1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. زاہد اکرام/
  4. دو نہیں ایک پاکستان!!

دو نہیں ایک پاکستان!!

پاکستان تحریک انصاف والے کافی سالوں سے نئے پاکستان کا نعرہ لگاتے آئے ہیں، نیا بنے گا پاکستان، جس پر کافی لوگوں نے ازراہ مذاق کافی ٹھٹھہ بھی کیا، ایک مزاح منسوب با زرداری تو بہت وائرل ہواکہ’’ اگر کپتان صاحب نیا پاکستان بنا رہے ہیں تو کیا میں پہلے والا بیچ دوں‘‘، وغیرہ وغیرہ (اس نئے سے یاد آیا ہمارے سراج الحق جماعت اسلامی والے فرماتے ہیں نیا نہیں اسلامی پاکستان بنائیں گے جس کیلئے ایم ایم اے بنی ہے بالکل اسی طرح جب پی پی پی کے خلاف نو ستارے اکھٹے ہوئے تھے اسلام لانے والے تھے، کیا یہ سب کچھ الیکشن کے موقع پر یاد آتا ہے؟)، لیکن اب اس نئے نعرہ میں کچھ جان ہے، دو نہیں ایک پاکستان، اجلا پاکستان، سب کا پاکستان، بات سمجھ میں آتی ہے کہ موجودہ پاکستان ہی جس میں2 نہیں ایک نظام امیر اور غریب سب کیلئے ایک ہی نظام۔ ہمارے بہت سارے محترم سینئر کالم نگار وں نے اس نعرہ کو نیا رنگ دینے کی سعی کی ہے ان کی خدمت میں عرض ہے، کی اس نعرہ میں کوئی ایسی بات نہیں جس سے خدانخواستہ یہ دو لخت ہونے جارہا ہے، اسی پاکستان کو چمکانے کی بات ہورہی، ایسے پاکستان کی بات ہورہی ہے جس میں سیاسی اور غیر سیاسی اشرافیہ تو اپنی بیماری کا علاج باہر ممالک میں کروانے جائیں اور غریب کیلئے دوا بھی میسر نہ ہو، غریب کو تو روٹی چوری کی کڑی سزا اور امیر کو اربوں کی چوری پر اسکی بیٹی کہے کیا بھائیو آپ کو ایسا پاکستان منظور ہے جہاں وزیراعظم کو سزا سنائی جائے، بی بی ابھی تو سنائی ہے دی نہیں جب سزا دی جائے گی تو کیا بنے گا، اور باپ کہے کہ یہ نوبت آنی تھی کہ بیٹیوں کو مقدمات میں گھسیٹا جا رہا ہے، بہرکیف میں اپنے موضوع سے ذرا ہٹ گیا بات تھی دو نہیں ایک پاکستان کی جس میں تعلیم، صحت، انصاف کا نظام ایک ہو، پہلی بار کسی لیڈر نے اپنے دل سے عوام کی بات کی اورگیارہ نکاتی ایجنڈا دیا، پہلے ۱۰۰ دن کا منشور دیا، عوام کی فلاح بہبود کا، اور پاکستان کو نبی ﷺ کے دور کی فلاحی ریاست بنانے کا عندیہ دیا، نہ نعرہ فروشی کہ لاہور کو پیرس اور کراچی کو نیویارک بنانے کے وعدے بے وفا، پہلی بار کسی عوام دوست لیڈر نے ۲ گھنے کے خطاب میں(جس میں عوام کیا بولنے والا بھی نہ تھکا نہ بور ہوا)، ۵۰ لاکھ چھوٹے مکان تعمیر کرنے کا وعدہ کیا، جس کی ابتدا کے پی کے میں ’’ہر ملازم کا اپنا گھر‘‘ کے نام سے شروع ہو چکی ہے، اب اللہ کرے اسے یہ وعدہ پورا کرنے کا موقع ملے، تاکہ پی پی پی کے نعرہ کا ایک حصہ’’۔ ۔ ۔ اور مکان ‘‘ پورا ہو اور بندر بانٹ نہ ہو، اپنے ایجنڈے میں کپتان نے محروم کاشتکاروں اورزراعت پر زور دیا، کیونکہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور اسکی خوشحالی کا دارومدار زرعت اور کسان پر ہے، پاکستان کی شرح خواندگی ۵۸ فیصد ہے پستی کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر اس لیے تعلیم کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے، کرپشن پاکستانیوں کے خون میں شامل ہوچکی ہے اس کیلئے کڑا احتساب اور کڑی سزاوں کے نظام کی ضرورت ہے حو خان صاحب کے ہاتھوں ممکن ہے، پاکستان میں فروغ سیاحت کی طرف کسی حکومت نے دلچسپی نہیں لی حالانکہ اس کے بہت سے مواقع ہیں اور پاکستان سیاحتی خرانہ ہے، اگر اورنج ٹرینوں اور دوسرے بے کار منصوبوں کی بجائے ان علاقوں کے انفراسٹکچر پر توجہ اور پیسہ خرچ کیا جائے تو اتنا ریونیو اکٹھا ہو سکتا ہے کہ کسی اور انڈسٹری کی ضرورت نہیں رہے گی سوال پیدا ہوتا خان صاحب کی کے پی کے میں ۵ سالہ حکومت رہی اور یہی علاقے ٹوارزم کیلئے سازگار ہیں کیا اس دوران اس طرف توجہ دی گئی اگر دی تو اس کو اجاگر کریں، اپنے انتخابی جلسوں میں ان کارکردگیوں کی ویڈیوز چلائیں اور جو لوگ آپ کو دیکھ رہے ہیں انہیں بتلائیں، دکھلائیں کہ پی ٹی آئی کی ۵ سالہ کارکردگی یہ ہے، جنگل میں مور ناچا میں نے نہیں دیکھا، کس نے دیکھا ؟اس مور کو عوام کے سامنے لائیں، تاکہ آنے والے الیکشن میں لوگ پی ٹی آئی کے کھمبے کو بھی ووٹ دیں۔

