1. ہوم/
  2. افسانہ/
  3. ریٔس احمد کمار/
  4. چونا

چونا

دفتر سے واپس گھر آنے اور چائے نوش کرنے کے بعد سلام خواجہ نے سیدھے نائی کے دکان کی طرف رخ کیا۔ اگلے روز انہیں دعوت پر جانا تھا۔ اس لیے اس کی بیوی نے اسے بال بنوانے اور شیو کرنے کے لیے کہا تھا۔ جب وہ نائی کے دکان پر پہنچا تو آٹھ دس نوجوان پہلے سے ہی وہاں اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے۔

ان میں سے ایک نوجوان جانی جو چند ہی سیکنڈ پہلے کرسی پر چڑھا تھا سلام خواجہ کو دیکھ کر ایک دم کرسی سے نیچے اترا اور اس کے لیے جگہ چھوڑ دی۔ سلام خواجہ نے معزرت ظاہر کی تھی لیکن جانی کے اصرار پر وہ کرسی پر چڑھ ہی گیا اور بال بنوانے کے فوراً بعد گھر کی طرف روانہ ہوا۔

گھر پہنچنے پر اس کی بیوی دھنگ رہ گئی کہ اتنی جلدی میں وہ بال بنواکے اور شیو کرکے گھر پہنچا۔ سلام خواجہ نے صاف صاف بیوی سے کہا کہ جانی نے اس کے لیے جگہ چھوڑ دی ورنہ میں دو گھنٹے بعد گھر پہنچ جاتا۔

جانی! اس نے آپ کے لیے جگہ چھوڑ دی۔۔ کیا بات کر رہے ہو۔ وہ تو محلے میں کیا پورے گاؤں میں لٹیرا مانا جاتا ہے۔۔ اس نے کبھی کسی کی عزت کی ہی نہیں۔ وہ تو اپنے ماں باپ کی عزت نہیں کرتا ہے آپ کی کہاں کرسکتا ہے۔۔

نہیں نہیں وہ بہت ہی اچھا لڑکا بن گیا ہے۔ میرے انکار کے باوجود بھی وہ مجھ سے اصرار کرتا رہا تب ہی تو میں کرسی پر چڑھ گیا۔ وہ واقعی بااخلاق بن گیا ہے۔۔

میاں بیوی باتوں میں مشغول ہی تھے تو انہیں شام کے وقت کھانے والی دوائی یاد آئی۔ دوائیوں کی دکان بھی نائی کے دکان کے متصل تھی تو وہ فوراً بیوی کے لیے دوائی لانے کی غرض سے نکلا۔ جب وہ دکان کے سامنے پہنچا تو نائی کے دکان پر جانی اپنے بالوں کا براون کلر لگاوانے کے دوران نائی سے کہہ رہا تھا۔۔

دیکھو یار میں نے گاؤں کے اس چار سو بیس والے بوڑھے کو اس لیے جگہ چھوڑ دی تاکہ تم میرے بال آرام سے ایسے چمکاو گے کہ مجھے وہ دوسری بار پہنچاننے میں بالکل ناکام رہے تاکہ میں اسے آسانی سے چونا لگا سکوں۔۔