زاہداکرام
انڈیا میں اس وقت تقریبا ۱۵ فیصد مسلمان آباد ہیں جو پاکستان اور انڈونیشیا کے بعد تیسری بڑی مسلم آبادی ہے، یوپی اور بہار کے مرادآباد، بھواندی، مالیغان اور برہان پور کے شہروں میں ۵۰ فیصد مسلم آباد ہیں اس کے بعد حیدرآباد اور علیگڑھ میں ۴۰ فیصد، بھوپال لکھنؤو اور میرٹھ میں ۳۰ سے ۳۵ فیصد مسلمان آباد ہیں اس کے علاوہ آگرہ، اورنگ آباد، سورت آباد اقلیت میں ہیں جن کو وہ حقوق اور درجہ نہیں جو پاکستان میں اقلیتوں کو ہے اور ہمارے حکمران ایک ڈاکٹر رمیش اور مودی کی خاطر ايك اُن کا طوطی اور دوسرادوست ہے ہندووں کے ساتھ مل کر ہولی بھی کھیلتے ہیں اور ان کے بھگوانوں اوراللہ میں کوئی فرق نہیں سمجھتے (نعوذباللہ)، جبکہ انڈیا میں ہندو مسلمانوں کو ہر طور ایذیت پہچانے کے در ہیں، کبھی گائے ذبح کرنے پرتو کبھی مندرمسجد کے نام پر، امید ہو چلی ہے کہ برصغیر ہند میں ایک اور مسلم ریاست کا قیام ہو، ایک اور پاکستان بننے کو ہے، موجودہ حالات اسی طرف غمازی کر رہے ہیں جو اٹھارویں صدی میں تھے، لیکن اس کیلئے انڈیا میں بسنے والے مسلمانوں کو قربانی دینا ہوگی، وہی قربانی جو ۴۷ء میں مسلمانوں نے پاکستان کی طرف ہجرت کرکے دی تھی صرف ہندو بنیے کا ظلم سہنا کافی نہ ہوگا، اگر ہندوستان میں بسنے والے مسلمان بھی مسلم اکثریت والے علاقہ میں اکھٹے ہونا شروع ہو جائیں، نقل مکانی کریں ہجرت کریں جوکہ اسلام میں بھی حکم ہے، جس طرح یہودیوں نے کئی سالوں فلسطین میں آبادکاری کی اور ایک بڑی یہودی بستی بنا لی، اسی طرح انڈیا میں مقیم مسلمان ایک تنظیم کے ساتھ زیادہ مسلم آبادی کی طرف نقل مکانی کرتے جائیں، یعنی ایک اور ہجرت کی ضرورت ہے، چہ جائیکہ بھارت نے اس طرح کی نقل مکانی پر پابندی لگائی ہوئی ہے اور یہ بھی مشکل ہے که بسے بسائے گھر اور بزنس نہیں چھوڑے جاتے لیکن کسی حکمت عملی کے ذریعے یہ کرنا ہوگا اور کچھ پانے کیلئے کچھ کھونا پڑتا ہے، ویسے بھی اللہ رب العزت کسی کے خواب کو توڑتا نہیں تو پھرکیسے چوہدری رحمت الہی کے خواب کو جس نے تین پاکستانوں کا خواب دیکھا تھا، جن میں ’’ موجودہ پاکستان‘‘، بانگستان، بنگال اور آسام، جو مشرقی پاکستان کے نام سے بنا اور اب علیحدہ ہوکر "بنگلہ دیش "کے نام سے موجود ہے اورعثمانستان حیدرآباد دکن کا علاقہ جس کیلئے آجکل کوششیں ہو رہی ہیں پورا نہ کرے _
