اللہ پاک نے ہندوستان کے مسلمانوں کو ایک ایسا خطہ ارض عطاء کیا ہے جس کا شکر ادا ہو ہی نہیں سکتا، جس نعمت کا آپ سوچیں وہ وافر مقدار میں موجود، لیکن اس ارض پاک کے مکینوں اور ناخداؤں نے کفران نعمت کا تہیہ کیا ہوا ہے-پچھلے 10 سالوں سے ملک اندھیروں میں ڈوبتا جارہا ہے، بجلی کے شدید بحران سے دوچار ہے، جبکہ اللہ پاک نے قدرتی اور گرین انرجی کے بے شمار مواقع فراہم کئے ہوئے ہیں، مجال ہے ہمارے تجربہ کار سیاستدان اس نعمت سے فائدہ ا ٹھالیں، یہ لوگ وہ کام کریں گے جس میں کمیشن اور خسارے کی شرح زیادہ ہو، زرداری حکومت نے ڈیم روک کررینٹل پلانٹ لگا لئے، جس کا خسارہ 50 ارب تک پہنچ چکا ہے، نواز حکومت نے کول پاور پلانٹ جو دوسرے ممالک پالوشن کی وجہ سے یا تو بند کررہے ہیں یا پھینک رہے ہیں، لیکن ہمارے محب وطن سیاستدان مہنگے داموں خرید کر زرعی علاقوں میں لگار ہے ہیں ساہیوال کے زرعی علاقہ میں کول پلانٹ آپکے سامنے ہے-
ارض پاکستان کو اللہ پاک نے دریاؤں، ونڈزکوریڈورز، اور شمسی توانائی کے مواقع سے بے حد نواز رکھا ہے، پاکستان میں بے شمارونڈکوریڈورز ہیں، ہر ایک کئی کئی ہزار میگاواٹ گرین انرجی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، صرف بلوچستان اور سندھ کے کوریڈورز کئی کئی ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرسکتے ہیں، USAID اور AEDB کی رپورٹ کے مطابق، صرف ”گھیرو اور کیٹی بندر“کے علاقوں سے 40 سے 50 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا ہو سکتی ہے، اور یہ پراجیکٹ ایسے ہیں جو ایک دفعہ لگ گئے تو عشروں تک صرف دیکھ بھال او رمرمت سے سستی اور بغیر پالوشن گرین انرجی کے مزے، ونڈ ٹربائن ہوا کی رفتار پر ہر وقت چلتے رہیں گے، اسلام آباد کے نزدیک ہوا کی رفتار 6.2 سے لیکر 7.4 میٹر فی سیکنڈ ہے اور کراچی کے نزدیک ہوا کی رفتار 6.2 سے لیکر 6.9 میٹر فی سیکنڈ ہے، جس سے بجلی کی پیداوار 7 سینٹ فی کلوواٹ فی گھنٹہ ہوسکتی ہے، ہمار ہمسایہ ملک انڈیا چہ جائکہ اس کے پاس ونڈ انرجی کوریڈورکے ممکنہ ذرائع کم ہے پھر بھی وہ سب سے زیادہ ونڈانرجی 7093 میگاواٹ بجلی، دنیا کی چوتھی بڑی ونڈٹربائن سے2 سے 2.5 سینٹ فی کلوواٹ پیدا کررہا ہے-لیکن مودی کی یاری سے کوئی فائدہ نہیں اٹھاناتو نہ سہی اس سے ونڈٹربائنز تو خریدے جاسکتے ہیں- کالم لکھتے ہوئے اخباری خبر پر نظر سے گذری کہ اس سال ستمبر تک 1000 میگاواٹ بجلی ونڈ پاور سےسسٹم میں شامل ہوگی(اللہ کرے)، جبکہ 839 میگا واٹ چھمپیراور گھاروکے ونڈ کوریڈورسے پہلے ہی سسٹم شامل ہے بہت اچھی خبر ہے-
پاکستان دریاؤں کی سرزمین بھی ہے یہ بدقسمتی ہے کہ سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کے3 دریاوں کا پانی انڈیا استعمال کرہا ہے باقی2 دریا بھی اسی کی دسترس میں ہیں اور ان پر ڈیم بنا رہا ہے، اور آنے والے سالوں میں پاکستان کا پانی اسی کی مرہون منت ہوگا، پھر بھی گلگت بلتستان میں دریاوں کا بہاؤ بہت تیز ہے اور وہاں قدرتی طور پر کئی ایسے مقامات ہیں جہاں سمال ڈیم بنائے جاسکتے ہیں، یہ سروے آف پاکستان، نیسپاک اور واپڈا کا کام ہے کہ وہ ان مقامات پر تحقیق کرے، جن میں سے کچھ پر کام مشرف دور میں شروع ہوگیا تھا، بدقسمتی سے پی پی پی کے دور حکومت میں ان چھوٹے اور بڑے ہایڈرو پراجیکٹس پر کام کی رفتار سست رہی یا بالکل بند ہو گئی، اور اپنی کمیشن اور فائدے کیلئے رینٹل پاور پلانٹس پر کام