1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. زاہد اکرام/
  4. صوبہ بچاؤ!!

صوبہ بچاؤ!!

بلوچستان کا مستقبل

زاہداکرام

مجھے یاد پڑتا ہے سکول میں جب ہمیں معاشرتی علوم پڑھائی جاتی تھی تو معدنیات اور بے شمار قیمتی کانوں کامطالعہ ہوتا تھا، جن بلوچستان سب سے زیادہ صوبہ بلوچستان میں پائی جانے والی کانیں، قدرتی وسائل و ذخائر جو بلوچستان میںہیں، بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے، جس کے ایک طرف ایران اور دوسری طرف افغانستان کی سرحدیں لگتی ہیں، اس کا ساحل۱۲۰۰ کلومیٹر لمبا ہے، یہیں گوادر جیسی قدرتی بندرگاہ بھی موجود ہے جسے عمان سے صدرایوب کے زمانے میں واپس خریدا گیا تھا، ۱۹۵۲ء میں اس صوبے میں سوئی گیس دریافت ہوئی، جس نے اس کی اہمیت میں اضافہ کردیا، لیکن امن و امان کے لئے یہ صوبہ ہمیشہ ایک درد سر رہا ہے۔ بلوچ قوم پرستوں اور علیحدگی پسندوں کی مسلح کارروائیاں اور وسط ایشیا سے گرم پانیوں تک رسائی کے لئے عالمی طاقتوں کی رسہ کشی کی وجہ سے یہ صوبہ ایک اہم بین الاقوامی حیثیت بھی رکھتا ہے۔ نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ یا اصل میں تیل اور فوجی اڈوں کے حصول کی اس جنگ میں اس صوبے کی اہمیت دو چند ہوگئی ہے۔ اس صوبے کا قیام ۱۹۷۰ء کوون یونٹ کے خاتمے کے بعد وجود میں آیا تھا، اسی سال عام انتخابات ہوئے تو اس میں پہلی بار ایک الگ صوبہ کی حیثیت حاصل ہوگئی اس وقت تک عوامی نیشنل پارٹی فاتح تھی آج کی تاریخ میں گورنر بلوچستان پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی سے ہیں اور نواب ثنااللہ خان زہری سابقہ وزیر اعلی ہوگئے ہیں، مسلم لیگ’ن‘ کی طرف سے جان محمد جمالی اور صالح بھوتانی امیدوار تھے، لیکن تازہ خبروں کے مطابق مسلم لیگ ’ق‘ کے میر عبدالقدوس بزنجو نئے وزیراعلی ہیں، عوامی نیشنل پارٹی اپوزیشن کا موقف تھا کہ وفاقی حکومت جس نے کرپشن کے تمام ریکارڈتوڑدیئے اور ان کے قائدین کے خلاف شازشیں کررہے ہیں، جس وجہ سے وزیراعلی کو مستعفی ہونا پڑا، اسی طرح کے تجربات ۱۹۷۰ء سے کئے جارہے ہیں جب نیشنل پارٹی اور جمعیت علماء اسلام نے مینڈیٹ لیا اور قوم پرست سیاستدان سردار عطااللہ مینگل وزیراعلی بنے جو صرف ۹ ماہ تک چل سکے، پھر ان کی ہی سربراہی میں مخلوط حکومت ۲ مئی ۱۹۷۲ء سے ۱۳ فروری ۱۹۷۳ء تک قائم رہی، ستر کی دھائی میں شروع ہونے والی مزاحمت جسے افغان حکومت نے تقویت دی، کی سب سے بڑی وجہ نیشنل عوامی پارٹی کی حکومت کو گرانا تھی، ۷۷ء کی حکومت بھی زیادہ عرصہ نہ ٹک پائی، ۸۸ء کے عام انتخابات میں میر ظفراللہ جمالی اور نواب اکبر بگٹی بھی کامیاب ہوئے، اس وقت ڈاکٹر اللہ نظر بلوچ اور براہمداغ بگٹی سمیت عسکریت پسند بھی موجود ہیں جب تک قوم پرستی اور حکومتی ناانصافیوں کا بھوت بلوچوں کے سروں سے نہیں اترے گا وہاں پرسازشیں ہوتی رہیں گی، مغلوں کا قول تھا ’’بلوچوں کو دوستی کرکے ہرایا جاسکتا ہے دشمنی یا لڑکر نہیں‘‘، جس کا دوسراحل تعلیمہے، جس پر ۷۰ سال گذرنے کے بعد بھی توجہ نہ دی گئی، ساتھ ساتھ صوبے میں وسیع پیمانے پر تعمیرو ترقی کے کام کئے جائیں بلوچوں کو صوبے کی ترقی میں شامل کیا جائے، وڈیروں اور نوابوں کی شمولیت بہت ضروری ہے، تاکہ وہ اپنے اپنے قبیلے کے لوگوں کو پاکستان سے حب الوطنی کا درس دیں اور پاکستان کی ترقی میں شامل کریں، ورنہ تو اکھڑبلوچ اپنی خودسری میں مگن رہیں گے مجھے یاد پڑتا ہے جب ۹۰/۹۱ میں واپڈا کے ایک AM/FM پراجیکٹ کے سلسلے میں بلوچستان کا ڈیٹا اکٹھاکرتے تھے تو پہلی دفعہ ٹرانسفارمر کی لو کیشن کچھ اور ہوتی تھی دوسری دفعہ کچھ اور، مٹی کے کچے بغیر دروازں کے گھروں میں جہازی سائز کے ائرکنڈیشن بغیر بل کے لگاتارچلتے تھے اور نواب اکبر بگٹی کے قبیلے کے لوگ جب دل کیا گیس پائپ لائن اڑانے میں دیر نہیں کرتے تھے، ابھی بھی بھتہ خوری، بم دھماکے اور اغواء کے واقعات عوام کی یادداشت میں ہونگے۔

