زاہداکرام
ماشاء اللہ ہم نام نہاد کلمہ گو ہیں ہم فطرتاََ اچھی عادات کے مالک ہیں میں نئی نسل کی بات نہیں کررہا کہ جس نے آنکھ کھولتے ہی جھوٹ، بے ایمانی، رشوت، اقرباء پروری اور لاقانونیت کی فضا دیکھی ہے اور اسی میں پروان چڑھے جن کے نزدیک پیسہ ہی خوشحال زندگی کی آخری حد ہے، جس کیلئے وہ سب جائزہے کا نعرہ لگاتے نظر آيں گے۔ الحمدللہ مجھے مدینہ المنورہ میں رہتے ہوئے ۷ سال ہوگئے ہیں اس دوران میں نے پاکستانی زائرین کی جو حالت دیکھی وہ ناقابل بیان ہے ایک تو ہمارے ہاں سے جو حجاج اور عمرہ معتمرین آتے ہیں ان میں زیادہ تر عمر کے اس حصہ میں ہوتے ہیں جب ان کو گھر سے بھی باہر نہیں نکلنا چاہیے اور ماشاء اللہ آتے بھی بڑی تعداد میں ہیں، حرم مدنی ۸۰ فیصد پاکستانیوں سے بھرا ہوتا ہے ممکن ہے انکا دین سے لگاؤ کی وجہ ہے یا کوئی اور اس پر میں زیادہ بات کرکے گنہگار نہیں ہونا چاہتا میں صرف ان کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا ذکر کروں گا جو، ان کے ساتھ ہمارے ایجنٹ حضرات بشمول حکومت کرتی ہے۔
ذیادتیوں کا یہ سلسلہ پاکستان سے ہی شروع ہو جاتا ہے جب مکہ اور مدینے کی چاہت میں اپنی جمع پونجی وہ ایجنٹ کے ہاتھ تھما دیتے ہیں اور بہت کم زاد سفرکے لیے اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں، یہ صورت حال زیادہ تر غریب لوگوں کی بیان کررہا ہوں امراء اور اشرافیہ اس کیس سے باہر ہیں جو محنت اور حق حلال کی کمائی سے آزاد ہیں۔ ایجنٹ حضرات ان کی رہائش کا جو بندبست کرتے ہیں الأمان الحفیظ !! زیادہ تر تو زائیرین ۵۰ سال سے اوپر ہوتے ہیں دوسرے ان کی عام سی رہائش ۳ کلومیٹرسے کم کسی طور نہیں ہوتی ستم بالائے ستم ایک کمرے میں دو، دو نا محرم فیملز کو بھی ا کٹھا ٹھہرا دیتے ہیں اور کمرے کیا بس ۴ بائی ۴ فٹ کے ڈبے جس میں بیڈ ہی لگے ہوتے ہیں ان رہائشوں کو ۳/۴ سٹار ہوٹلز کا نام دیتے ہیں۔ زائرین کی مشکلات تو ویسے ائیرپورٹ سے ہی شروع ہو جاتی ہیں حتی کہ جدہ یا مدینہ ایئرپورٹ پہنچنے تک اور پھر ایئر پورٹ سے ہوٹل تک کئی کئی گھنٹوں کی خواری، دوسرے حجاج اور زائرین کو جو سب سے بڑی مشکل کھانے پینے کی آتی ہے وہ بھی ایک بڑا ایشو ہے واری جاؤں پاکستانی ہوٹل والوں پر انھیں مقام مقدسہ میں بھی غیر معیاری اور مہنگا کھانا دیتے ہوئے ذرا بھی خوف وملال نہیں ہوتا، ۸ سے ۱۲ ریال کا پارسل اور ۲ روٹی، اب حاجی ضرب دیتا ہے ریال کو روپے سے کہ ۲۵۰ /۳۰۰ روپے کا ایک بندے کا کھانا، اس سے سستا تو ملنے سے رہا، اب ۲ بندے مل کر ایک پارسل پر گذارہ کرتے ہیں، یا پھر لنگر کی تلاش کرتے ہیں، الحمد للہ یہاں لنگر بھی وافرملتا ہے، پاکستانی ہوٹل والے بھی چن کر سستی اور غیر معیاری سبزیوں اور گوشت سے کھانا تیار کرتے ہیں، ویسے تو بکرے کا گوشت ۴۰ ریال کلو ہے لیکن ہوٹل والے فروزن بڑا گوشت جو ۱۲ سے ۱۷ ریا ل کلو مل جاتا ہے اسے ہی چھوٹا چھوٹا کرکے اور بکرے کی ہڈیاں جو علیحدہ سے ۱۰ ریال کلو مل جاتی ہیں ڈال کر بکر ے کا لذیذ کڑاھی گوشت بنا کر پیش کرتے ہیں، قیمے کی تو بات ہی نہ کریں اور طرہ یہ کہ بلدیہ والے سب سے زیادہ پاکستانی ہوٹلوں پر چھاپے اور جرمانے کرتے ہیں اور کئی کئی دن بند بھی کر دیتے ہیں، ( مجھ تک کئی دوست سفارش کیلئے آتے ہیں)، جب یہ حجاج اور زایئرین مقام مقدسہ پہنچتے ہیں تو انھیں مختلف قسم کی انفیکشنز اور بیماریوں کی نذر ہونا پرتا ہے ایک تو حج عمرہ کی مشقت دوسری بات مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی، کہ ایسا کیوں ہوتا ہے، اللہ کا شکر ہے کہ سعودی حکومت حجاج اور زائرین کا علاج فری کرتی ہے، کئی حاجیوں کی ہڈیاں ٹوٹ جاتی ہیں ان کا سارا علاج معالجہ، ہارٹ اٹیک کے مریض ان کا آپریشن تک، جن میں سے کئی اللہ کو پیارے بھی ہو جاتے ہیں اور جنت البقیع میں دفن ہوتے ہیں خوش نصیب ہوتے ہیں کہ ان کو کملی والے کی شفاعت سب سے پہلے نصیب ہوگی اور ان کی قبریں آقا ؐکے مرقد کے پاس ہوتی ہے،
