1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. زاہد اکرام/
  4. بابے اور دھماکے

بابے اور دھماکے


بابے اور دھماکے


’’ ا لآ ان اَولیا اللّہ لَاخوفُ عَلیھم ولَایحَزنونَ‘‘


اولیاء اللہ جن کے بارے میں قرآن میں بڑی وضاحت آئی ہے اور جنہوں نے اسلام کی شمع رشدوہدایت کوپوری دنیا میں روشن کیا، برصغیرہند میں خاص طور پر، لیکن برصغیر میں بسنے والوں انسانوں کو گمراہی کے اندھیروں میں دھکیل کر جبراً ان سے شرک و بت پرستی کروائی جا رہی تھی، انہیں اپنے ہی اصل عقائد سے بے بہرہ رکھ کر مذہب کی آڑ میں ذاتی غلام اورلونڈیاں بنا کر رکھا گیا تھا۔ شرک و بت پرستی کے ان جراثیموں کی صفائی، اسلام کے ابتدائی دنوں میں تو خوب ہوئی ،جب اللہ کے ولیوں نے اللہ کے پیغام کی تبلیغ کرتے ہوئے، اپنے کردار سے اسلام کی عملی تصویر معاشرے کے پسے ہوئے ،ٹھکرائے ہوئے انسانوں کے سامنے پیش کی، تو معاشرے کے یہی راندہ درگاہ ’’مساوات‘‘ سے متاثر ہوکر جوق در جوق دائرہ اسلام میں داخل ہوتے رہے۔ بعد ازاں،اپنی طویل ترین دور غلامی کے دوران دل و دماغ میں رچ پس جانے والی عبادات ،ضعیف العتقادی نے عالم اسلام کے نامور اور جید علماء کرام کی قبروں کو وہی صورت دے ڈالی،جس سے ان علماء نے انہیں منع فرمایاتھا۔ درحقیقت، برصغیر کے لوگ اپنے دل و دماغ سے اس تاثر کو نکالنے میں بری طرح ناکام ہوئے،جو شرک و بت پرستی کی بنیاد ہے، بد قسمتی سے دوسری طرف جید علماء اور علمائے حق کے پردہ فرمانے کے بعد ان کی آل اولاد اور گدی نشین خود اسی پرانی روش و ڈگر پر چل نکلی ۔جہالت کے زمانوں سے رائج ’’ظاہر کے تصور‘‘ نے انہی اولیائے کرام اور علمائے حق کی قبروں کو منبع و مرجع خلائق کے علاوہ دستگیری تسلیم کرتے ہوئے، اسلام کی بنیادی تعلیمات سے روگردانی کرنا شروع کر دی، تا ہم اس مرتبہ اس قبر پرستی میں خود ساختہ اسلامی رنگ شامل کر دیا گیا، جس سے نبی آخرالزماں حضرت محمد ﷺ نے خبردار کیا تھا! ’’خبردار تم سے پہلے لوگ اپنے انبیاء اور نیک لوگوں میں سے جب کوئی فوت ہوجاتا تو انکی قبروں پرمسجد بنا لیتے تھے! خبردار تم قبروں کو مساجد مت بنانا بیشک میں تمہیں اس سے روک رہا ہوں، یہ لوگ اللہ کے ہاں بدترین مخلوق (فعل) ہیں‘‘۔ ہم نے یکسر اس حکم کو فراموش کردیا بلکہ کلی طورپر اس کے مخالف عمل کیا۔ اس وقت ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں کم وبیش ۱۵۰ سے زیادہ مشہورومعروف مزارات ہیں، جن میں سے بہت سارے تو بڑے بڑے شہروں میں ہیں اور لاکھوں کروڑوں کی آمدن کا ذریعہ ہیں۔ پاکستان، برصغیر کے مسلمانوں کیلئے ایک تجربہ گاہ تھی جس کے متعلق قائداعظم ؒ نے فرمایا تھا ،’’ہم نے پاکستان کا مطالبہ زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کیلئے نہیں کیا تھا بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں ہم اسلام کے اصولوں کو آزماسکیں‘‘۔ لیکن صد افسوس !! نہ ہی ہم نے نبی آخرالزماں حضرت محمد ﷺکے حکم کو، حکم سمجھا اور نہ ہی بانی اسلامی ریاست کے فرمان کو کوئی اہمیت دی، اور اس تجربہ گاہ میں نئی نئی بدعات کو فروغ دیا ،یہی نہیں ان اولیاء اللہ کے مکان مدفن کو انکی تعلیمات کے برعکس شرک کے آستانے بنا دیا جہاں پر سب جائز ہے ا ور اسکی سرپرستی حکومت کررہی ہے، جس کو ماہانہ لاکھوں کروڑوں روپے آمدن ہوتی ہے اور جس کیلئے ایک باقائدہ ’’محکمہ اوقاف‘ ‘ ہے جس کے تمام ملازمین کی تنخواہیں اور حکومت کا بجٹ نکلتا ہے،اور مزارات ٹھیکے پر دیئے جاتے ہیں (اور اس حاصل شدہ پیسے سے مزارات کی کوئی خدمت کسی صورت نہیں کی جاتی) یہی نہیں بہت سارے گدی نشینوں اور مجاوروں کی عیاشیوں کاسامان بھی یہیں سے نکلتاہے، کہاوت ہے’’زندہ لاکھ کا اور مرا سوا لاکھ کا‘‘یعنی یہ بزرگان دین اپنی زندگی میں تو لاکھوں کا کام کرگئے ساتھ ساتھ آنے والوں کیلئے بھی کھا نے پینے کا انتظام کر گئے جن میں موجودہ پاکستانی بابے، بنگالی بابا ،قادری بابا اور نجانے کون کون ان آستانوں پر قبضے کئے بیٹھے ہیں ،اور ان اولیائے کرام کے نام پر ،ان کے مدفن کو مرجع خلائق اور نہ جانے کیا کیا ثابت کر کے عوام کو گمراہ کرنے کے علاوہ لوٹ مارکا بازار گرم کئے ہوئے ہیں۔ حیرت اس امر پر ہوتی ہے کہ ان مزارات پر بیٹھنے والے دعوے سب کچھ جاننے کے کرتے ہیں لیکن یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ کب او رکہاں کوئی آفت آنے والی ہے،کہاں کوئی بم دھماکہ ہونے والا ہے،کتنا جانی نقصان ہو گا کہ ایسی ’’کارآمد‘‘ اطلاع پر حکومت یا عوام الناس اپنے بچاؤ کی ہی کوئی تدبیر کر لیں،مگر نہیں کہ ان کے لئے ’’غیب‘‘ کی اطلاع دینا ممکن ہی نہیں کہ غیب کا علم صرف اور صرف اللہ رب العزت کے پاس ہے۔مزارات کی اس فیکٹری کے حوالے سے لاہور کے ایک معروف آستانے سے متعلق میرے ذاتی علم میں ہے کہ سڑکوں کی توسیع کے دوران یہ مزار بھی گرایا گیا،جسد خاکی کی منتقلی کے دوران وہاں بابا صاحب کی صرف ھڈیاں ہی تھی لیکن انکے مزار کے احاطے سے ایک اور بابا کی میت صحیح حالت میں تھی لیکن اس سے بدبو آرہی تھی ایک اور عورت کی میت بھی تھی جو بالکل صحیح حالت میں تھی لگتا تھا ابھی دفن کی گئی ہو،اسی طرح کے کئی واقعات میرے قارئین جانتے ہو نگے ایسا نہیں کہ میں مزارات یا بابوں کی قدر نہیں کرتا،میرا مسلک صرف اور صرف سیدھا سادھا اسلام ہے،لیکن کہنے کا مقصد فقط اتنا ہے کی جو طریقہ کار ہمارے ہاں فروغ پا گیا ہے وہ درست نہیں اور دل سے معذرت خواہ ہوں ، کیونکہ ان میں سے بیشمار اللہ کے بندوں کی وجہ سے برصغیر ہند میں اسلام کی شمع روشن ہوئی لیکن سارے نہیں، کچھ زیادہ پاکھنڈی بابوں نے اللہ کے ولیوں کو بدنام کیااور انکے مزارات کو آمدن،عیاشی اور پتہ نہیں کس کس چیز کا اڈا بنایا اورمنافی اسلام فعل سرانجام دیتے،کماتے اور عیاشیاں کرتے ہیں ،بہت سے غرباء اور مساکین کے کھانے کا بندوبست بھی ہوجاتا ہے لنگر کی شکل میں جوامراء اور صاحب حیثیت لوگ نذرانوں اور منتو ں کی شکل میں مزارات پر چڑھاتے ہیں علاوہ نقدی ،چادروں اور چڑھاووں کے۔سعودیہ میں آج سے تقریباَ ۷۰ سال( ۱۹۳۵ء )پہلے تک مزارات تھے لیکن موجودہ حکومت نے سب زمین کے ساتھ کردیئے سوائے نبی آخرالزماں حضرت محمد ﷺ جس پربھی بڑی مشکل سے صرف سلام ہی پیش کرنے دیتے ہیں۔ ترکی، قسطنطنیہ میں حضر ت ایوب انصاریؓ اوردمشق میں حضرت بلالؓ کے مدفن ہیں لیکن کوئی ڈھول ڈھمکہ نہ دھمال نہ چڑھاوے نہ لنگر نہ نذرانے لوگ آتے ہیں فاتحہ کہتے ہیں اور بس۔ پتہ نہیں پاکستانی مسلمان کس غلط فہمی میں مبتلا ہیں،اتنی خرافات شروع ہوگئی ہیں کہ خدا کی پناہ ،عورتیں ننگے سر تھرکتے بدن بچے اور جوان سب امڈے پڑے آتے ہیں ایک ہجوم الامان وہاں پھر سر پھرے دھماکے نہ کریں تو اور کیا کریں جن کا کوئی مذہب نہیں بس افراتفری اور انارکی پھیلاناہے،اگر انکا کوئی مذہب ہوتا تو کیا یہ مساجد میں بم بلاسٹ کرتے ،اور تو اور مسجد نبویﷺ میں بم دھماکہ کرتے؟ قرآن انکے متعلق واضح الفاظ میں کہتا ہے ’’ اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ کرو تو جواب دیتے ہیں کہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں ، خبردار! یقیناَ یہی لوگ فساد کرنے والے ہیں ‘‘ (سورۃالبقرۃ)۔



مسجد لرز گئی دھماکوں کے زور سے
جنت کی آرزو نے کئی گھر جلا دیئے


لہذا یہ جو کوئی بھی ہوں انکا قلع قمع ہونا چاہئے اور بلا تفریق ہونا چاہئے انکے سہولت کاروں کا بھی ،ایک مقطع جوآجکل میڈیا پر بہت وائیرل ہے جس کی تائید سہون دربار کے دھماکے میں ملوث افراد کی خبروں نے کردی ہے ،اور آئی جی سندھ کا بیان بھی یہی کہتا ہے۔



لگا کر گھات سرحد پر میاں بیکار بیٹھے ہیں
بڑے ہی ضبط کے ماہر ،بڑے فنکار بیٹھے ہیں


یہ دہشت گرد یونہی روز پھٹ جاتے نہیں آکر
اسمبلی اور وزارت میں سہولت کار بیٹھے ہیں