1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. زاہد اکرام/
  4. آزادی سے (مادر پدر) آزادی تک

آزادی سے (مادر پدر) آزادی تک

میرے پھوپھا تقریباً پچھلے ۵۶ برس سے لندن بسر ہیں ہر سال پاکستان آتے ہیں ،اس دفعہ آئے تو باتوں باتوں میں ،میں نے پوچھ لیا انکل آپ ہرسال اتنا سفر اور خرچہ کر کے آتے ہیں آپ کے پاس اپنا مکان ہے دولت ہے یہی سیٹل کیوں نہیں ہوجاتے اب آپ کی عمر بھی ہو گئی ہے تو کہنے لگے ’’ پاکستان کے اب حا لا ت سہی نہیں، پاکستان اب پہلے والا پاکستان نہیں رہا ‘‘ میں نے مزید پوچھا انکل اس کی وجہ کیا ہے، تو کہنے لگے ’’ آزادی‘‘ ، میرا ماتھا ٹھنکا میں نے وضاحت چاہی کہ انکل آزادی کیلئے تو پاکستان حاصل کیا تھا ، کہنے لگے ’’مادرپدرآزادی‘‘ کیلئے نہیں۔۔۔۔۔۔ میں سوچ میں پڑگیا ، واقعی انکل صحیح کہہ رہے تھے ، ہم نے مادر پدر آزادی ہی حاصل کر لی ہے ،جس کا جو دل چاہتا ہے وہ کرتا ہے جہاں دل کرتا ہے،جیسے دل کرتا ہے وہ کرتا ہے کوئی پوچھنے والا نہیں ۔ کوئی ہوٹل کھولنا ہو ،کوئی دکان کھولنی ہو ،کوئی کلینک یا ہسپتال کھولنا ہو بس کھول لو کسی فارمیلٹی کی ضرورت نہیں کسی ادارے سے اجازت لینا ضروری نہیں اگر کبھی پڑ بھی جائے تو کوئی بات نہیں کچھ لے دے کر معاملہ نمٹا لیں یا احتجاج کر لیں ٹایر جلا دیں سڑکیں بند کردیں ابھی پچھلے دنوں نیا ڈرگ ایکٹ لاگو ہوا ہے جعلی اور غیر میعاری ادویات کیلئے بس ہنگامہ آرائی،ہڑتال اور ہنگا مے شروع اور اس میں بم بلاسٹ ،کس نے پوچھنا ہے۔ یورپین ممالک کی بات ہی کیادوسرے ممالک میں حتی کہ عرب ممالک میں بھی آپکی مرضی نہیں چلتی بہت سارے قاعدے قوانین ہیں انہیں فالو کرنا پڑتا ہے تب جاکر آپ کوئی چھوٹی موٹی دوکان یا بوفیہ( ڈھابا )کھول سکتے ہیں اور یہی بات ختم نہیں ہوتی اس کی باقاعدگی سے چیکنگ بھی ہوتی رہتی ہے ،آزادی سے ایک آپ بیتی یاد آگئی ہماری پی آئی اے فلائٹ مدینہ سے لاہور تھی،جیسا پاکستانی کرتے ہیں دھکم پیل دھینگا مشتی ائیرپورٹ چھوٹا تھا جب بہت رش ہوگیا تو وہاں موجود ایک نحیف سا شرطہ (پولیس والا) اٹھا اور ایک آواز سب کی بولتی بند اور دروازہ بند اندر جو لائین کے بغیر تھے انہیں بھی باہر کردیا کسی کی جرأت نہیں ہوئی چوں بھی کرتا،یہی فلایٹ ۴ گھنٹے بعد جب لاہور ائیر پورٹ پرا تری تو پھر بے ہنگم شوردھکم پیل دھینگا مشتی جو FIA والوں سے بھی نہ سنبھلی۔ پیارے پاکستان میں بڑی بڑی فیکٹریاں بڑے بڑے گودام بغیرحفاظتی انتظامات کے بھرے پڑے ہیں آئے دن آگ لگنے کی خبریں سنی جاتی ہیں، ناقابل تلافی جانی و کڑوروں کا مالی نقصان،ہوٹلوں کی بات ہی کیا جو مرضی کھلا دیں جیسا مرضی کھلا دیں ،باسی،حلال حرام،گندا مندا کوئی پرواہ نہیں بس مزا آنا چاہیے حالانکہ ٹی وی پر پروگرامز بھی دیکھائے جاتے ہیں،ہسپتالوں میں بھی مریض کے ساتھ جو مرضی کردیں جومرضی دواء دے دیں کوئی سا بھی غیر معیاری اسٹنٹ اس کے دل میں ٹھونک دیں کیا پرواہ پیسے تو بن رہے ہیں ۔ اس سب خرابی کی ابتداء اس وقت شروع ہوئی جب ۱۹۴۷ ء کی آزادی کے وقت مسلمانوں کا ہجوم ہجرت کرکے پاکستان آنا شروع ہوا تو یہاں پر کوئی انفراسٹرکچر نہیں تھا جو لوگ یہاں سے ہجرت کر گئے تھے انہوں نے ککھ نہیں چھوڑا اور جو لوگ آئے تھے وہ بھی ککھ نہیں لائے لٹے پھٹے آئے تھے لیکن جو چیز وہ ساتھ لانے میں کامیاب ہوگئے تھے وہ تھا ’’جذبہ‘‘ ، اسی جذبے کے تحت وہ اپنے پاؤں پرتھوڑا بہت کھڑا ہونے کے قابل ہو سکے ،جس کوجو آتا تھایاوہ کرتا تھا کسی نے کسی کام کو عار نہیں سمجھا،موچی ،نائی، نانبائی،حلوائی،ترکھان ،لوہار، کسان سبھی اپنے اپنے کام میں جت گئے اور ترقی دینے لگے اپنے کنبے اور معاشرے کو ،لہذا اسوقت تو قوانین کی اتنی ضرورت نہیں تھی ، لیکن جب یہ ترقی کی دوڑیہاں پہلے سے موجود لوگوں کے ساتھ ہوس اور لالچ میں تبدیل ہوئی تو زیادہ خرابی شروع ہوئی لوہار کی بھٹی فاونڈری میں تبدیل ہونے کو مچلنے لگی ،شکر گڑ بنانے والے اڈے شوگر ملوں میں بدلنے لگے، کسان زمنیداروں اور چوہدریوں میں ڈھلنے لگے ، معاشرے کے خدوخال بدلنے لگے،،ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہ دوڑ پاکستان کی ترقی کیلئے ہوتی انفرادی ترقی کیلئے نہ ہوتی، جس کے نتیجہ میں پاکستان نے کم،کنبوں اور قبیلوں نے زیادہ ترقی کرلی ، میاں ملک ٹوانے مٹوانے ،رانے،ڈار شار منظر عام پر آنے شروع ہوئے میں اس بحث میں زیادہ نہیں جانا چاہتا میرے قارئین یہ سب جانتے ہیں،پچاس اور ساٹھ کی دھائی کی پیداوار کو۔حالانکہ اس وقت ضرورت تھی خصوصی تربیت کی جس نے آنے والے وقت میں ملک کی ترقی میں حصہ لینا تھا لیکن وقت کس کے پاس تھا حکومت ابھی تک تشکیل کے مراحل سے گذر رہی تھی اور قائداعظم کی وفات کے بعد مسلم لیگی راہنما اقتدار کی کشمکش میں الجھنے لگے تھے ،کنبے کا سربراہ گھر کا کچن چلانے کی فکر میں سارا دن ہلکان رہتا تھا ،تو اس ضمن میں جو ایلیٹ تیار ہوئی وہ آپکے سامنے ہے جن کی مناسب تربیت بچپن سے ہی ہونا چاہیے تھی جو نہیں ہوئی جس کا خمیازہ یہ نسل بھگت رہی ہے اور لگتا ہے کہ اگر توجہ نہ دی گئی تو پاکستانی ہجوم ابھی اور ۲۰ /۲۵ سال مانند شتر بے مہار رہے گا کیونکہ نئی نسل تیار ہونے میں اتنا وقت ہی درکار ہوتا ہے، مجھے قایداعظم کا ایک فرمان یاد آگیا (ڈھاکہ یونیورسٹی ۲۶ مارچ ۱۹۴۸ء)۔