ویسے پاکستانی ایجنٹ اور حکومت پاکستان کو اس سب سے کوئی سروکار نہیں کی اپنے حجاج اور زائرین کو کوئی سہولت بھی دینی ہے یا نہیں، آپ کو زرداری دور کا حج سکینڈل تو یاد ہوگا جس کے تمام ملزم نہ صرف بری ہوگئے بلکہ حجاج اور زائرین کو منہ چڑا رہے ہیں، ان سب زیادتیوں کیلئے جو انہوں نے حجاج کے ساتھ کی مکہ، منی اورعرفات میں، مدینہ میں بندہ ان سب ناانصافیوں کا چشم دید ہے جس کی تفصیل کسی دوسری نشست میں، کہ کس طرح اس دور میں پاکستانی حجاج کو لوٹا گیا، لوٹا تو ویسے ہر دور میں ہی جاتا ہے۔
میری ملاقات انڈین حجاج سے بھی ہوتی ہے، سب ہی بڑے خوش اور تعریفیں کرتے نظر آتے ہیں، پہلے تو ان کا حج پیکیج ہی سستا ہوتا ہے دوسرے ان کی رہائش کا بندوبست بہت نزدیک اور صاف ستھرا ہوتا ہے، تیسرے نمبر پر ان کو ائیر پورٹ پر ایک معقول رقم کھانے پینے کیلئے واپس کر دی جاتی ہے، تیسرے ان کو انکے سامان کے لانے لیجانے کی کوئی فکر نہیں ہوتی ایجنٹ خود ہی سب انتظام کرتے ہیں، یہ ہے فرق مسلم ریاست اور غیر مسلم ریاست کا، لیکن سبق کون سیکھے؟؟ سب سے بڑی کوتاہی کہہ لیں یا دین سے ناواقفیت جو علماء کرام نے پوری نہیں کی، زائرین مناسک عمرہ اور حج سے پوری طرح واقف نہیں ہوتے جس وجہ سے حرمین کے منتظمین ان سے بدتمیزی کرتے ہیں وہ ویسے بھی بالعموم پاکستانی زائرین سے نالاں ہی رہتے ہیں کہ سارا پاکستان ہی امڈ آیا ہے !!ہماری حکومت کو بھی چاہیے کی اسلام کی خاطر نہ سہی انسانیت کے ناطے ہی زائرین کو کچھ سہولتیں اور کچھ انتظام کرے اور یہ بھی قانون بنائے کہ حج یا عمرہ ایک شخص کے لئے۵ سال میں ایک ہی دفعہ ہو ہر سال رخت سفر نہ باندھ رکھیں، ویسے سعودی حکومت نے ان لوگوں کیلئے جو سال میں کئی بار آتے ہیں او رجو دوسروں کا حق مارتے ہیں ۲۰۰۰ ریال فیس لاگوکی ہے، لیکن واری جاؤں دیوانوں کے وہ ۵۰۰۰ روپیہ دے کر دوسرے پاسپورٹ پر آدھمکتے ہیں، میں یہ نہیں کہتا کی یہ رقم کسی غریب کو دے دیں وہ بیچارا کیا کرے گا اس رقم کا، جس کی کوئی منی ٹریل ہی نہ ہو، لیکن حج عمرہ زندگی میں ایک دفعہ ہی اچھا رہتا ہے اگر اس پر پابند رہیں تو، یہ نہیں کی واپس جاکر حاجی یا الحاج صاحب چھری تیز کرلیں۔
ایک اور زیادتی جو ان زائرین سے ہوتی ہے وہ ان کو زیارات مقدسہ کے سلسلہ میں ہوتی ہے، مجھے آج تک وادی جن کی کہانی سمجھ نہیں آسکی کہ اسکی حقیقت کیا ہے ویسے ساینسی توجیہ تو یہ ہے کہ یہ وادی مدینہ کی نسبت اونچائی پر ہے لہذا نیوٹرل گاڑی لازمی طور پر ڈھلان کی طرف آئے گی، اس کے علاوہ سعودی حکومت نے کئی زیارات ختم کردی ہیں، ایک اور زیادتی جو ان کے ساتھ ہوتی ہے کھجوروں کے سلسلہ میں دوران زیارات ان کو حضرت سلمان فارسی کے باغ کا چکر لگوایا جاتا ہے (جو اب موجود نہیں) وہاں پر پاکستانی بھا ئی زائرین کو گھٹیا قسم کی کھجوریں زیادہ قیمت پر تھما دیتے ہیں، جن کا کمیشن طے ہوتا ہے زیارت کروانے والے کے ساتھ، اللہ کی پناہ۔
معزز قارئین یہ باتیں ایک غریب حاجی کی ہیں جن کی تعداد زیادہ ہوتی ہے جو ساری عمر اسی تڑپ اور لگن میں گذار دیتے ہیں کب مدینے والے کا بلاوہ آتا ہے اور وہ اکثر یہ ہی گاتے ہیں ’’ آؤ مدینے چلیں‘‘۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
دل ھجر مدینہ میں تڑ پتا ہے شب وروز
اک دردکا دریا ہے کہ چڑھتا ہے شب وروز