثلاًریمنڈ کوکھانا صحیح مل رہاہے یا نہیں؟ویسے تو نہیں، البتہ قیدیوں سے کیوبا میںروا رکھے گئے امریکی حسن ِ سلوک کے تناظرمیں یہ سوال واقعی غیر متعلق ہوسکتاہے۔ ریمنڈ صاحب پولیس کے اس سوال کو غیر متعلقہ بتاتے ہیں البتہ اسی دوران زیرِ تفتیش رہ کر بھی آپ ہمیں لاہور کے تفتیشی افسروں کی کمی اوران کے کیسز کی زیادتی کے متعلق بتانے لگتے ہیں۔ شاید اسی کو متعلقہ بات کہتے ہیں۔

ریمنڈ کا اصرار ہے کہ وہ محض ایک سابق فوجی اور موجودہ کنڑیکٹر تھے، خوامخواہ عدالت میں وکیل اسے سی آئی اے سے جوڑنا چاہتاتھا۔ البتہ جب ایک خوش اخلاق پولیس افسرطارق انھیں بتاتے ہیں کہ ان کے ایک بھائی امریکی ریاست جارجیامیں پرانی گاڑیوں کا کاروبارکرتے ہیں توانھیں فورا کھٹکتا ہے کہ’’اب یہ مجھ سے تعلق جوڑ کر مزنگ وقوعہ کی بات چھیڑ دے گا۔ ‘‘ سرکارریمنڈ ڈیوس عالی جناب! وقوعہ کی بات چھیڑنے کے لئے تو آپ زیرِ تفتیش تھے ہی۔ یہاں آپ وہ پوچھی گئی اصل بات گول کر گئے ہیں، جس کے متعلق کتاب کے شروع میں آپ نے لکھا کہ سی آئی اے اور ملک و قوم کی بہتری کے لئے آپ نے کتاب میں حقائق چھپائے ہیں۔ سرکار مزنگ وقوعہ تو آپ سے جو پولیس افسرجب چاہتاپوچھ لیتا، آپ چونکے اس لئے کہ آپ کی جاسوسانہ حس ِتربیت نے جانچ لیا کہ اب وہ آپ کے اصل مشن کی بات کرے گا۔ ویسے جتنا بیداراورشاطر دماغ آپ کا ہے، واقعی کسی سادہ سے کنڑیکٹر کا ہی ہوتاہے نا ؟اسی دوران ایک دوسرے پولیس آفیسر آپ سے پوچھتے ہیں کہ کبھی ڈی ایچ اے گئے ہو ؟ آپ اس سوال کی حساسیت کو اتنا سمجھتے ہیں کہ لکھتے ہیں میں نے اس کا انتہائی محتاط جواب دیا۔ جی ہاں واقعی ایک سیکورٹی گارڈ کو تفتیش کے موقع پر اتنا ہی محتاط رہنا چاہئے، ویسے میں نے پڑھ رکھا ہے سرکار!کہ خفیہ جاسوس بھی ایسے موقعوں پرایسے ہی محتاط ہو جاتے ہیں، بہرحال آپ تو بس سیکورٹی گارڈ ہی تھے !آپ سی آئی اے کے ایجنٹ، اسٹیشن چیف یااور کچھ بھی نہ تھے، ہے نا! االبتہ سی آئی اے سے اتنی گہری دلچسپی رکھتے تھے کہ جب باراک اوبامہ لیون پینٹا کو سی آئی اے کا چیف مقرر کرتا ہے توتب کتاب کے باب اٹھارہ کے مطابق آپ حیران ہونے لگتے ہیںکیونکہ آپ کے بقول واشنگٹن سے طویل عرصے سے وابستہ رہنے کے باوجودلیون پینٹا سی آئی اے کا سب سے کم تجربہ رکھنے والے آدمی تھے۔ ظاہرہے یہ دلچسپی رکھنا آپ کے لئے لازم تھا، کیونکہ ایک کنڑیکٹر کی اپنے ملک کی خفیہ ایجنسیوں پر نظر نہ ہو تو اسے تو کوئی سیکیوڑٹی گارڈ بھی نہیں رکھتا، ہے نا!

