1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. زاہد اکرام/
  4. غلامی سے نجات تک

غلامی سے نجات تک

جب مسلمانوں کا ’’ہجوم‘‘ برصغیرسے اس خطہ کی طرف جو اب پاکستان کہلاتا ہے، ۱۴ اگست ۱۹۴۷ کو بے شمار قربانیاں دیتے ہوئے اکٹھا ہوا تھا، ان دوستوں سے معذرت کے ساتھ جن کا اعتراض ہے کہ میں مسلمانوں کو ہجوم کیوں کہتا ہوں تو عرض ہے کہ برصغیرہند میں نام نہاد مسلمان سات سو سال سے حکمران تھے انہوں نے اسلام کا دامن کبھی تھاما ہی نہیں، کبھی دین الہی کبھی دین اکبری وہ تو بس حکومت کرنا چاہتے تھے اور کبھی بھی مسلمان قوم نہ بن سکے حالانکہ ان کے سامنے عمر فاروقؓ کا حکومتی ماڈل تھا ( اس بحث کو پھر کبھی مکمل کروں گا) لہذا اسی چکر میں انگریز قابض ہوگئے تو برصغیر کی محکوم قوم نے انگریز سے چھٹکارا پانے کے لیے جدوجہد شروع کی اورکچھ مجاہدین اسلام نے دو قومی نظریہ دے کر یہ خطہ ارض ’’پاکستان‘‘ مسلمانوں کیلئے حاصل کیا جس کی بنیاد اسلام پر تھی۔ یہ ہجوم ابھی تک انگریزوں کی غلامی سے پوری طرح آزاد نہیں ہوا تھاکہ یہاں پر مقیم ملک، وڈیروں، زمینداروں، جاگیرداروں، نوابوں اور گدی نشینوں کے مزید چنگل میں پھنس گیا جن کے اپنے قواعد وضوابط تھے یہاں پہلے سے آباد لوگوں کا انحصار انہی وڈیروں، زمینداروں، جاگیرداروں، نوابوں اور گدی نشینوں پر تھا، ہجرت کر کے آنے والے بھی کچھ عرصہ بعد (تقریباً 20 برس بعدجتنا عرصہ ایک قوم بننے میں لگتا ہے) انہی کے رنگ میں ڈھل کر،ان جیسے ہی بے حس اور خود غرض ہو گئے کہ نیکی و بدی کا فرق مٹ گیا، رشوت کو ہدیہ کا نام دے دیا گیا، ملاوٹ ہیراپھیری کلچر کا حصہ ٹہری ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی دوڑ،کار، کوٹھی، بینک بیلینس، سٹیٹس سمبل بنتے گئے، شرم و حیاو عزت و احترام زینت طاق ہوئے اور برائی عام ہو گئی، راکھے لٹیرے بن گئے۔ عرض کرتا چلوں یہ راکھوں کی وہی نسل ہے جن کی تاریخ پیدائش 1950 یعنی آزادی کے تقریباً ۱۰ برس بعدکی ہے، اورتقریباً 22 کروڑ عوام پر کسی نہ کسی طور حکمران بنے بیٹھے ہیں، گنے چنے لوگ ہیں تجزیہ قارئین خود کر لیں (بہر حال اس پر مزید تفصیل سے کسی اور نشست میں لکھوں گا) میں نے اپنے پچھلے کالم ’ نسلوں کے غلام ‘ میں لکھا تھا کہ ’’دنیا کی تقریباَ ہر قوم چند مخصوص مراحل سے گذرتی ہے پہلے غلامی سے مذہبی عقائد تک، مذہبی عقائد سے عزم اور حوصلے تک اور پھر عزم و حوصلے کے سہارے آزادی حاصل کرنے تک۔ آزادی سے خوشحالی اور پھر خوشحالی سے خود غرضی تک اور خود غرضی لا تعلقی کا سبب بنتی ہے جس سے قوم بے حس ہو جاتی ہے بے حسی انحصار لاتی ہے اور انحصار غلامی تک پہنچا دیتا ہے۔ درحقیقت یہی برصغیر کے مسلمانوں کی ساتھ ہوا، مسلمانوں کا یہ ہجوم جو ہندوؤں اور انگریزوں کی غلامی سے آزادی کیلئے نکلا تھا بڑی غلامی میں پھنس گیا جنکاانحصار اب وڈیروں، جاگیرداروں، زمینداروں اور گدی نشینوں پر ہے اور ۷۰ سال ہو گئے ہیں اس ہجوم کو یہ سمجھ نہیں آرہا اور نہ ہی کوئی سمجھانے والا ہے کہ اس بھنور سے کیسے نکلا جائے. جب تک ان کا انحصا ر ان وڈیروں، جاگیرداروں، ملکوں ، ٹمنوں، ٹوانوں سے نہیں اٹھے اور خود پر نہیں ہوگا یہ خوشحال نہیں ہونگے ان میں اپنے مذہب سے رجوع کرنے کا حوصلہ پیدا نہیں ہوگا، جب تک مذہبی عقائد پر عمل نہیں ہوگا آزادی (نسلوں سے) کا سوچنا بھی جرم ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھاکہ ریاست بنانے والا ہجوم اورجس نعرہ پر ریاست بنائی گئی تھی، اس طرف رجوع کیا جاتا، اس بلند مقصد،آفاقی پیغام پر انحصار کیا جاتا،اس قانون کو لاگو کیا جاتا مگر افسوس ہم نے قائد کے فرمودات کو اور اسلام کو پس پشت ڈال دیا۔

بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو تاریخ کے دھارے کو بخوبی بدل سکتے ہیں ،اس سے بھی کم لوگ وہ ہوتے ہیں جو دنیا کے نقشے کو بدل سکیں اور شاید ہی کوئی مائی کا لال ایسا ہو جسے قومی ریاست بنانے کا اعزاز ملا ہو، محمد علی جناح دنیا کی وہ ہستی ہیں جس نے یہ تینوں کام بیک وقت کر دکھائے اور برصغیر کے مسلمانوں کو ایک علیحدہ ریاست بنا کر دی اور ساتھ ہی اسکے دستور اور خدوخال کی بھی وضاحت فرمادی۔ پاکستان کی پہلی سالگرہ کے موقع پر فرمایا،’ ’ قدرت نے آپ کو ہر نعمت سے نوازاہے آپ کے پاس لامحدود وسائل موجود ہیں ،آپکی ریاست کی بنیادیں مضبوطی سے رکھدی گئی ہیں،اب یہ آپ کا کام ہے کہ نہ صرف اسکی تعمیرکریں بلکہ جلد ازجلد اور عمدہ سے عمدہ تعمیر کریں، سو آگے بڑھیئے اور بڑھتے ہی جایئے، مجھے یقین ہے جیسے جیسے ہم آگے بڑھتے جائیں گے ہم میں زیادہ سے زیادہ اتحاد پیدا ہوتا جائے گا،’ ’ہم نے پاکستان کا مطالبہ زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا تھا بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں ہم اسلا م کے اصولوں کو آزما سکیں‘‘۔’ ’ مسلمانو ہمارا پروگرام قرآن میں موجود ہے ، ہم مسلمانوں کو لازم ہے کہ قرآن کو غور سے پڑھیں قرآنی پیغام کے ہوتے ہوئے مسلم لیگ ( مسلم لیگ ن نہیں ) مسلمانوں کے سامنے کوئی دوسرا پروگرام پیش نہیں کرسکتی ‘‘۔’ ’مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان کا طرز حکومت کیا ہوگا ؟ پاکستان کا طرز حکومت متعین کرنے والا میں کون ہوں؟ یہ کام پاکستان کے رہنے والے مسلمانوں کا ہے اور مسلمانوں کے طرز حکومت کا فیصلہ آج سے1300 سال قبل قرآن کریم نے کردیا تھا‘‘۔’ ’ اگر کوئی چیز اچھی ہے تو یہ عین اسلام ہے‘‘، ہماری نجات اس اسؤہ حسنہ پر چلنے میں ہے جو ہمیں قانون عطا کرنے والے پیغمبر اسلام ﷺ نے ہمارے لئے بنایاہے،’ ’ اسلام اور اسکی بلند نظری نے جمہوریت سکھائی ہے، اسلام نے مساوات سکھائی ہے ہر شخص سے انصاف اور رواداری کا حکم دیا ہے،کسی بھی شخص کے پاس کیا جواز ہے کہ وہ عوام الناس کے لیے انصاف ،رواداری اور دیانتداری کے اعلی معیار پر مبنی جمہوریت ،مساوات اور آزادی سے گبھرائے‘‘۔ یہ وہ چند فرمودات ہیں جو مختلف مواقع پرقائداعظم ؒ نے فرمائے اور اسلام کی طرف رجوع کرنے کو کہا مگر صد افسوس ہم نے نہ تو اسکی قدر کی اور نہ ہی اسلام کی طرف رجوع کیا اور بیشمار ان فروعی مسائل میں الجھ گئے جن کا مسلمانوں سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا . قارئین سے معذرت کے ساتھ میں کوئی فلسفی نہیں اور نہ ہی کوئی مبلغ کہ اسلامی تعلیمات دینا چاہتا ہوں ، میرا نقطہ نظرفقط اتنا ہے کہ پاکستان میں بسنے والے مسلمانوں کا ہجوم یہ سمجھ لے کہ نسلوں کی غلامی سے نجات کا راستہ کہاں اور کونسا ہے۔