1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. زاہد اکرام/
  4. بھٹو غلط ہاتھوں میں!!

بھٹو غلط ہاتھوں میں!!

(’ذ ‘سے’ ز ‘تک کا سفر)

زاہداکرام

صرف پاکستان نہیں دنیا عالم کے تاریخی اوراق پر ذوالفقار علی بھٹو جیسی شخصیات زندہ رہتی ہیں ،جس نے مسلم ممالک کو اکٹھا کرنے کا جرم کیا جس نے اسلامک بم بنانے کیلئے کام کیا ،جس نے اسلامک کرنسی بنانے کا عندیہ دیا جو اسکی شہادت کے بعد یورپی ممالک کی یورپی یونین اور یورو کرنسی کی شکل میں وجود میں آیا،ایسے لوگ جو تاریخ کے اوراق پر کنندہ ہوجاتے ہیں وہ امر ہوتے ہیں وہ کبھی مرا نہیں کرتے ،وہ ہمیشہ زندہ دلوں میں زندہ رہتے ہیں، یہ بھی افسوس رہے گا کہ بھٹو کے ساتھ اس کے قاتل کا نام بھی زندہ رہ گیااس سے بھی زیادہ افسوس یہ ہے کہ تاریخ کے یہ نادر اوراق غلط ہاتھوں میں چلے گئے ہیں،یہ ذ (ذوالفقار) سے ز (زرداری) تک کا سفر کیونکر ہوا اللہ بہتر جانتا ہے۔

مجھے یاد ہے سن ۷۰ ء میں ہم کچھ عرصہ پتوکی میں ریلوے اسٹیشن کے قریب ایک علاقعہ میں تھے جہاں ہمارے گھر کے سامنے ایک بڑا سا چوک ہوتا تھا بہت کھلا کشادہ جہاں ذوالفقار علی بھٹو نے تقریر کی تھی ،وہی ملایشیا رنگ کا سوٹ بازووں کے بٹن کھلے ،ان کی تقریر تو یاد نہیں لیکن ان کا جذبہ اور قوم کیلئے درد اب تک ذہن میں محفوظ ہے ،لیکن ہم نے کھو دیا بھٹو، محاورہ ہے’’جے پتر ایں توں سائیں دا وسا ء نا کھائیں آرایئں دا‘‘ (معذرت کے ساتھ ) سیانے جو بھی کہتے ہیں سچ ہی کہتے ہیں ،کاش اگر بھٹو چاپلوسی پسند نہ ہوتا تو شاید اسکو ایک چاپلوس آرایئں سے ذلیل نہ ہونا پڑتا اور پھانسی کے پھندے تک نہ پہنچتا لیکن تقدیر کے لکھے کو کون ٹال سکتا ہے،بس افسوس ہی رہ جاتا ہے کی کاش اگر بھٹو صاحب آنکھیں کھول کر اس چاپلوس کی حرکات کا جائزہ لے لیتے تو یہ نوبت نہ آتی،اور شاید پاکستان آج یہ والا پاکستان نہ ہوتا ،کہ ایک ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود آج بیرونی قرضوں میں ڈوبا ہوا ہے،آج اس پر ایک آرایئں اور بھٹو کی باقیات راج نہ کر رہی ہوتیں اور ملک تنزلی کے جس سفر پر گامزن ہے نہ ہوتا، بھٹو کا یہ بھی احسان ہے پاکستان پر کہ اس نے جانے انجانے میں بنگلہ دیش بنا دیا ورنہ میر جعفروں کی سر زمین جس کے باسی کسی طور پاکستان کے خیرخواہ نہ ہیں ، سعودیہ آنے سے پہلے میں بھی یہی سمجھتا تھا کی بھٹوکی وجہ سے یہ سب ہوا اس نے ٹھیک نہیں کیا لیکن میں غلط تھا یہ لوگ نہ صرف ہم پر بوجھ بنے رہتے بلکہ افغانیوں سے بھی زیادہ ہمارا برا حال کرتے ،اللہ جو کرتا ہے بھلے کیلئے کرتا ہے،ویسے چوہدری رحمت الہی کا خواب یہی تھا کی برصغیر ہند میں ۳ مسلم ریاستیں بنیں ،جس کا ذکر میں اپنے کالم ’’خواب میرے نئے پاکستان کا‘‘ میں کرچکا ہوں جس میں بنگال آسام کو وہ بانگستان بنانا چاہتے تھے جو بنگلہ دیش بن گیا۔

خدا نے بھٹو کو ہی یہ شرف بخشا کہ انہوں نے پاکستان کو ۱۹۷۳ ء کو آیئن پاکستان دیا ورنہ ۱۹۴۷ ء سے۱۹۷۳ ء ۲۶ سال تک یہ ملک بغیر کسی آیئن کے برطانوی آیئن پر چلتا رہا ، جس کا خمیازہ اس ملک کا ہجوم (عوام) آج تک بھگت رہا ہے، یہ بھٹو کو ہی اعزاز جاتا ہے کہ مرزایؤں کو کافر قرار دیا ، یہ فہم و فراست بھٹو کے ہی حصہ میں آئی کہ انہوں نے ۹۰ ہزار پاکستانی فوجیوں کو بھارتی قید سے رہائی دلوائی بلکہ وہ علاقے بھی بھارت کو چھوڑنے پر مجبور کیا کہ جو ۱۹۷۱ء کی جنگ کے دوران ہم سے چھن گئے تھے ۔ یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ وہ اس ملک کی پہلی سیاسی شخصیت ہیں جنہوں نے نہ صرف غریبوں کیلئے آواز اٹھائی بلکہ کئی عملی اقدام بھی کئے ،انہوں نے انڈسٹریز اور سکولوں کو نیشنلائیز کیا جو اگر جاری رہتا تو آج تعلیم کا جو معیار ہے وہ نہ ہوتا آج جو سرمایادارانہ راج ہے وہ نہ ہوتا ،آج جو غریب غربت کی پستی میں جا گرا ہے اور سرمایا دار افق کی بلندیوں پر نظر آرہا ہے نہ ہوتا ،ہم بھی چایئنہ کی طرح اقوام عالم میں دھمک رہے ہوتے،لیکن افسوس آج بھٹو تو نہیں ہیں پرانکی باقیات ’ذ ‘سے’ ز ‘تک سفر کرتے کرتے غلط ہاتھوں میں ضرور ہے،جو میرے قارعین نے پچھلے ۵ سالہ دور حکومت میں او رحالیہ دور حکومت میں دیکھ اور بھگت لیا ہے ،جس کو دہرانے کی ضرورت نہیں ، لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا ہم پھر تیار ہوجائیں وہی سب بھگتنے کو جو پچھلے ایک ’کھپے ‘نے سب کو ’کھپا ‘دیا،کیونکہ جب ڈیل ہوتی تو اسی طرح ہوتا ہے سیاسی اشرافیہ تو فائدہ اٹھا لیتے ہیں ،لیکں عوام پس جاتی ہے’اگر خدانخواستہ اس’ پانامہ ڈیل ‘کے حاصل میں زرداری صاحب کا پلان کامیاب ہوجاتا ہے اور وہ پھر سے حکومت بنانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں جیسا وہ کہتے ہیں اگلا وزیراعظم انکا ہوگا تو ذرا سوچیں کہ کیا پاکستان اپنے پاؤں پر کھڑا رہ پائے گا؟