حالیہ استعفی بلوچستان میں مسلم لیگ ن کی برتری کو چیلنج ہے اورجس تواتر سے نوازشریف سقوط ڈھاکہ اور حالیہ بیان کہ’’محب وطن شیخ مجیب الرحمان کو باغی بنا دیا، اتنے زخم نہ دو کہ جذبات پر قابو نہ پرکھ سکوں‘‘، وغیرہ، کلبھوشن یادیو کے ساتھ نرمی اس بات کی طرف کئی اشارے دے رہی ہے کہ ضرور کچھ ہونے جا رہا ہے، خدارا دولت سے بھرپوراس صوبے کو بچایا جائے اس میں بھونڈی سیاست سے پرہیز کیا جائے، بلوچستان کے سارے وسائل بلوچ علاقوں میں ہیں ۱۲۰۰ کلومیٹر طویل ساحلی پٹی، جہاں پر اربوں ڈالر کی مچھلی پکڑی جاتی ہے، سونے، چاندی، تانبا اور زنک جیسے قیمتی خزانے انتظار میں ہیں جو بلوچ علاقوں میں ہیں، ۲ کڑور ایکڑ سے زیادہ قابل کاشت زمیں بلوچوں کی ہے، صرف مکران میں ۳۶۰ سے زائد ندیاں بہتی ہیں، سوئی گیس کے ذخائر بلوچستان میں ہیں، گوادر جیسا منصوبہ بھی بلوچستان میں ہے، اس لیے پاکستان کا معاشی مستقبل بلوچستان سے وابستہ ہے، حکومت اگر چاہے تو اس صوبے کو بلوچ قبائل کی مدد سے سونا اگلنے والا صوبہ بنا سکتی ہے۔ سب جانتے ہیں کہ بلوچستان اس وقت داخلی اور خارجی سطح پر آتشیں حالات کے حصار میں ہے، خدانخواستہ ان حالات میں کسی ایسے بحران نے جنم لے لیا تو تخریب کار اور دہشت گرد جو تاک میں ہیں، وہ موقع ہاتھ سے نہ جانے دیں گے، ایسے وقت میں جب بھارت کی پشت پناہی بھی امریکہ کر رہا ہے وہ بھی اسی تاک میں ہے کہ کس طرح اس صوبہ کو پاکستان سے علیحدہ کیا جائے۔