عدالت میں پانچویں پیشی پر آپ بتاتے ہیں کہ پراسیکیوٹر کے بدلتے بیانات آپ کو بہت پریشان کرتے رہے۔ یہاں آپ کو پاکستان کے عدالتی نظام پر افسوس ہوتاہے کہ جج ا س غلط بیانی پر وکیل کو ٹوک نہیں رہے تھے، حضور جب آپ کو کارمیلا سمجھا کے گئیں کہ تم خود کو سفارتکار ظاہر کرنے کی کوشش کرنا، تب کیا آپ نے اس غلط بیانی پر اپنی قونصل جنرل کو ٹوکاتھا؟ نہیں نا! بڑے افسوس کی بات ہے۔ جب آپ کے امریکی صدر نے سی آئی کے کہنے پر پریس کا نفرنس کرتے ہوئے پوری دنیا کے سامنے جھوٹ بولاکہ آپ سفارتکا رہیں، حالانکہ آپ ہی کی کتاب کے مطابق آپ سفاتکار نہیں تھے، تب کیا آپ کے متعلقہ امریکی اداروں نے صدر صاحب کو ٹوکاتھا ؟نہیں نا! بہت افسوس کی بات۔

کتاب کے مطابق آپ ایک کنٹریکٹر تھے، جب آپ پھنسے تو امریکی سفارتخانے کی طرف سے سفارتی ویزہ جاری کرنے کی کوشش کی گئی، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے حکومت کے اصرار کے باوجودایسا نہ کیا اور مستعفی ہوکے پاکستان میں تاریخ ہو گئے۔ آپ کے بقول ججز جب وکیل کو نہیں ٹوکتے تو تب آپ کو وہ بے اصول لگتے ہیں، جبکہ اصولی موقف پر بے اصولی نہ کرتے ہوئے، جب پاکستانی وزیرِ خارجہ مستعفی ہو جاتے ہیں، تواسے آپ’’ سب سے زیادہ موقع پرست شخص‘‘ لکھتے ہیں، یعنی آپ کے نزدیک اصول اور انصاف ہونے کی واحد شرط کیا یہی ہے کہ وہ چیز امریکہ کے حق میں جاتی ہو ؟ایک قاری کوآپ یہی سبق دینا چاہتے ہیںنا؟

آپ لکھتے ہیں، جنرل پاشا کو جب امریکی سی آئی اے نے آپ کے سی آئی سے متعلق ہونے سے انکار کیا تو جنرل پاشا کوبہت غصہ چڑھا۔ ادھر صدر زرداری، وزیراعظم یوسف رضا گیلانی، جنرل شجاع پاشا، امریکی سفیر کیمرون منٹر، امریکی وزیرِ دفاع ہیلری کلنٹن، جنرل کیانی، ایڈمرل مائیک ملن اورسی آئی اے چیف لیون پینٹا سمیت امریکی صدرباراک اوبامہ آپ کے ایشو پر ایک دوسرے سے مسلسل رابطوں میں تھے، یعنی امریکیوں نے پاکستانیوں کو وخت ڈالا ہواتھا، ہر طرف شدید تگ و دو ہو رہی تھی۔ ادھر امریکہ میں سی آئی اے کے لوگ آپ کی بیوی سے متواتر رابطے میں تھے، ویلنٹائن ڈے کے دن بھی آپ کے گھر طویل فون کرتے تھے۔ پوچھنا بس یہ تھا کہ آپ جاسوس تو نہیں تھے نا؟ظاہر ہے ایک نجی محافظ کے لئے امریکی سرکار کو اتنا تو کرنا ہی چاہئے تھا، پھر جب جنرل کیانی اور مائیک ملن کی عمان ملاقات کے بعد آپ کو بتایا جاتاہے کہ رہائی کے چانسزکم ہی ہیںتو آپ فرماتے ہیں ’’ ہمیں صبر سے کام لینا چاہئے، ہمارے پاس زیادہ آپشنز نہیں ہیں۔ ‘‘ اس پربھی مجھے بس اتنا ہی کہناہے کہ ایسے موقعوں پر ایک عام محافظ نے جو بات کی، سی آئی اے کا کوئی تربیت یافتہ جاسوس بھی اس سے زیادہ کچھ نہ کہتا۔ لیکن آپ تو بس ایک کنٹریکٹر ہی تھے!شاباش میرے کنڑیکٹر ! ایسے ہونہار کنڑیکٹر مل جائیں تو بھلا دنیا کو جاسوسوں کی کیا ضرورت ! اسی لئے جب آپ رہا ہوئے تو آپ کا بیگ امریکی سفیر کیمرون منٹر نے اصرار کرکے اٹھایا۔ جہاز میں امریکی وزیرِ خارجہ ہیلری کلنٹن نے آپ سے فون پر بات کرکے اپنی تسلی کی۔ ظاہر ہے آپ تو بس ایک کنٹریکٹر ہی تھے۔

