1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. زاہد اکرام/
  4. اصلاح

اصلاح

پچھلی تحریر میں ۲۰۱۸ کے انتخابات کیلیے ایک مفروضہ تھا ’کہ شاید پی پی کے پوسٹرز سے فریال تالپور اور آصف علی زرداری کی تصاویر غائب ہوجائیں اور پی پی ان سے آزاد ہو جائے تو بات بن جائے جو کہ ممکن دکھائی نہی دیتا‘ یہاں تک تو بات سچ نکلی کہ یہ دونوں چہرے سکرین سے آوٹ نہیں ہوئے بلکہ زرداری صاحب معہ اپنے سپوت کے اسمبلی میں آنے کی تیاری میں ہیں جس کی قوی امید ہے کیونکہ مسلم لیگ ن نہیں چاہے گی کہ اسکی حریف پی ٹی آئی مد مقابل ہو دونوں پارٹیوں نے گٹھ جوڑ مضبوط کر لیا ہے باری لگانے کا سو اب جو خدا دکھائے سو لاچار دیکھنا۔ چہ جا ئیکہ پی ٹی آئی دوسری یا تیسری بڑی جماعت ہو لیکن شریف صاحب اور زرداری صاحب کائیاں اور مانجھے (منجھے نہی) ہوئے سیاستدان ہیں طرہ یہ کہ زرداری صاحب جوڑ توڑ کے بادشاہ ہیں۔ لہذا ممکن دکھائی نہیں دیتا کہ پی ٹی آئی۲۰۱۸ میں کلین سویپ کر سکے۔ اب تو اگر خان صاحب ایڑھی چوٹی کا زور اور خون پسینہ ایک بھی کر لیں تو پھر بھی دلی دور است۔ اور جس محاذ پر آپ لڑ رہے ہو یعنی پاناماکیس اسکا فیصلہ تو اللہ جانے کیا آتا ہے اگر فیصلہ نواز شریف کے حق میں آگیا تو اس کے عوام کو دو نقصانات ہونگے پہلے نمبر پر تو کھلاڑی جو امید لگائے بیٹھے ہیں ان کا مورال بہت گرجائے گا اور ووٹر خفا ہو سکتے ہیں۔ دوسرا نقصان یہ ہوگا کہ جو باقی پانامی کرپٹ ہیں ان کو کلین چٹ مل جائے گی۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ خان صاحب خیبر پختونخواہ میں پورا زور لگا کر دکھاتے نیا پختونخواہ بنا کر ماڈل پیش کرتے اس سے بھی بہتر جو ابھی بنا دیا ہے اور ساتھ ساتھ ہر محاذ پر لڑتے اس کیلئے ٹیمیں بنا دیتے مثلاً شاہ محمود قریشی اور اسد عمر جیسے پارلیمینٹیرنز کے زیر کمان ایک ٹیم تشکیل دیتے جو اسمبلیوں میں مورچہ لگا لیتے اور قانون سازی کرواتے ادارے مضبوط کرواتے۔ آپ نے وکیلوں کی ٹیم تو بنائی ہوئی ہے اسے کورٹس میں لڑنے دیں، چوہدری سرور صاحب اور انکے ساتھ بہت سے جن کا اثرورسوخ برادریوں میں ہے انکو ووٹر نکالنے میں لگا دیتے چونکہ آپکو تقریروں کا شوق ہے ( یہ لوگ کہتے ہیں) آپ ایک ٹیم لے کر جلسے جلوس نکالتے رہیں اور شوق پورا کرتے رہیں لوگ آپ کے شیدائی ہیں، پی ٹی آئی صرف عمران خان کا نام ہے اس نظریہ کو بھی ختم کرنا ہوگا آپکو پارٹی میں کئی عمران خان پیدا کرنا ہونگے جو بھی کرنا ہوگا ۲۰۱۷ میں ہی کرنا ہوگا، مگر خدارا عوام کو ۲۰۱۸ میں مایوسی سے بچا لیں کیونکہ پاکستان کا ہجوم (قوم اسلیے نہی کیونکہ قوم بننے میں وقت لگتا ہے اور آپ کی کوششیں رنگ ضرور لائیں گی) اب اور ناکامی کا متحمل نہی ہوسکتا اور۔ایک واری فیر زرداری کابھی دوسرے حریف بہت کایئاں ہیں فرض باتیں فرضی ہی ہوتی ہیں ہوتا وہی ہے جو اللہ چاہتا ہو۔

خان صاحب آپ اس کینسر زدہ معاشرے کا علاج اکیلے نہی کرسکتے آپکے دو یا تین کینسر ہسپتال کافی نہی اسکے لیے آپکو ملک کے دوسرے ہاسپٹلز کی مدد بھی درکار ہوگی خدارا اس طرف بھی سوچیں، کئی عمران خان پیدا کرنا ہونگے تاکہ کھلاڑی بھی کہہ سکیں ‘تم کتنے کپتان مارو گے‘ کیونکہ آپکے بیٹے تو بلاول کی طرح پاکستانی سیاست میں آنے کے نہی، اور کھلاڑی اور کھلاڑنیں آپکی ایک جھلک کو بیتاب رہتے ہیں۔ اگر گستاخی معاف ہو تو ایک عرض کروں خان صاحب ملک میں نواز شریف کے علاوہ بھی کینسر زدہ ہستیاں ہیں انکو بھی علاج معالجے کی ضرورت ہے اور وہ ایک نہیں جتنے آپکی مخالفت میں ہیں سب ہی کو ہے سب ہی کینسر کے موزی مرض میں مبتلا ہیں اور یہ کینسر عام کینسر نہی اسکی جڑیں رشوت، کرپشن، اقرباء پروری، جھوٹ وغیرہ وغیرہ سے نکلی ہوئی ہیں۔ اور یہ مرض بھی پرانا ہے۔

خان صاحب ابھی بہت کام ہونا باقی ہے 249 آپکے گرد آپ کے فینز آپ کے چاہنے والوں کا ہجوم زیادہ ہے انکو کم از کم ایک جماعت بنا دیں 249 اپنے کارکنوں اور کھلاڑیوں کی تربیت کریں انہوں نے قوم تشکیل دینی ہے اگر یہی لوگ بے ہنگم ہجوم کی شکل میں رہے تو قوم کی آرزو بے سود۔ آپ کو اپنے مشیروں پر بھی نظر دوڑانا ہوگی ایسے لوگ ہونے چاہیے جو پارٹی کے مخلص تو ہوں اعلی وہ پاکستان کے مخلص ضرور ہوں۔