1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. زاہد اکرام/
  4. گدیاں (پاکستان کی سیاست میں گدیاں )

گدیاں (پاکستان کی سیاست میں گدیاں )


گدیاں (پاکستان کی سیاست میں گدیاں )


پھر الیکشن ہونے کو ہے ،الیکشن الیکشن کھیلا جائے گا ، پاکستانی ہجوم (ہجوم کا لفظ میں اس وقت تک استعمال کرتا رہوں گا جب تک ہجوم قوم نہیں بنتا) کی محنت کا پیسہ اجاڑا جائے گا، سیاسی پنڈت تو کہتے ہیں کہ ۲۰۱۷ الیکشن کا سال ہے ،لیکن جمہوریت کے مطابق ۲۰۱۸ ہی ہے ،خیر جب بھی ہو پارٹیوں کو تیار رہنا چاہیے اور قبل از وقت سیاسی گٹھ جوڑ کر لینا چاہے ،خاص کر نئی ابھرتی ہوئی جماعت پی ٹی آئی کو تو بہت ضرورت ہے ،کیونکہ اس نے نیا پاکستان بنانا ہے ،جس کی مثال نیا پنجاب ،نیا پختونخواہ اور نئے سندھ کی شکل میں سامنے آرہی ہے ،نیا بلوچستان ابھی باقی ہے، اوہ! یاد آیا ابھی تو فاٹا کا بھی فیصلہ ہونا باقی ہے جو پچھلے ۷۰ سال سے اس انتظار میں ہے پاکستان کے کس صوبے کا حصہ بنے ، ابھی تو صوبائی عصبیت کی جنگ روکنا بھی باقی ہے ،گلگت بلتستان کو بھی نیا صوبہ بنانے کی نوید ہے۔


خیر غور کریں تو پاکستان میں وڈیرہ شا ہی ، برادری ازم ، لسانیت ،موروثی سیاست کے ساتھ ساتھ گدی نشینوں کی سیاست ایک حقیقت ہے،بزرگ اور جہاں دیدہ افراد پیروں اور گدی نشینوں کے اثر کو سیاسی پس منظر سے الگ نہیں کرتے أن کے نزدیک یہ عنصر برا ہ راست یا درپردہ انتخابی سیاست میں حصہ لے کر کسی نہ کسی پارٹی کی حمایت کرکے فیصلہ کن کردار ادا کر سکتے ہیں ،ان میں ہالہ کے مخدوم خاندان کی ’’سروری گدی،PPP ‘‘ ،( ۹۰۰۰۰۰، نو لکھی گدی) ،پیر پگارا کی ’’حر‘‘ جماعت MLNF ‘‘ اور شاہ محمود قریشی صاحب کی ’’غوثیہ گدی PTI‘‘ ،کے پیروکاروں کی خیرپورمیں ’’پیرآف رانی پور PPP ‘‘، اور گھوٹکی کی ’’بھرچندی شریف ؟؟؟ سابقہ PPP ‘‘ ،پیر آف دادو شریف ،پیر مظہر الحق صاحب کا جھکاؤ بھی PPP کی طرف ہے ، ’’حضرت پیر شاہ جیوانہ ‘‘(جھنگ) کے گدی نشین فیصل صالح حیات بھی کچھ عرصہ ڈانواڈول رہنے کے بعد دوبارہ PPP کی طرف چلے گئے ہیں۔’’موسی پاک PPP ‘‘کے گدی نشین یوسف رضا گیلانی کا خاندان بھی مریدین اور پیروکاروں کا وسیع حلقہ رکھتا ہے۔ گدی تونسہ شریف سجادہ نشین شیرازمحمود، گیلانی حجرہ شاہ مقیم اوکاڑہ ، بابا فرید شکر گنج کے چشتی پاکپتن سے بھی سیاست میں نمایاں ہیں، اس کے علاوہ مخلوط ووٹرز بھی ہیں جو روحانی کام چھوڑ کر سیاست میں آگئے ہیں ، جیسے پیر گولڑہ شریف (راولپنڈی)،پیر مانکی شریف (ہزارہ)،اوچ شریف اور کوٹ مٹھن کے پیر (جنوبی پنجاب) ،پیر ماکھد شریف (اٹک) ، سیال شریف (سرگودھا ) ،سلطان باہو(جھنگ) اس کے علاوہ اور بہت ہیں جو پیر ہیں اور ان کا اثر بھی بہت ہے ووٹ اور ووٹرز پر ۔