کتاب کے آخرمیں شاید پبلشر کو اس غلطی کا احساس ہو گیاکہ وہ فہیم کی بیوی کی خود کشی کی انٹری پندرہ دن پہلے ہی ڈلوا چکا ہے، چنانچہ یہاں ریمنڈ ڈیوس کو حیرت میں ڈالوا کے کہلوا دیتاہے کہ آخر مجھے اس کی خبرپہلے کیسے دے دی گئی؟ اس خود پیدا کردہ تضاد سے غالبا ًسی آئی اے خود کشی کو کسی کابنایا منصوبہ باور کروانا چاہتی ہے کہ یہ کسی طے شدہ سکرپٹ کے مطابق ہواتھا، توگویا آئی ایس آئی نے ریمنڈ ڈیوس کے گرفتار ہوتے ہی یہ منصوبہ بنا لیا تھاکہ فلاں تاریخ کوخود کشی کایہ واقعہ ہو گا؟ اورحضور آئی ایس آئی کیا کسی دودھ پیتے بچے کا نام ہے کہ خدانخواستہ وہ ایسا بے تکا اور غیر ضروری منصوبہ اگر بناتی بھی ہے تووہ اسے علامہ ریمنڈ ڈیوس کے علم میں لانا بھی ضروری ہی خیال فرمائے گی؟آپ تو آئی ایس آئی کے پرانے واقف تھے، یہ بچگانہ بات تو نہ کرتے!

آخری بات، کیا وجہ ہے کہ ہمارے بارے میں جو بھی کتاب مغرب سے چھپتی ہے، اس کا لکھنے والا خواہ ایک عسکری زندگی گزارنے والا ریمنڈ ڈیوس ہو یا ہماری ایک بھولی بھالی سکول کی طالبہ ملالہ۔ ان کی لکھی کتابیں ایک بچے یا ایک قیدی کے احساسات پر مشتمل ہونے کے بجائے مغرب کے اعلیٰ تحقیقی معیار پر پوری اترنے والی کتابیں ہوتی ہیں۔ یعنی جس وقت ریمنڈ ڈیوس اپنی موت و حیات کی کشمکش کو کتاب میں یاد کرنا چاہتاہے، تووہ اتنا ہسٹورین اور رومینٹک موڈ میں چلا جاتاہے کہ لاہور کی تاریخی عمارتوں اور سکولوںکالجوںکا تذکرہ فرمانے لگتاہے۔ جب وہ اپنی وی آئی پی شخصیت کی سکیورٹی کلئیرنس کیلئے روڈ کا جائزہ لینے کیلئے نکلتاہے، تو اپنے کام پر توجہ دینے کے بجائے برطانوی دورکے طرزِ تعمیرات میں کھو جاتاہے۔ ایک مشورہ ہے حضور کہ کوئی آئندہ کتاب لکھواتے وقت سی آئی کرداروں کے مطابق ڈائیلاگز کا ضرور خیال کر لیا کرے۔ آپ ہی کے بھلے کی بات ہے کہ ڈرامے کو حقیقت کا رنگ دینے کے لئے لازم ہے کہ ایک ریمنڈ ڈیوس کو ہمارا ہارون الرشید، عرفان صدیقی، رؤف کلاسرا یا جاوید چودھری بننے سے گریز کرنا چاہئے، تاکہ کتاب مصنف ہی کی سمجھی جا سکے، ویسے توہم آپ کے غلام ہی ہیں، حضور!آپ جو لکھیں گے ہم مان ہی لیں گے۔ کیا خیال ہے ؟ (ختم شد)