1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. فیصل رمضان اعوان/
  4. تلہ گنگ کے ٹال ٹیکس اور اس عہد کے سلطان کی بھول

تلہ گنگ کے ٹال ٹیکس اور اس عہد کے سلطان کی بھول

گزشتہ روز بلکسر سے مظفرگڑھ جانے والے سنگل روڈ پر بلکسر اور ترحدہ کے مقام پر دو عدد نئے ٹال ٹیکس لگا دئیے گئے۔ تلہ گنگ ولاوہ سے کچھ دوستوں نے اس ٹال ٹیکس کو بنیاد بنا کر سوشل میڈیا پر مسلسل احتجاج شروع کر رکھا ہے۔ ہم براہ راست اس احتجاج میں شامل تو نہ ہوسکے یعنی سوشل میڈیا پر اپنا حصہ نہ ڈال سکے لیکن اس دوران باربار خیالات میں کھوئے رہے اور ماضی کے وہ کالم جو اس سڑک کے بننے سے پہلے لکھے تھے سب یاد آنے لگے۔

ہم نے بارہا اس روڈ پر آئے روز حادثات پر بہت لکھا یوں بلآخر کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے، ہم سب کی سنی گئی روڈ بن گیا۔ بلکسر سے میانوالی تک اس سڑک کے اردگرد دیہی آبادیاں ایک طویل عرصہ تک ایک اذیت ناک صورت حال سے دوچار ہیں۔ سڑک پر چلتی ٹریفک سے اڑتے گردوغبار سب برداشت کئے گئے۔ ان دنوں اس روڈ کو خونی اور قاتل روڈ کہا جاتا تھا حادثات میں بے شمار لوگ جانوں سے گئے۔ زخمی اور معذور افراد کی بھی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔

ابھی ہم نئے ضلع کے قیام کی خوشیاں منا ہی رہے تھے جو ابھی مکمل بھی نہیں ہے۔ ہمارے ان دیہی علاقوں میں پیلے رنگ کے وہ ٹال ٹیکس کے ڈربے پہنچا دیئے گئے جسے ہم اپنی ترقی بھی سمجھتے ہیں ہم ایک دم سے ترقی پذیر علاقوں سے نکل کر ترقی یافتہ دور میں داخل ہوگئے۔ ایم ٹو موٹروے بلکسر انٹرچینج سے باہر نکلتے ہی تلہ گنگ کی جانب ایک اور ٹال پلازہ دیکھ کر ہم تو خوشی سے نہال ہوگئے بلکہ مارے خوشی کے نڈھال بھی ہوئے، اتنی تیز ترین ترقی۔۔

قارئین کرام اتفاق سے اس نئی پیش رفت کے دوران ہمارا یہاں سے گزر ہوچکا ہے بلکسر انٹرچینج سے بلکسر ٹال پلازہ اور پھر اپنے ترحدہ کو تصور میں لے کر آگے بڑھتے رہے کہ اب تو ماشااللہ ترحدہ بھی بارونق ہوگیا ہوگا۔ چشم تصور میں ہم کچھ زیادہ ہی آگے بڑھ گئے جبکہ ٹال پلازہ ترحدہ چوک پر نہیں بلکہ تلہ گنگ کی جانب اتنی دور ہے کہ چوک سے نظرہی نہیں آتا۔ یہاں پہنچ کر ہمیں کچھ رنج ضرور ہوا اور ایک خواہش پیدا ہوئی کہ وہ پیلے ڈبے عین ترحدہ چوک میں ہوتے تو مزہ دوبالا ہوجاتا لیکن چلیں خیر ہے وہ ڈبے اتنے دور بھی نہیں ہیں۔

اپنی اس خواہش کو ہم یوں ہی راضی کرلیتے ہیں ان ٹال ٹیکس سے ہم غریب لوگ تو براہ راست متاثر ہی نہیں ہیں۔ ہم نے کون سا پیدل گزر کر ٹیکس ادا کرنا ہے پیدلوں کا ٹال ٹیکس کہاں ہوتا ہے۔ باقی فراٹے بھرتی گاڑیوں والے بھلا ساٹھ روپے کو کیا مشکل سمجھتے ہیں وہ تو ساٹھ روپے کی قدروقیمت ان دیہی علاقوں کے غریبوں سے جا کر پوچھیں جو ان ٹال ٹیکس پلازوں کے قیام کے بعد دال آٹا چینی میں ٹال ٹیکس دیں گے۔