ایک زمانہ تھا جب پیر صاحب پگاڑا کا طوطی بولتا تھا جو اب بھی بولتا ہے ان کے’ ’حر‘ ‘ اب بھی سندھ کی تاریخ بدلنے کی سکت رکھتے ہیں، لیکن اب تھوڑا فرق آگیا ہے، ایک تو پگاڑا صاحب (سید مردان شاہ ۲ ) اس دنیا میں نہیں رہے جو سیاست میں ایک مقام رکھتے تھے، دوسرے ان کی وابستگی کسی خاص جماعت سے نہی جو سیاست پر اثر انداز ہوتی ہے،نوید ہے کہ انکی مسلم لیگ فنکشنل پرویز مشرف کی مسلم لیگ آل کے ساتھ مل کر کچھ گل کھلائے گی یا غل مچائے گی اور یہ بھی نوید سننے میں آرہی ہے کہ لاہور میں ۲۳ پارٹیوں کا ایک گریٹ الأئینس بننے جا رہا ہے ، جس کی لگام جناب عزت مآب سنبھالیں گے اور اپنی آل پاکستان مسلم لیگ میں ضم فرمایئں گے ، شاہ محمود قریشی کی غوثیہ جماعت کے پیروکاروں کی بڑی تعداد بالائی اور زیریں سندھ میں رہتی ہے ،اس جماعت نے پہلی مرتبہ سندھ میں ’خلیفاؤں‘ کو منظم کیا ہے ،اللہ کرئے یہ جماعت اور منظم ہو اور دوسری گدیوں کو ساتھ ملانے میں کامیاب ہو جائے، اکثر اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ پیر کی طاقت اور اثرورسوخ ان کے اپنے حلقے سے باہر بھی نظر آتا ہے،تحریک انصاف کا بیشتر ووٹ بینک یا تو پنجاب میں ہے یا پھر پختونخواہ میں جہاں اسکی حکومت ہے ،اسکے ووٹ بینک پر ابھی سندھ اور بلوچستان کی چھاپ نہیں ،لیکن پنجابی اور پختون رنگ غالب ہے ، اس کو چاہیے کی شاہ محموقریشی صاحب کو متحرک کرے تاکہ سندھ سے ووٹ نکالا جائے اور پنجاب میں چوہدری سرور اور دوسرے سرکردہ لیڈران کوبرادری کارڈ کھیلنے کا ٹاسک دیا جانا چاہیے۔ پیروں اور سجادہ نشینوں کی گدیوں کے علاوہ دوسری گدیاں بھی سیاست پر اثر انداز ہوتی ہیں جیسے وڈیرہ شاہی (زمینداروں اور سرمایا دار) ،برادی ازم پر مبنی گدیاں، لسانیت پر مبنی گدیاں، اس کے علاوہ سیاست میں سیاسی گدیاں بھی ہیں،جیسے پنجاب کی نمایاں سیاسی گدیاں جن میں مسلم لیگ (ن) کی شریف گدیاں جس پر مریم شریف اور حمزہ شریف ہیں جو تخت لاہور کے گدی نشین ہیں، ممکن ہے ان کا ووٹ بینک عدالت میں زیر بحث کیسوں کے باعث کم ہو اس لئے تو پی پی پی کے گدی نشینوں ،بلاول ،زرداری اور ہمنواوں نے پنجاب میں زور لگانا شروع کردیا ہے، تحریک انصاف والوں کو بھی ووٹ بینک بڑھانے کے لئے بھرپور زور لگا دینا چاہیے،اور پنجاب میں واقع سب گدیوں کو ساتھ ملا لینا چاہیے حس میں کئی زمینداروں اور برادری والوں کی گدیاں بھی ہیں لیکن ٹھونک بجا کر ،یہ نہیں کہ سب کیلئے دروازے کھول دیں،کیونکہ سیاست میں ذاتی مفاد کو بہت اہمیت ہے،لوگ ذاتی مفاد کی خاطرترجیحات وغیرہ بدلتے رہتے ہیں اس لیے احتیاط ضروری ہے۔


آپس کی بات ہے، یہ الیکشن وغیرہ نہیں ہونے چاہیے ،پارلیمنٹ کو بھی ایک ادارہ بنا دینا چاہیے جس کے افراد ،’ ’سی ایس ایس‘ ‘ یا کوئی اور امتحان لیکن امتحان دے کر آیءں اور حکومت چلایں، نہ الیکشن کا جھنجٹ ، نہ ۶۲/۶۳ کا رولا اور نہ ہی بی اے کی ڈگری کا لپھڑا اور نہ عوام کے وقت اور پیسے کا ضیاع، ویسے یہ ہجوم تو ویلا ہی ہوتا ہے ہر وقت ،ہر جگہ ، ویسے ہمارے ملک میں بیوروکریٹس ہی حکومت کر رہے ہیں یا پھر فوج، اس ملک کو بنے ۷۰برس میں سے تقریباَ ۳۳/۳۴ برس تو فوج نے ہی حکومت کی ہے،باقی افراتفری والی نام نہاد جمہوریت نے،رہی سہی کسر گدیوں نے پوری کردینی ہے!!ویسے یہ سارا سیاپا ہی گدی کا ہے !!!!


’’پیر کا نہ میر کا ووٹ ہو ضمیر کا‘‘