’’ آزادی کا مطلب بے لگام ہوجانا نہیں ،آزادی کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ دوسرے لوگوں اور مملکت کے مفادات کو نظرانداز کرکے آپ جو چاہیں کر گذریں ، آپ پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور پہلے سے کہیں زیادہ ،اب یہ ضروری ہوگیا ہے کہ آپ ایک منظم اور منضبط قوم کی طرح کام کریں ،اس وقت ہم سب کو چاہیے کہ تعمیری جذبہ پیدا کریں۔‘‘

جس پرکسی نے توجہ ہی نہ دی نہ ہی گھریلونہ معاشرتی سطح پر اور نہ ہی حکومتی سطح پر،حکومت کو تو چھوڑیے وہاں تو غاصبوں کی وہ فوج قابض ہے جس کو پاکستان سے کوئی لینا دینا نہیں وہ تو پاکستان کو پاکستان نہیں لندن اور پیرس بنانے پر تلے ہوئے ہیں جو تو نہ بن سکا لہذا انہوں نے لندن اور دبئی میں جایدادیں ضرور بنا لیں جو پاناما کی شکل میں ظاہر ہورہی ہیں،اور تو اور اب چایئنہ کی کوئی کالونی بھی بنانا چاہتے ہیں ہر پراجیکٹ چایئنہ سے،ان سیاسی اشرافیہ کو پاکستانی نظر ہی نہیں آرہے اور یہ وہ ٹولہ ہے جو بالکل ہی آزاد ہے بلکہ مادر پدر آزاد جن کے نزدیک آزادی کے معنی ہی کچھ اور ہی ہیں۔