1. ہوم/
  2. مزاحیات/
  3. زاہد اکرام/
  4. عورتوں كا عالمی دن اور عورت راج

عورتوں كا عالمی دن اور عورت راج

بڈهى منگے پیڑے اہنوں دين والےبہتيرے
بنده منگے آٹا اہنوں آٹیوں وى كاٹا

اوپر شعر كا اردو میں مطلب ہے کہ اگر عورت كسى سے كچھ بھی ما نگے اس كو آسانى سے مل جاتا پر مرد بيچار ے کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
كل عورتوں كا عالمى دن منا يا جا رہا تها، ويسے دن تو روز ہى منايا جاتا ہے اور ہر جگہ منايا حاتا ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ تصویر کائنات کا رنگ عورت کے دم سے ہے مگر یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ ہر رنگ کا، بھنگ کا وصف بھی اسی صنف کا حصہ ہے، اسى ليے تو آدم نے ساتهى كى دعا كى تهى ليكن شايد انہيں اس بهنگ كا علم نہیں تها اگرہوتا تو وه یہ دعا نہ كرتے۔ یہاں ایک غلط العام تاریخی مفروضے کا ازالہ بھی ضروری ہے کہ مرد زندگی کی فلم کا ہیرو ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اس کہانی میں ہیرو، ہیروئن، ولن سب عورت ہے ، مرد تو بس ایک ايكسٹرا کریکٹر، بعض صورتوں میں تو صرف مہمان اداکار کا کردار نبھاتا ہے۔
ماں، بہن اور بیوی کے تکون میں پھنسے مرد کی حالت بالکل ایسے ہوتی ہے جیسے تنے ہوئے رسے پر چلتے بازیگر کی، جو ایک لمبے بانس کے ذریعے توازن برقرار رکھتا ہر قدم پر جھولتا، لڑکھڑاتا نامعلوم منزل کی جانب قدم بڑھتا جاتا ہے روز مرتا روز جيتا ہے ، بھلا بتائیے پھر بھی مرد ظالم اورعورت مظلوم، صرف اتنا ہی نہیں بلکہ دنیا کو مرد کا معاشرہ قرار دیا جاتا ہے یہ ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے۔ عورت کو کمزور کہنے والے دراصل عقل کی کمزوری کا شکار ہیں۔ رضیہ سلطان ہو تو میدان جنگ میں مردوں کو زمین چٹائے۔ مدر ٹریسا کے روپ میں زمانے کے زخموں کا مرہم بن جائے ، نورجہاں بن کر جہانگیر کی سلطنت پر حکمرانی کرے اور انار کلی بنے تو اكبراور شیخو کے درمیان چنی ہوئی دیوار بن جائے۔ وہ کہتے ہیں نا وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ، بلکہ میں تو كہونگا تصویر کائنات میں بهنگ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ عورت کا ہر روپ رنگ، خوشبو اور الفت کے خمیر سے اٹھا ہے۔ ماں ہو تو مامتا، بہن ہو تو سراپا پیار، بیوی دکھ ( دينے والى زياده) سکھ کى ساتھی اور بیٹی کی صورت میں پھول کی انمول مہک، سچ تو یہ ہے کہ اس کے بغیر زندگی کی تصویر مکمل ہو ہی نہیں سکتی۔
مرد كا كيا وه توایک بے رنگ، بے بو مخلوق، چلیں ایک لمحہ فرض کر لیں اگر دنیا میں صرف مرد ہی مرد رہ جائیں تو یہ محفل کتنی اجاڑ، بے رنگ اور نحوست زدہ نظر آئے۔ مرد بیچارہ کرے بھی تو کیا کرے ، احساس کمتری کی ماری یہ مخلوق خواتین کے بارے میں طنزیہ لطائف اور نوک جھونک سے دل کی بھڑاس نکالتی ہے مگر اس حقیقت سے بخوبی واقف ہے کہ زندگی کے ہر ہر قدم پر صنف مخالف کی محتاج ہے اور اسى كى چلتى ہے۔ کیا آپ کو کوئی شک ہے کہ دنیا کا بہترین PET کوئی اور نہیں مرد ہے (مذکورہ لفظ کو بوجوہ انگریزی میں لکھنا ہی مناسب ترین ہے )۔ ماں کی مانے تو پلو سے بندھا ہونے کے طعنہ، بہنوں کی سنے تو عالمی سازشوں کا مرکز، غلطی سے بیوی کی تعریف کر بیٹھے تو رن مريدى کا اعزاز تو کہیں نہ گیا۔ مزیدار بات یہ ہے کہ ان تمام اعزازت کی خطیب عورت اور مخاطب مرد ہے ، گویا عورت بمقابلہ عورت کی بساط پر مرد کی اوقات ایک پیادے کے سوا کچھ بھی نہیں۔