ان پسماندہ علاقوں کو شروع سے ہی نظر انداز کیا جاتا رہا ہے اور مزید پستیاں ہمارے کھاتے میں ڈالی جارہی ہیں۔ ہکلہ راولپنڈی سے ڈی آئی خان تک بننے والے سی پیک M14 نے اس روڈ کی حالت ویسے بھی پتلی کر دی ہے۔ پہلے اس بین الصوبائی روڈ پر بے تحاشا رش تھا اب وہ بھی نہیں رہا یہاں صرف مقامی علاقائی لوگوں کی آمدورفت رہتی ہے۔ یہاں سے گزرنے والی ایک بڑی تعداد اب ہماری شمالی پٹی جو سی پیک M14 کا مغربی روٹ کہلاتا ہے وہاں سے گزر جاتی ہے جو بدقسمتی سے ہمارے عقب میں ہے سامنے نہیں۔

ہم اس شمالی بین القوامی سڑک سے مکمل استفادہ بھی حاصل نہیں کرسکتے۔ ہیوی ٹرانسپورٹ جس سے بہت سے لوگوں کا روزگار منسلک ہوتا ہے وہ دوحصوں میں بٹ گئی ہے ایک حصہ سی پیک اور دوسرا حصہ ایم ٹو موٹروے سے فیصل آباد M4 سے ملتان آگے کراچی کی طرف۔۔ اب میانوالی سے تلہ گنگ چکوال اور چکوال سے تلہ گنگ میانوالی بس یہاں یہی کچھ رہ گیا ہے اور اس علاقے کی بدقسمتی دیکھیں یہاں کوئی مضبوط اور توانا آواز بھی نہیں ہے جو بول سکے جو اپنے لوگوں کی مشکلات کا ذکر کرسکے اور اس سے آگے والوں سے کیا توقع کی جاسکتی ہے۔

یہاں کے کسی مقامی رہنما نے شاید اپنی نسل کا تو ضرور سوچا ہوگا لیکن ان غریبوں کی نسل کا کون سوچے گا۔ ان علاقوں کی خاطرخواہ ترقی کے لئے آج تک کچھ کیا ہے۔ کچھ بھی نہیں یہ ٹال ٹیکس کا تحفہ بھی ہمارے نصیب کے کھاتے میں ڈلوا کر خاموشی اختیار کرلی گئی ہے۔ یہ مقامی دیہی آبادی کے ساتھ ظلم و زیادتی ہے ساغرصدیقی کا ایک شعریاد آگیا۔۔

جس عہد میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی

اس عہد کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے

یہاں سلطان کی کچھ بھول نہیں ہے بلکہ سلطان سب بھول گیا ہے۔ وسائل سے محروم ان علاقوں کی صحت تعلیم اور دیگر بنیادی سہولیات کا بحران ایک طرف اور ٹال ٹیکس کے اضافی بوجھ کے یہ خوبصورت ترقی کے ضامن (میرے نزدیک) پیلے ڈبوں کا تکلیف دہ تحفہ یہاں کے باسیوں کے لئے ایک نئی مشکل کا سبب بنے گا۔ بنیادی طور پر یہاں ایک مشکل زندگی پائی جاتی ہے لوگ حلال روزی کے لئے دن بھر محنت مزدوری اور مشقت کرتے ہیں اس سے اپنے بچوں کا پیٹ پالا جاتا ہے۔

ایسی غریب بستی والوں کے دکھوں میں اضافہ ایک رہزن کی سوچ تو ہوسکتی ہے کسی مسیحا کی نہیں۔ اس عہد کے سلطان سے گزارش ہے کہ رعایا پر رحم کیا جائے اور مزید پسماندگی میں دھکیلنے کا پروگرام منسوخ کیا جائے اور یہ ٹال ٹیکس وسائل سے محروم ان پسماندہ ترین علاقوں سے ختم کئے جائیں۔۔

فیصل رمضان اعوان

Faisal Ramzan Awan

فیصل رمضان اعوان روزنامہ اساس روزنامہ، جناح اور دیگر قومی اخبارات میں کالم لکھتے ہیں۔ پیشے کے لحاظ سے ایک نجی کمپنی میں جنرل منیجر ہیں۔