پارہ چنارہ اور سانحہ احمد پورشرقیہ جیسے اذیتناک واقعات نے ہماری عید سوگوار کردی تھی، عید کے جسم پر اگ آنے والے ان المناک زخموں کے باوجود اور روح و جگر میں سوراخ کر دینے والے حالات کی رتھ پر سوار ہو کرآئی اس عید پر بھی اپنی زندگی رواں رکھ کر اس قوم نے ثابت کر دکھایاکہ یہ منجمد سوچ رکھنے والی نہیں، سبق سیکھ کر آگے بڑھنے والی قوم ہے، طعنے دینے والے اور طنز توڑنے والے کچھ ہی کہیں، قوموں کی تشکیل و تہذیب میں بہرحال وقت لگتاہے، قوم ایک فرد نہیں ہوتی کہ جو ایک رات ’’آپ کرسکتے ہیں‘‘ ٹائپ کا کوئی فیصلہ کرے اور اگلے دن نئی زندگی جینے لگے۔ قوموں کے بدلنے کی ایک قیمت اور ایک مدت ہوتی ہے، کبھی نسلوں تک پھیلی قیمت اور کبھی صدیوں تک دراز مدت۔ چالیس سال تک بنی اسرائیلی قوم میدان تِیہ میں بھٹکتی پھری اور تب جاکے اسے کوئی روشنی اور راستہ ملا۔ نااہلی اور ناسمجھی اس قوم کی یہ تھی کہ جونہی سیدناموسیٰ کے طفیل صدیوں کی فرعونی غلامی سے نجات پائی اور دریا ئے نیل سے مکھن سے بال کی طرح یہ نکلتی چلی گئی۔ تو جونہی دریاکے پار اترکے انھوں نے بتوں کے حضورجھکی ایک قوم کو دیکھا، تو فٹ سے سیدنا موسیٰ سے کہنے لگے، جناب! ایسے کچھ بت ہمارے لئے بھی مہیا ہو جائیں تو عبادت کا لطف آجائے۔ وہ ایسی ہی قوم تھی۔
پاکستانی قوم البتہ اس شعر کا مصداق ہرگزنہیں ؎
حادثے سے بڑھ کر سانحہ یہ ہوا
لوگ رکے ہی نہیں حادثہ دیکھ کر
چنانچہ سوشل میڈیا پر اور قومی میڈیا پر بھی سانحہ احمد پور شرقیہ کے اسباب اور اسباق کا جائزہ لیاگیا۔ غربت و لالچ اور جہالت کو اس سانحہ کا بنیادی سبب قرار دیاگیاتوکچھ لوگوں کو اس پر تشویش ہوئی۔ کہا گیا کہ کاروں والے اور موٹرسائیکلوں والے اتنے غریب کیسے ہو گئے کہ چند لٹر پیٹرول پر جل مرے۔ صاحبو!اولاً تو ہر کار اور ہر بائیک والا لازم نہیں کہ امیرہی ہو۔ کتنے لوگوں کوتو شریفوں کے اس ملک میں سفید پوشی کے بھرم میںاذیتتاک دہری زندگی جینا پڑتی ہے۔ یہ سب جانتے ہیں۔ اگر آپ نے سورۂ کہف پڑھ رکھی ہو تووہاں کشتی کے مالک دو نوجوانوں کوبھی مسکین ہی ڈکلیئرکیاگیا۔ مسکین دراصل ہر وہ شخص ہے کہ جس کی آمدنی کی چھوٹی چادر اس کے اخراجات کے بڑے جسد کو ڈھانپ نہ سکے اور باوجود کوشش و مشقت کے جس کی ضرورت کے پاؤں ہر روزاس کی روزی کی چادر سے باہر نکل پڑیں۔ ایک بات۔ دوسر ی بات یہ کہ غربت کا تعلق پیسے سے ہوتاہی کب ہے؟ غربت و غناخالص دل کے معاملے ہیں۔ کتنے کھرب پتی ہیں کہ مفلسی کی زرہ نے جن کی سخاوت کے ہاتھ جکڑ رکھے ہیں۔ ’’شُح‘‘کہ حرص اور بخل کیلئے جو عربی کا جامع لفظ ہے، نے کتنوں کی دولت کواسی شُح کے ہاتھوں خود کشی کروا رکھی ہے۔ کتنے دولت مند اپنی دولت کے حضورسوائے کسی بینک کے چوکیدار سے کچھ زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔ جب انسانی نفسیات کی حالت یہ ہے اور جب عالم یہ ہو کہ ملک میں ٹیکس دینے والوں میں سب سے کم تعداد حکمرانوں اور ارب پتیوں کی ہو تو ایسے میںڈیڑھ صد لوگوں پر یہ طعن کیاجانا کیا حیثیت رکھتاہے کہ وہ لالچ میں آگئے۔ ہاں یہ بات البتہ ہونی چاہئے کہ اس بڑے حادثے کی ایک بنیادی وجہ لالچ بھی تھی اور غریب و امیر کی تفریق کے بغیرمن حیث القوم لالچ کا زہر پوری قوم کی نس نس میں اتر چکاہے۔ چنانچہ احمد پور شرقیہ کے جل گئے بدنصیبوں کو مطعون کیے بغیرہمیں اس مرض کا علاج کرنا چاہئے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ جھوٹ اور لوٹ کوئی جواز نہیں رکھتے، ہمیں مان لینا چاہئے کہ مفت کبھی کچھ نہیں ہوتا۔ انا، عزتِ نفس یاکچھ اور، ہرمفت کی بھی ایک قیمت ہوتی ہے۔ ہمیں باور کرلینا چاہئے کہ قانون اور قبر میں بھیڑ چال کبھی کوئی عذر نہیں ہو تے۔ اللہ نے ہمیں انفرادی دماغ اسی لئے دیا کہ وہ ہم سے ہمارے اعمال کا حساب بھی انفرادی ہی چاہتا ہے۔ وگرنہ تو اللہ ہر ملک و قوم کے دوبندوں کو دماغ دے کے فرما دیتا کہ جو یہ کریں وہی تم بھی کرتے رہنا۔ ہمیں جاننا چاہئے کہ ہمارا ایک رویہ بھیڑ چال بھی ہے کہ جسے اقبال نے تقلید قرار دے کر خود کشی سے بدتر بتایاہے۔ ۔ ع
