1. ہوم/
  2. مزاحیات/
  3. زاہد اکرام/
  4. پہلے تولو پھر بولو

پہلے تولو پھر بولو

(وَقُولُوا لِلنًاس حُسنًا)

سیانے کہہ گئے ہیں، سیانوں نے کیا کہنا وہ تو کہتے ہی رہتے ہیں، یہ بھلا کیا بات ہوئی کہ پہلے تولو یعنی پہلے تولنے کیلئے تکڑی ووٹوں کا انتظام کیا جائے اور تولا جائے پھر بولا جائے اتنی دیر میں سننے والا تنگ آکر چلا جائے یا بات ہی سننے سے انکار کردے، ویسے تولنے سے یاد آیا آجکل تو ناپ تول کاپیمانہ ہی کوئی نہیں، ہر ایک کا وزن علیحدہ علیحدہ ہے ،جس کا جتنا وزن ہوگا ،اتنی وزن دار بات ہوگی، اتنی ہی پکڑ دار بات ہوگی ،بات کیا ہوگی باتوں کا بتنگڑ ہوگا،جو جتنا زیادہ بولنے والا ہوگا جتنا چرب زبان ہوگااتنا ہی دوسروں کو قایل کرنے والا ہوگا ، بھلا چرب زبان کہاں تولتا پھرے گا یا تو پھر کوئی ایسا طریقہ ہو تولنے کا کہ بات زبان سے نکلنے سے پہلے خود ہی تل تلا کر سنسر ہو کر نکلے اس کے ساتھ ساتھ آواز کا ردھم اور سر بھی نکلیں ،کہ کہیں بےُ سری بات نہ نکل جائے اور یہ بھی ہو کہ بات پکڑ میں نہ آئے، یا بات کے کئی کئی معنی ہو تاکہ بات بنانے اور بدلنے میں آسانی ہو،ویسے آپس کی بات ہے یہ ’’ پھٹیچر ‘‘ اور ’’ریلو کٹے‘‘ کا کیا مطلب ہے ،یہ کسی ناپ تول میں آتا ہے اس طرح کی باتوں کو بھی تولنا چاہیے یا جو منہ میں آئے بس بن داس بول دینا چاہیے،ویسے آپس کی بات ہے یہ سب کہتے وقت توَلا تُولا مین نے بھی نہی بس لکھ دیا ہے۔ بولنے کو تو اور بہت کچھ ہے جیسے معزز عدالت کے جج صاحبان سے کہنا ،’’آنکھیں کھول کر پڑھیں کتاب کے سارے اوراق پورے ہیں‘‘ ، بقول خواجہ صاحب یا دوسرے خواجہ صاحب کا شیریں مزاری صاحبہ کو ’’ ٹریکٹر ٹرالی‘‘ کہنا ، یا رانا صاحب کا شیخ رشید صاحب کے بارے میں گراں قدر ارشاد ،’’ روالپنڈی کا غلیظ انسان شیدا ٹلی‘‘ ، عابد صاحب بھی کسی سے کم نہیں وہ بھی اکثر فرماتے رہتے ہیں ،’’ جتھے دی کھوتی اتھے آن کھلوتی‘‘ بمقابلہ ’’ریلو کٹا‘‘، تو جناب کیا یہ الفاظ قابل گرفت نہیں، کونسا ایسا سیاستدان ہے جس کے منہ سے پھول نہ جھڑتے ہوں۔ مجھے لگتا ہے عوام کی یاداشت بہت کمزو ہو گئی ہے ، کیا ہوا اب اگر میاں صاحبان نے شائستگی کا دامن تھام لیا ہے وہ وقت بھول گئے جب بڑے میاں صاحب اپنے وقت کی سیاسی حریف بینظیر بھٹو صاحبہ کے بارے میں معیوب الفاظ اگلتے تھے ، اور تو اور چھوٹے میاں صاحب بھی ملک کے۵ سالہ جمہوری صدر کو ’’زرداری مداری‘‘ کے نام سے پہچانتے اور سڑکوں پر گھسیٹتے تھے ، کراچی کے میئر وسیم صاحب بھی کسی سے کم نہیں جو وزریر داخلہ کے متعلق فرماتے ہیں ’’نثار گنجا وگ لگا کر آتا ہے جس کا لیڈر نقلی بال لگواتا ہے‘‘ ، یہ ویسے زیادتی ہے کسی کو گنجا کہنا یہ کوئی اس گنجے سے پوچھے اس کے دل پر کیا بیتتی ہے، یہ تو تھیں وہ باتیں جو زبانی جمع خرچ ہیں بات تو ایوانوں میں اس سے بھی آگے ہے،اب تو مکوں گھونسوں ،لاتوں (ویسے لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے) تک جا پہنچی ہے ، رکئیے ذرا کرسیوں کا ذکر تو رہ گیا،اور گالیوں ،گندی غلیظ، باتوں کا ذکر کرنا تو میں بھول نہی سکتا،حتی کہ ایک چوہدری صاحب نے بہنوں بیٹیوں کی عزت اچھالنے سے بھی دریغ نہیں کیا کیا کہوں کہ کس طرح ہمارے سیاسی شرفا ء ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالتے ہیں جنہوں نے پاکستان کی تقدیر لکھنا ہے ،آیئن بنانا اور ترمیمات کرنا ہیں ،ویسے آپس کی بات ہے جعلی ڈگریوں والے اور ریلوکٹے قسم کے لوگ جنہیں اپنی تجوری کی فکر ہے بس! وہ کیا قانون بنایءں گے ،گنجی نہائے کی کیا اور نچوڑے گی کیا،پڑھے لکھے سلجھے اور مہذب لوگ تو دھکے کھا رہے ہیں، ان کو تونوکری کے لالے! اور ایوان والوں کو کئی کئی لاکھ تنخواہ ،مراعات،کک بیکس،ہدیے،کمیشن اور پتہ نہیں کیا کیا!کل جو سایئکل پر نظر آتے تے آج وہ انڈسٹریلسٹ ہیں ،بے شمار کو تو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں پھر کسی موقع پر گوش گذار کرونگا، خیر موضوع کسی اور طرف نکل گیا۔

میرے اللہ اورمیرے نبیﷺ نے بڑے واضح الفاظ میں اس طرح کی لغویات اور برے القابات سے منع فرمایا ہے ، ’’ولاتنابزو بالالقاب‘‘ اور لوگوں سے اچھے اخلاق کی تلقین کی وَقُولُوا لِلنًاس حُسنًا پھر ہم کیوں نہیں بولنے سے پہلے تولتے یہ ہم سب پر بھی لاگو ہوتا ہے اور یہ بھی لاگو ہوتا ہے کہ بات کا بتنگربنانا اور اچھالنا بھی کوئی اچھی بات نہیں اور مہذب معاشرے کی عکاس نہیں میرے کچھ قارئین کو مہذب پر اعتراض ہو سکتا ہے جس کیلئے میں معذرت خواہ ہوں ۔