1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. یوسف سراج/
  4. شاکرصاحب، سول ملٹری تعلقات اور لاغر جانور

شاکرصاحب، سول ملٹری تعلقات اور لاغر جانور

شاکر صاحب اسلام آباد کے ایک نجی ادارے میں کام کرتے ہیں۔ وہ باریش، متدین، پڑھے لکھے اور مہذب شہری ہیں۔ جمہوریت کی بالا دستی کے وکیل ہیں۔ البتہ انھیں یہ بھی اچھا لگا کہ اس بار یومِ آزادی کوچھ ستمبر کی طرح منایاگیا، یعنی واہگہ بارڈر پر ایشیا کا بلند ترین پرچم لہرایا گیااور جنرل قمر جاوید باوجوہ نے یہاں فی البدیہہ تقریر فرمائی۔ فی البدیہہ اس لئے کہ جنرل صاحب کی پہلے سے لکھی ہوئی تقریر پاکستانی جمہوریت کی طرح بارش میں بھیگ گئی تھی اور پڑھے جانے کے قابل نہیں رہی تھی۔ آہ ’درداں دی ماری ‘ بے چاری ہماری پاکستانی جمہوریت ؎

کاغذ کے پھول سر پر سجا کے چلی حیات

نکلی برونِ شہر تو بارش نے آ لیا

بات ہو رہی تھی، جنرل صاحب کی تقریربھیگ جانے کی۔ بہرحال کہتے ہیں کہ گوریلا وسائل کا محتاج نہیں ہوتا اور ایک جنرل تو پھر جنرل ہوتاہے۔ بہرحال جنرل صاحب فی البدیہہ تقریرکرنے کے امتحان میں کامیاب رہے۔ ویسے بھی ایوب خاں سے لے کر مشرف تک، الحمدللہ ہمارے ملک میں جنرل کبھی ناکام نہیں رہے۔ خیر اسی دن اسلام آباد میں پاک فضائیہ نے ترکی اور سعودی طیاروں کے سنگ پرواز کے ششدرکردینے والے عجوبہ کرتب بھی دکھانے تھے۔ شاکر صاحب نے یہ کیاکہ وہ حبِ وطن کے ایمانی و انسانی جذبات تازہ کرنے کیلئے طیاروں کے کرتب دیکھنے بیوی بچوں سمیت کنونشن ہال پہنچ گئے۔ البتہ یہاں پیش آئے، ذاتی سانحہ کی بنا پر یہ یوم ِ آزادی ان کی زندگی کا کبھی نہ بھلایا جانے والا دردناک سبق بن گیا۔ ہوا یہ کہ ائیر پاسنگ کے دوران اوپر فضا میں جہاں تین ملکوں کے جہاز وں کے کپتان اپنی مہارتوں کے مظاہرے کر رہے تھے، نیچے اسلام آباد، پنڈی اور گرد ونواح سے امنڈ آئی خلقت میں ان کی معصوم بیٹی کھو گئی۔ وہ سناٹے میں آگئے اور آسمانی کرتبوں کے بجائے زمینی الجھنوں میں الجھ کے رہ گئے۔ ایسے پر ہجوم عوامی مقام پر کسی ننھی اور معصوم بٹیاکا کھوجانا ایک ذمے دار اور حساس باپ کوبِن یوسف کا یعقوب بنا دینے کے لئے کافی ہوتاہے۔ درد اور اذیت کی ایک لہر ان کے دل و دماغ میں آسمانی بجلی کی طرح تڑپی اور وہ بن پانی کی مچھلی کی طرح مچلنے لگے۔ المختصر ان کے اگلے دو اڑھائی گھنٹے بیٹی کی تلاش میں دردناک اذیت اور اعصاب توڑ دینے والی بھاگ دوڑ سہتے گزرے۔ اچھی بات یہ ہوئی کہ بچی سیکیورٹی کو نظر آگئی۔ اب مگر اِس گیٹ سے اُس گیٹ اور پھر اُس گیٹ سے کسی اور اُس گیٹ کی طرف شاکر صاحب کی دوڑیں لگنے لگیں۔ ظاہر ہے کنونشن ہال کے اندر گاڑی نہ لائی جاسکتی تھی، چنانچہ اب ان کی پیدل میراتھن ریس شروع ہوچکی تھی۔ بالآخر جب اس بھاگ دوڑ اور ذہنی اذیت کے نتیجے میں ان کا دل قید میں آئے پنچھی کی طرح پھڑکتا اور سانس لوہار کی دھونکنی کی طرح چلتاتھا، وہ بچی کو پانے میں کامیاب ہو گئے۔ کسی فاختہ کی طرح ڈری اورسہمی سمٹی بچی باپ کے سینے سے لگی تو دونوں سینوں کو قرار نصیب ہوا۔ یہ قرار مگر عارضی ثابت ہوا۔ عسکری سیکیورٹی کی چابکدستی سے جو بچی انھیں مل گئی تھی، ایک پٹھان پولیس والاب اس کا حساب لینے وارد ہوگیاتھا۔ انسان سے پاکستانی پولیس کا بے رحم نمائندہ ہوچکے اس اہلکار نے پسینے میں شرابور باپ سے پوچھا، بچی کیسے گم ہوئی اورکیوں گم ہوئی؟ شاکر صاحب نے وضاحت کرنے کی کوشش کی مگر پولیس اہلکار نے انھیں جھڑکناشروع کر دیااور پھرذرا زیادہ جارحانہ لہجے میں دہرایا، میں پوچھتاہوں، بچی گم ہوئی تو کیوں ہوئی؟ کیا تمھارے اندر کچھ عقل اور شعور نہیں پایا جاتا؟ ظاہر ہے اس کے بعد کی پولیس کی زبان لکھی نہیں جا سکتی۔ شاکر صاحب کا خیال تھاکہ پولیس والا اپنے اختیار کا حاکمانہ اظہارکرکے اس مظلوم کی جان چھوڑ دے گا، مگر وہ سپاہی شاید تازہ دم تھا اور وردی کا نشہ اس کی رگ رگ میں سرایت کرچکا تھا۔ بے بسی سے تنگ آکر شاکر صاحب نے اپنے موبائل سے اہلکار کی اس عوامی خدمت کی ویڈیو بنانے کی کوشش کی تو گویابپھرے ہوئے بیل کو سرخ کپڑا دکھادیا۔ اہلکارنے شاکر صاحب اور بچی کو گاڑی میں ڈالا اور تھانے لے جانے لگا۔ اسی وقت شاکرصاحب کو ایک میجر صاحب نظر آئے۔ شاکرصاحب نے ان سے فریاد کرتے ہوئے داد رسی چاہی۔ میجرصاحب نے اہلکارسے پوچھا، ان کی بچی ان کے حوالے کیوں نہیں کرتے؟ اہلکارکہنے لگا، شناخت کا مسئلہ ہے، ناجانے یہ اس بچی کا باپ ہے بھی یانہیں؟ سو تھانے لے جارہا ہوں۔ میجر نے باپ اور بچی کو دیکھا تواسے سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ یہ محض ڈھکوسلہ ہے۔ اس نے بچی شاکر صاحب کے حوالے کرنے کا کہا، ناچار جو اس نے شاکر صاحب کے حوالے کر دی۔ اب مگر وہ موبائل دینے کو تیار نہ تھا، کہ یہ تو بہرحال تھانے ہی چل کے ملے گا۔ القصہ، شاکر صاحب، جو پچھلے سارے سیاسی ہنگامے میں سول بالادستی کے سرگرم علم بردار رہے تھے، چودہ اگست کے دن مجھ سے بات کر رہے تھے توگویا ان کے ہر لفظ کے ساتھ ان کے اندر کچھ نہ کچھ کرچی کرچی ہوکے بکھرتا جارہا تھا۔ سول ادارے کے ایک اہلکار نے ان کی عزت نفس کو اپنی وردی کے بل پر جس طرح نچوڑا تھا، وہ ایک معزز شہری کے لئے سہنا آسان نہ تھا۔