عالمی میڈیا پر شائع ہونے والی رپورٹس کے مطابق انڈیا میں علیحدگی پسند تحریکیں عروج پر ہیں جن کے سبب اندورونی خلفشار سب سے بڑا خطرہ ہے، دوسری جانب ہندو انتہاء پسند تنظیموں نے بھی انڈیا میں تربیتی کیمپ کھول رکھے ہیں، شیوسینا، راشٹریہ سیوک سنگھ اور بجرنگ دل کے مظالم اور اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کی وجہ سے بھی علیحدگی پسندوں کو تقویت مل رہی ہے، اس کے علاوہ موودی صاحب کی پالیسیاں بھی اس ایشو کو مزید ہوا دے رہی ہیں، کشمیر بھی آزادی کے آخری مراحل میں ہے، کیونکہ کسی بھی تحریک کو عروج کیلئے تقریباََ ایک صدی درکار ہوتی ہے جو پوری ہونے کو ہے دوسری بات جو دوسروں کیلئے گڑھا کھودتے ہیں وہ خود اسی میں گرتے ہیں، انڈیا نے پاکستان میں مشکلات کھڑی کیں کلبھوشن جیسے جاسوس بھیجے، تخریب کاریاں کروائیں، تو جو کرنی وہی بھرنی، اب بھگتنے کیلئے تیار ہوجائے نصرمن اللہ و فتح قریب۔
ویسے موجودہ پاکستان میں بھی نئے پاکستان کی بازگشت سنائی دے رہی ہے اب اللہ جانے یہ نیا پاکستان کہاں بننا ہے کیونکہ ہر سیاسی پارٹی یہی نعرہ بلند کر رہی ہے جو پہلے کپتان نے لگایا تھا، دیکھا دیکھی حکمران وقت بھی یہ کہتے دیکھائی و سنائی دے رہے ہیں کہ نئے پاکستان کی بنیادیں رکھ دی گئی ہیں، مجھے تو ڈر ہے کہیں پہلے والے کو بیچ ہی نہ دیں جس کیلئے جمہوری کوششیں جاری ہیں، کہنا تو یہ چاہیے تھا کہ موجودہ پاکستان کو نیا بنا رہے ہیں جیسے کبھی گلیوں میں آواز لگتی تھی ’’پانڈے قلعی کرا لو‘‘، اللہ کے بندوکیا یہ پاکستان کسی نے تھالی میں رکھ کر دیا ہے اس کیلئے بہت قربانیاں دی ہیں، بہت خون بہا ہے، بہت عزتیں لٹیں ہیں تب جا کر زمین کا یہ ٹکڑا نصیب ہوا ہے، مگر ہم نے اسکا پاس نہ رکھا، کوئی گول کوئی روڈ میپ سیٹ نہیں کیا !کہ ہم اس خطہ میں کیا کریں گے؟، پاکستان کی دنیا میں کیا پہچان ہوگی ؟اقوام عالم پاکستانی کو کس نظر سے دیکھیں گے؟ افسوس کہ ہم نے ۷۰ برس گنوا دئیے، آج جس مقام پر پاکستان یا پاکستانی ہیں، کیا یہی ہمارا ٹارگٹ تھا، اگر یہی پاکستان ہے تو کسی اور جگہ پاکستان وجود میں نہیں آنا چاہیے، مگرپھر بھی پاکستان کی سلامتی کی دعا ہے کہ باقی رہے، کہیں جمہوریت جمہوریت، صوبہ صوبہ کھیلتے کھیلتے سیاسی اشرافیہ اس کے حصے بخرے نہ کر دیں، اور اسی پاکستان میں ایک اور پاکستان نمودار نہ ہوجائے، اللہ کے بندو، پارٹی بازی، ذاتی عناد اور انا کی دلدل اور پانامہ سے باہر آؤ اور پاکستان کی تعمیر کرو، ایسی تعمیر نہیں جو حکمران ٹولہ کررہا ہے کہ زرعی علاقوں میں کول پاور پلانٹ اور ریگستانوں میں سولر سسٹم، یادرکھیں وقت کبھی معاف نہیں کرتا۔
خیر میں موضوع سے ذرا ہٹ گیا ہوں ! تو بات ہو رہی ہے نئی مسلم ریاست کی ایک اور پاکستان کی اس کو اگر مودی سرکار کے طرز حکمرانی کے تناظر میں بھی دیکھیں تو واضح طور دیکھا اور محسوس کیا جا سکتا ہے جس طرح مودی سرکار اسرایئل اور ٹرمپ سے جھپیاں ڈالتے نظر آرہے ہیں، ان کا اقلیتوں کے ساتھ تعصب اور ان کا جینا دو بھر کیا ہوا ہے، انڈیا کا سویت یونین کی طرح ٹکڑے ٹکڑے ہونا نگزیر ہو گیا ہے، جس میں ایک اور مسلم ریاست کا وجود کوئی بڑی بات نہیں۔