تقلید کی روش سے تو بہتر ہے خود کشی
رستہ بھی ڈھونڈ، خضر کا سودا بھی چھوڑ دے
ہمیں مان لیناچاہئے کہ دیکھا دیکھی، بھیڑ چال اور تقلید کوئی معقول عذر یادفاعی دلیل نہیںہو تے۔ چنانچہ ہمیں ہجوم سے ہٹ کے جینا آناچاہئے۔ پھراگر ہم نے اپنے بچوں اور پیاروں کو دنیا وآخرت کی اس خوفناک آگ میں جلنے سے بچانا ہے، کہ جس کا ایک روح فرسا منظر ہم احمدپور شرقیہ میں دیکھ چکے تو ہمیں کچھ فیصلے کرنے ہوں گے۔ ہمیںیہ مان لینا چاہئے کہ دنیا کی خوفناک ترین موت یعنی آگ میں جل مرنے والے احمد پور شرقیہ والے ہمارے بھائی اپنی جان کی قیمت پر اس قوم کو چڑھے بخار کی تشخیص کر گئے ہیں، اور اس اعتبار سے وہ اس قوم کے محسن ہیں۔ وہ ایک رائیگاں جاتے پیٹرول کو اپنے لئے فائدہ مند سمجھ کے اگر اس پر ٹوٹ پڑے تو غور کرناچاہئے، کیا موقع ملتے ہی ہم بھی ایسا ہی نہیں کر گزرتے؟ مثلاً کیاشادی ہال میں اپنے بہترین تراش کے ملبوسات اور انمول وقارداؤ پر لگا کے کھانے پر ٹوٹ پڑنے کی عادت صرف احمدپور شرقیہ ہی میں پائی جاتی ہے؟ کیا گنے اور کپاس کی ٹرالیوں کے پیچھے دوڑتے، اپنی موت کی قیمت پر چند گنے یا کپاس کے چند گالے حاصل کرنے کیلئے ٹائروں کے آگے پیچھے جھولنے کے مناظر صرف احمد پور شرقیہ ہی کی پہچان ہیں؟ کیا جنت کمانے کے سیزن رمضان کے مقدس ایام میں، ٹی شوز میں ایک بائیک، لان کے ایک سوٹ اورانسانی وقارکے عوض لی گئی کسی کارکے لئے اپنی مردانگی اور اپنی نسوانیت تک داؤ پر لگادیناہمیں احمد پور شرقیہ ہی نے سکھایا ہے؟ یہ جو کمپنیاں سیل کے نام پر آپ کو اپنا ظرف پرکھ لینے کا موقع فراہم کرتی ہیں، سیل کے ایسے ہی مواقع پرایک دوسرے کے ملبوسات نوچتی، گالم گلوچ کرتی اور ہاتھا پائی تک اترآتی خواتین کیا ہر شہر میں احمد پور شرقیہ ہی سے درآمد کی جاتی ہیں؟ کیا کرپشن، لوٹ مار، دونمبری، جعلی دودھ، جعلی ادویات، جعلی کاغذات، جعلی کرنسی اور، کمزوروں کے حقوق دبانے، بہنوں کی وراثت کھاجانے اورلالچ و فراڈ کے تمام مظاہرسب پاکستانیوں کواحمد پور شرقیہ ہی نے سکھائے ہیں؟جی نہیں، ہر انسان کی سرشت اور طبیعت میں امتحاناً لالچ و بخل رکھ دیا گیا ہے۔ ۔ ع
ہر بلندی کے مسافر کو وہ امتحاناً نشیب دیتا ہے
تو بہرحال یہ ادنیٰ صفت پوری انسانیت میں موجودہے اوربطور قوم سرخروئی کی خاطر اسے اپنے شرفِ انسانیت سے ہم سب نے مل کر زیر کرناہے۔ اگر عادات و صفات کی بات ہے تو ڈیڑھ صد سے زیادہ جل مرنے والے اور اپنے خوبصورت چہروں اور بدنوں کی جگہ بے چہرہ لاشیں چھوڑ جانے والے اکیلے ہی لالچ کی جلائی آگ میںجل مرنے کے سزاوار نہ تھے۔ لالچ اور اپنے رویوں میں کم و بیش ہم سب ایک ہی جیسے ہیں، وہ توبس ہمارے لئے آئینہ ہوکے ہمیں ہمارا چہرہ دکھاگئے ہیں، تاکہ ہم اپنی روش کا انجام اور اپنی عادات کا نتیجہ دیکھ سکیں۔ اگر اس کے باوجود ہم سبق نہیں سیکھتے اور اپنی وہ ساری دو نمبریاں، جو ہم سب بخوبی جانتے ہیں، نہیں چھوڑتے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ نہ ہم ایسے آئندہ سانحات سے خود کو بچانے کیلئے تیار ہو سکے ہیں اورنہ ہم نے دنیا کی آگ سے انہتر گنا شدت والی آخرت کی آگ میں جل مرنے سے خود کو بچانے کی کو ئی توانا خواہش پالی ہے۔