میری اللہ سے دعا ہے کہ پاکستان میں حقیقی جمہوریت کا دور شروع ہوکیونکہ لوٹ مار کی ۱۰ سالہ جمہوریت کا حسن ہم نے دیکھ لیا، اور پی ٹی آئی (عمران خان) کو ہماری فیصلہ ساز قوتیں جسے نوازشریف ان دیکھی طاقتیں یا خلائی مخلوق کہتے ہیں کھل کر فیصلے کرنے دیں، کیونکہ اگر یہ نہ ہوا اور کپتان کو بھی کام کا موقع نہ ملا وعدے پورے کرنے نہ دیئے گئے تو خان بھی نوازشریف کی طرح بحالی جمہوریت کی تحریک چلائیں گے، اللہ کر ے پی ٹی آئی اور عمران دوسروں سے مختلف ثابت ہوں، یہ حکومت میں آنے کے بعد حقیقی نکلیں اور ملک میں وہ کام کرجائیں جو گذشتہ ۷۰ برسوں میں نہ ہوئے ہوں، خان صاحب نے اسی ایجنڈے/منشور کی بات ۲۰۱۳ء میں بھی کی تھی اگر انہیں یاد ہو اور انھیں خیبرپختونخواہ میں ۵ سالہ حکومت بھی مل گئی، کیا وہاں پر ان سب باتوں کا عملی مظاہرہ کیا گیا اگر کیا گیا تو کتنے فیصد اس کو اجاگر کردیں تو بڑی مہربانی ہوگی، اس دفعہ شیخ رشید کی تجویز کو زیر نظر رکھیں، کہ چلے ہوئے کارتوس(الیکٹ ایبلز) کام نہیں آئیں گے خان صاحب ۲۰ سال پہلے کے آپکے بچے اب جوان ہوچکے ہیں جن کی تعداد کم و بیش ۱۲/۱۳ کڑور بنتی ہے متحرک، فعال، ان کو آگے لائیں، یہ الیکٹ ا یبلز زیادہ تر ادھیڑ عمرفصلی بٹیرے ہیں جہاں فائدہ اسی منڈھیر پر ڈیرے۔ دوسر ے ووٹرز ان کو ن لیگ، پی پی پی اور دیگر جماعتوں میں دیکھ اور آزما چکے ہیں اور پریشان ہیں کہ یہی چہرے اور کردار دوسری جماعتوں میں غلط تھے تو پی ٹی آئی میں آکر کیسے پرفارم کریں گے، یہ وہی کریکٹر اور ایکٹرز ہیں جو ہر حکومتی جماعت کا حصہ ہوتے ہیں اور اپنا حصہ بٹورتے ہیں، خان صاحب کیا آپ کو اپنے شاہینوں پر بھروسہ نہیں، یہی چراغ جلیں گے تو اجالا ہوگا۔