بہرحال یہ صفت بھی صرف مرد سے خاص ہے کہ بیک وقت کئی ریموٹ اسے کنٹرول کرتے ہیں، پھر بھی بلا کا عزم ہے کہ خودمختاری کا نادیدہ علم ہر آن بلند رکھتا ہے ۔ ویسے تو ہر گھر کی کہانی کم و بیش یکساں ہوتی ہے، پہلے تو چھان پھٹک کر چندا جیسے بیٹے کے لئے چاند سی بہو کا انتخاب پھر چاند طلوع ہوتا نہیں کہ گرہن کی پیشگوئیاں اور سجتا ہے پانی پت کا میدان، اور پھر گھمسان کا رن معرض وجود میں آتا ہے ۔ کوئی دم سکون ہو تو ہر خاندان میں ماشااللہ ایک نہ ایک خود کش بمبار ضرور ہوتی ہے ، کسی کو پتہ نہیں ہوتا کہ یہ کب ازخود نوٹس لے کر کس سے لپٹ جائے اور كيا دهما کہ ہو الامان ، گویا میدان رزم کی رونق کبھی ماند نہیں پڑتی۔ ساس، نندوں اور بہو کے مثلث میں گھرا چندا ساری زندگی یہ سمجھنے سے قاصر رہتا ہے کہ اس پورے عمل میں وہ خود کہاں ہے ۔ ویسے ساس بہو کا مسئلہ صرف ہمارا نہیں بلکہ عالمی یا یوں کہا جائے کہ خداداد رقابت کا ازلی شاخسانہ ہے۔ وہ چینی کہاوت ہے نا کہ بلی سیاہ ہو یا سفید، دیکھنے والی بات یہ ہے کہ چوہوں کو مار سکتی ہے یا نہیں، تو ساس کا تعلق دنیا کی کسی تہذیب، خطے اور نسل سے کیوں نہ ہو، بہو کے رنگ میں بھنگ ڈالنے کی فطری صلاحیت سے مالامال ہوتی ہے۔ ملکہ برطانیہ نے لیڈی ڈیانا کو دن میں تارے دکھائے تو اندرا گاندھی نے مانیکا کے پر پرزے جڑ سے اکھاڑ پھینکے۔ ان فسانوں میں شہزادہ چارلس اور سنجے گاندہی کا کردار کیا تھا مورخ آج تک خاموش ہے۔ سیدھی سچی بات تو یہ ہے کہ زندگی عورت کی عورت سے جنگ کی ایسی داستان ہے جس میں مرد کی حیثیت صرف چٹیل میدان کی ہوتی ہے -
گھر کا سربراہ مرد اور فیصلہ سازعورت ہوتی ہے، فیصلہ درست ہو تو بیوی کا اور غلط ہو تو بتانے کی کیا ضرورت ہے عقلمند كواشارہ کافی۔ یہ ضرور ہے کہ سربراہ عقلمند ہو تو زمینی حقائق پر سر تسلیم خم رکھتا ہے ورنہ دما دم مست قلندر پر دھمال مقدر ہوتا ہے۔ کچھ ٹرمپ خصلت شوہر بھی ہوتے ہیں مگر ان کا حشر نہ گھر کا نہ گھاٹ کا والا ہی ہوتا ہے۔ دنیا میں بیویوں کی دو اقسام پائی جاتی ہیں، پہلی قسم کی بیویاں عقلمند، شوہر کی مزاج داں، سکون و راحت، صابر، شاکر، ذہین و معاملہ فہم ہوتی ہیں اور دوسری قسم وہ ہے جیسی ہماری اور آپ کی ہیں۔ ہر بیوی میں طالبانى صفات بدرجہ اتم موجود ہوتی ہیں، یہ کیفیت يا یہ 'دور ے' بالعموم بلااشتعال طاری ہوتی ہے اور مقابلہ کرنا کسی زید، بکر کے بس کی بھی بات نہیں لہذا واحد حل صبر کے سوا کچھ نہیں۔ مرد کی بیچارگی کا احوال کچھ یوں بھی جانا جا سکتا ہے کہ دنیا میں خواتین کے تحفظ اور حقوق کی بیشمار تنظیمیں کام کر رہی ہیں، کیا مردوں کے لئے کبھی، کہیں کوئی تنظیم آپ کی نظر سے گزری، حتیٰ کہ انسداد بے رحمی حیوانات جیسی کوئی تنظیم بھی مرد کی دلجوئی پر تیار نہیں۔
غور فرمائیں اگر مجنوں کو لیلیٰ، فرہاد کو شیریں اور رانجھا کو ہیر مل جاتی تو یہ بھی میری اور آپ کی طرح ماں، بہنوں اور بیوی میں پھنسے عقیدہ تثلیث کے مشرک قرار پاتے۔ آج کوئی بھولا بسرا مرد گوتم کی پیروی کر بیٹھے تو نکھٹو، بزدل، بے حس اور دیگر متعلقہ القابات ناگفتنی کے علاوہ نان و نفقے سمیت کئی قانونی دفعات کا مجرم ٹہرے۔ اور اگر بھول کر اسلام كى كسى شق پرعمل پیرا ہو تو زندگى عذاب زندگی بھی ایک معمہ ہے، بہرکيف آئيے ان محنت كش عورتوں کے بغير عورتوںكا عالمى دن مناتےہيں، حن كو پتہ بهى نہيں كہ ان كيليے بهى كوئى دن مخصوص ہے، اور دعا كرتے ہیں ہمار ا بهى كوئى دن ہو-

حال دل جس نے سنا گریہ کیا
ہم نہ روئے ہا ں ترا کہنا کیا