کیا گیا جس سے بجلی کے نرخ آسمان کو چھونے لگے، اگر مشرف کے دور کے ۲۳ ہایڈرو پراجیکٹس پر کا م چلتا رہتا تو آج ہم سستی گرین انرجی کے مزے لے رہے ہوتے، لیکن ہم فرنس آئل، آئل اور گیس جلا کر 8577 اور 9243 میگاواٹ مہنگی بجلی پیدا کرنے پر کمر بستہ ہیں- جب تک بڑے ہایڈرو پراجیکٹس پر کام مکمل نہیں ہوتا صوبوں کو چاہیے کہ وہ منی مایکرو پراجیکٹس کو مکمل کرے اور بجلی بحران کو کم کرنے میں مدد دے اس وقت ۸۲۱ میگاواٹ کے سمال منی ہایڈرو پر کام ہوچکا ہے، ۷۷۸ میگاواٹ پر کام ہورہا ہے اور 5100 میگاواٹ پر کام ہونا باقی ہے ان پراجیکٹس سے کم از کم قریبی علاقے تو بجلی کے بحران سے آزاد ہونگے جیسا خیبرپختونخواہ میں ہوا ہے- دریائے گلگت (انڈس) پر بھاشاڈیم 4500 MW جو شاید تکمیل کے مراحل میں ہونا چاہیے تھا، ابھی تک فنڈز کی قلت حکومتی نااہلی کی نذر ہے، جس کی لاگت روزبروز بڑھ رہی ہے شنید ہے کہ اس منصوبے پر 4 کھرب 47 ارب کی منظوری ہوئی ہے، دریائے ہنزہ پر بھی کام ہونا باقی ہے، پاکستان میں 6721 ہایڈروپاور پوٹینشل ہے-زیادہ تر پراجیکٹس 2020ء میں مکمل ہونگے جبکہ حکمرانوں نے عوام کو 6 ماہ کے لارے لگائے ہوئے ہیں سچ کو پاس نہیں آنے دینا-
پاکستان میں سورج سارا سال 365 دن چمکتا ہے اور فری انرجی دے رہا ہے جس کیلئے سولر پاور پلانٹس افقی طرز پر ٹاورز کی شکل میں لگائے جاسکتے ہیں، حکومت نے ایک تجربہ قائداعظم سولر پارک کی شکل میں کیا تھا جس کیلئے جگہ(خبر ہے جو مریم نواز کی ملکیت ہے) اور موقع بہت غلط ہے جہاں ہر وقت ریت اڑتی رہتی ہے جس سے سولر پلیٹوں کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے لہذازیرو انرجی سسٹم میں شامل ہو رہی ہے اس کو بھی حکومت اب اونے پونے داموں بیچنے پر تلی ہوئی ہے، ستمبر 2011ء میں AEDB(Pk)، NREL(US)، GIT(Germany) and RISOE(Denmark) کی تحقیق کے مطابق پاکستان میں انرجی کی پوٹینشل پیداوار کے مواقع بالترتیب ونڈ 340 گیگاواٹ، سولر 290 گیگا واٹ، ہایڈرو (بڑے50 گیگا واٹ اور ہایڈرو (چھوٹے)31 گیگا واٹ ہیں اگر نیک نیتی سے کا م کرنا ہو تو، ورنہ 2025ء تک عوام کو بجلی کے بحران کا سامنا رہے گا-
مزاحیہ بیانات”شہباز شریف کا یہ بیانیہ ان 5 سالوں میں ہم نے بجلی پیدا کردی ہے اب ووٹ دیں تاکہ اگلے 5 سالوں میں یہ بتائیں کی بجلی استعمال کیسے کرنا ہے، یا یہ کہ ہم نے اتنی بجلی پیدا کردی ہے کہ انڈیا بھی مانگے تو اس کو بھی دے سکتے ہیں، ۶ ماہ میں بجلی پیدا نہ کی تو میرا نام بدل دینا جیسے نعروں سے عوام کے 5 سال گذاردیئے اور گرمی آتے ہی پول کھل گئے“-
ہماری عوام بھی بجلی کی بچت کرنے کی طرف راغب نہیں ہو پارہی، ایک زمانہ تھا جب سارے گھر والے چھت پر ایک پنکھے کے سامنے مزے کی نیند لیتے تھے اب ہر جوڑے نے علیحدہ علیحدہ کمروں میں اے سی لگا کر سونا ہے، ہر کمرے میں الگ الگ ٹی وی، ریفریجریٹر، استری، چاہے اس کے لئے ہزاروں کا بل کوئی پرواہ نہیں، بجلی بچت کے بے شمار طریقے ہیں، پر آلات، عادات اور مزاجوں کی تبدیلی کی ضرورت ہے، وزیر پانی و بجلی بھی نا اہل رشتے دار جو جھوٹے وعدوں اور کھوکھلے نعروں سے اپنی تجوریاں بھرچکے ہیں چیف جسٹس صاحب سے درخواست ہے کی اس محکمے (WAPDA) اور وزیر پانی و بجلی کی کارکردگی کا بھی سو موٹو لیں، تاکہ عوام بجلی کے اس عذاب مسلسل سے چھٹکارا پا سکے اور آنے والے دنوں میں پانی کے بحران سے بھی جو انڈیا ہمارے لئے پیدا کررہا ہے-