واقعہ یہ نہیں کہ شاکر صاحب کے ساتھ یہ ہوا، واقعہ یہ ہے کہ ہمارے ہی ٹیکس سے ہماری خدمت کے لئے بنائے گئے ادارے اکثر ہمارے ساتھ یہی سلوک کرتے ہیں۔ کمزور پاکستانی شہریوں پرقانون کو تلوار بنا کے ان کی عزت نفس کی شہ رگیں کاٹنے کے ایسے واقعات ہمارے ہاں معمول کی بات ہیں اور ایسے ہی حالات میں ہم سول بالا دستی کی جنگ لڑنے چلے ہیں۔

اگلے دن میجر جنرل آصف غفور پریس کانفرنس کر رہے تھے توانھیں سول ملٹری تناؤ اور تعلقات کے حوالے سے کئی سوالوں کا سامنا رہا۔ ایسے سوالات اب معمول بنتے جارہے ہیں اور مجھے لگتا ہے میڈیا کے اس دور میں اب ایسے سوالوں میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ نواز شریف صاحب نے پہلی دفعہ یہ آواز بھی اٹھائی ہے کہ عوامی حقِ حکمرانی کو مقتدر ادارے تسلیم کریں اور عوامی ووٹ کی پرچی کا وہ احترام کریں۔ میاں صاحب کا سیاسی کردار اپنی جگہ یہ بات البتہ اان کی بالکل بجاہے، لیکن سول بالادستی کے دعویداروں سے گزارش ہے کہ کسی اور سے تسلیم کروانے سے پہلے سول بالادستی کو پہلے تو آپ تسلیم کیجئے، سول اداروں کو شہریوں کی عزت کروانا سکھائیے، پولیس، پٹوار اور دیگراداروں سے عوام کو جو خوف لاحق ہیں، ان کا ازالہ کیجئے۔ کیا آپ نے نہیں دیکھا گذشتہ کل اپوزیشن لیڈر قومی اسمبلی کی خالی نشستیں دیکھ کر دردِ دل سے چلا اٹھے تھے کہ جب حکومت خود پارلیمنٹ کو اہمیت اور احترام دینے کو تیار نہیں تو وہ کسی اور سے اس کی کیسے توقع کر سکتی ہے، ان کے کہنے پر سپیکر نے بیک بینچرز کو اسمبلی کی اگلی نشستوں پر بٹھایا۔ یہ سول اداروں کاحال ہے۔ ینگ ڈاکٹرز اور اب وکلا گردی کا نیا طوفان بھی آپ دیکھ رہے ہیں۔ اگر آپ اسی بیمار اور اپاہج سپاہ کو لے کر سول بالادستی کی جنگ لڑنے نکلے ہیں تو انجام معلوم شد۔

ترکی آپ کو بہت پسند ہے اور طیب اردوان کی پولیس کاباغی آرمی کو گرفتار کرنا اور ٹینکوں کے آگے عوام کا لیٹ جانا بھی آپ کو بہت بھلا لگتا ہے، لیکن یہ آپ بھول جاتے ہیں کہ ایسے مناظر دیکھنے سے پہلے سول اداروں کی خدمات سے عوام کے دل جیتے جاتے اور سول اداروں کو قانونی طاقت بخشی جاتی ہے، تاکہ سول بالا دستی کا تانگہ کھینچتے وقت گھوڑا اتنا لاغر نہ ہو کہ تانگہ کھینچنے کے بجائے اپنی ہی ہڈی پسلی ایک کروا بیٹھے، قربانی کا موسم ہے، لاغر جانور کی تو قربانی قبول نہیں ہوتی، بالا دستی کیسے قبول ہو جائے گی؟