تاریخ کے دریچوں سے جھانکتے ہوئے مجھے وہ دن یاد آتا ہے جب ایک شام ۴ اپریل ۱۹۷۹، میں اپنے میاں جی کے پاس بیٹھا ہوا تھا موسم ذرا گرم تھا کہ ۳ بجے کے قریب سرخ آندھی آسمان پر اٹھی تو میاں جی کچھ پریشان ہوگئے اور فرمانے لگے آج کہیں بہت ظلم ہوگیا ہے ، ۷۰ ء کی دہائی سے پہلے تک خبریں تقریباً ایسے ہی ملا کرتی تھیں، جس کا اثر تقریبأ ۸۰ ء کی دہائی تک رہا کہ، کوا منڈھیر پر بولا تو کسی مہمان کا انتظار لگ جاتا تھا گدِھوں کے جنڈھ منڈلانے لگتے تو کوئی انہونی کا خدشہ ہوجاتا تھا خیر میں کہہ رہا تھا کہ میاں جی کو ڈر تھا کہ آج بہت ظلم ہوگیا ہے ، جن کے پاس ریڈیو تھے یا جن کے پاس ٹیلیوژن ( شاذ شاذ ہی ہوتے تھے) ان سے خبریں گردش کرنے لگیں کہ قاید عوام (ذالفقار علی بھٹو ) کو پھانسی دے دی گئی! تارا مسیح نے عدالتی فیصلہ کی ایماء پر ! ارے کس جرم میں ؟ صرف الزام تھا قتل نہیں کیا اور الزام بھی یہ کہ شک ہے انہوں نے قتل کروایا ہے اور مزے کی بات انہوں نے دس سال کی جلاوطنی بھی قبول نہیں کی اور کوئی استثنَی بھی نہیں لیا، جو ایک جرنیل نے ایک وزیراعظم کو دی تھی اور ایک وہ بھی وقت آیا جب تاریخ نے اپنے آپ کو پھر دہرایا پھر ایک جرنیل نے ایک وزیراعظم کو معافی مانگنے پر دس سال کیلئے جلا وطن کیا ، جس کو وہ مانتا ہی نہیں رہا ! خیر میرا موضوع یہ نہیں ہے میرا مقصد تو صرف اتنا ہے کہ ملک میں ہونے والے ہر قتل کا درست فیصلہ ہو اور ہر قاتل کو پھانسی ہو ،عدالتیں خود مختار ہوں فردِواحد کا اثرورسوخ ختم ہو وگرنہ دوسروں کی طرح انسانیت کے ناطے میں بھی تو ۱۷ جون ۲۰۱۴ ء کو ماڈل ٹاون میں کھیلی گئی خون کی ہولی کو یاد کر کے رو رہا ہوں جب کئی گھنٹوں تک پولیس کا نہتے لوگوں پر سیدھے فائرنگ کا لایؤ ٹیلی کاسٹ دیکھتا رہا اور سوچتا رہا کہ کیا حکومت پنجاب اور اسکے باقی ادارے نہیں دیکھ رہے ہونگے ؟کیا نواز شریف یا شہباز شریف یا رانا ثنا اللہ کو کو ئی نہیں بتا رہا ہوگا کی سر ٹیلیوژن آن کر کے دیکھیں کیا ہو رہا ہے؟کیا حکومت پنجاب نے کوئی نوٹس کیوں نہیں لیا ہوگا ؟کیا کسی عدالت نے سو موٹو نہیں لیا ہوگا ؟ یا یہ سب حکومت کی یا کسی ایک کی ایماء پر آگ اور خون کا کھیل کھیلا جا رہا تھا اور ۱۴ لوگوں کو سر عام گولی کا نشانہ بنا دیا گیا درجنوں زخمی ، آج تک انصاف نہیں مل سکا ان مظلوموں کو یہی نہیں ایکشن کرنے والے کچھ افراد کو تو بہت نوازہ گیاسوال اٹتا ہے کہ کیا عدالتی نظام ناکارہ ہوگیا ہے؟ اور تو اور گلو بٹ جس نے سر عام بے قصور شہریوں کی گاڑیوں کو نقصان پہنچایا وہ بھی بری کردیا گیا ہے اس کی بھی ٹی وی کوریج ریکارڈ پر موجود ہے کیا جن لوگوں کی گاڑیوں کے شیشے توڑے گئے وہ اس ملک کی شہری نہیں تھے ان کا قصور کیا تھا ؟ جلسوں میں مخالف گروپ کے گلو بٹ (پالے ہوئے غنڈے، سپیشل فورس) سر عام قتل کردیتی ہے اور ہوتا کچھ نہیں، یہ سب دیکھنے کے بعد سوال اٹھتا ہے کہ کیا تارا مسیح اس دنیا میں نہیں رہا! یہ آئے روز نابالغ بچیوں کو بالغ بنایا جا رہا ہے اورکچھ کو اسکے بعد موت کے گھاٹ بھی اتار دیا جاتا ہے ظلم و بربریت اور سفاکی کی انتہاء، کوئی ادارہ ایسا نہیں جو ایکشن لے سکے . تقریبا ۴/۳ دہائیوں سے قتل، آبروریزی،ڈاکے،راہزنی کے واقعات معاشرے میں عام ہوگئے ہیں، ادارے ، عدالتیں موجود ہیں مگر سب بے کار کر د ی گئی ہیں ، چور ، لٹیرے ،ڈاکو ، بدمعاش ،کنَ ٹُٹے ،اُمرا ء اور اشرافیہ اداروں پر اثر انداز ہوتے ہیں اور اپنی مرضی کے فیصلے کرواتے ہیں بلکہ عدالتوں پر بھی چڑھ دوڑتے ہیں اور غریب ایک روٹی چراْنے پر ہجوم اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ھتے چڑھ جاتا ہے کوئی پوچھنے والا نہیں اخباریں سہ سرخیاں لگاتیں ہیں لیکن دوسرے دن اسی اخبار میں سموسے پکوڑے بک رہے ہوتے ہیں (یہ سپریم کورٹ کے ریمارکس ہیں جس پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے) لیکن میں تو کہوں گا یہ اخباروں کی نہیں، معاشرے اور اداروں کی بے بسی اور بے حسی ہے جس میں سموسے پکوڑے بک رہے ہیں ، اندھیر نگری چوپٹ راج، لیکن اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے ضرور ایک دن تارا مسیح آئے گا! جس طرح سانحہ بلدیہ ٹاون کی جلی ہوئی لاشوں کو انصاف ملنے والا ہے اور ملزم لٹکائے جایں گے۔
پچھلے دنوں آئی جی سندھ کا بیان نظروں سے گذرا کہ ’’ ۱۹۹۶ کے کراچی آپریشن کے بعد آپریشن کرنے والے پولیس آفیسرز اور اہلکار گلیوں اور مسجدوں میں مار دیئے گئے اور قاتل ایوانوں میں جا بیٹھے ‘‘ اہلکار منہ چھپاتے اور وردی میں ڈیوٹی پر نہ جاتے ، سرکاری ادارے عوام کی توقعات پر پورا نہیں اترتے پولیس ایکٹ ۱۸۶۱ ء اکیسویں صدی کے تقاضوں کو پورا کرنیکی صلاحیت نہیں رکھتا تبدیل کرناہوگا‘‘ ، اس خبر کے بعد تو دل سے دعا نکلتی ہے کہ خدا کرئے تارا مسیح زندہ ہو اور ظلم نا انصافی، اور قاتلوں کو حقیقی پھانسی ہو، ورنہ تو آنے والی نسلوں کو یہی لگے کا او ر وہ سوال کرے گی ، کیا تارا مسیح مر گیا تھا؟