1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. زاہد اکرام/
  4. مورال

مورال

میں کوئی کالم نگار یا لکھاری نہی پارٹی کا ادنی سا کارکن ہوں بحثیت کارکن مجھے بہت کچھ سننا پڑتا ہے جس سے دل کڑھتا ہے اور قلم اٹھانے کی جسارت کربیٹھا ہوں مجھے پتہ ہے کہ اعلی قیادت کو بخوبی معلوم ہوں گا پھر بھی کچھ کڑوی باتیں لکھنا چاہتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ پڑھی جائیں اور عمل پیپرا ہوں۔ اس وقت جتنی ضرورت پی ٹی آئی کو پارٹی اصلاح اور تنظیم سازي کی ہے شاید اس سے پہلے نہ تھی۔ اس وقت پارٹی کا کارکنوں میں بہت گر چکا ہے اور تقریبأ متوالے جانثار دلبرداشتہ ہو رہے ہیں جسکی بڑی وجہ خان صاحب کے کچھ غلط فیصلوں اور پارٹی میں اندرونی خلفشار ہے۔ مجھے اندیشہ کہ کہیں سالوں کی محنت اکارت نہ جائے اور الیکشن ۲۰۱۸ میں پارٹی دم نہ توڑ جائے۔ تنظیم سازی ایک لمبا کھٹن اوراعصاب شکن پراسس ہے جس میں متحرک و محب وطن پارٹی نمایئدوں کا چناؤاور ان علاقوں میں تعیناتی جہاں وہ اھل علاقہ کے دلوں میں اپنا اور پارٹی کا مقام پیدا کریں تاکہ بوقت الیکشن لوگ ووٹ دیں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ باقی معاملات کے ساتھ ساتھ پارٹی کو سارے پاکستان کے دیہاتوں 249 گلی کوچوں میں متحرک اور مضبوط کرتے لوگ پی ٹی آئی کے ورکرز کو جانتے ان پر انکو اعتماد ہوتا اور یہ نمایئندے اپنے آپ کو الیکشن میں دھاندلی کو روکنے میں ماہر کرتے اگر انکی پرفارمنس قابل ستایش ہوتی تو انکو ٹکٹ دیا جاتا لیکن ہم نے نہی سیکھا۔ اب پھر الیکشن قریب ہے اور پارٹی اندرونی خلفشار سے باھر نہی نکلی، دیکھا جائے تو دوسری پارٹیاں زور پکڑ رہی ہیں اور انہوں نے اپنے نمایندگان متعارف کروادیے ہیں لگتا ہے ہسٹری پھر دہرائی جائے گی جس کا خمیازہ تبدیلی کی امید لگائے عوام کو بھگتنا ہوگا۔

ابھی بھی کچھ نہی بگڑا، اگر پارٹی منظم طریقے سے صوبو ں صوبوں، شہروں شہروں عوامي مہم کا آغاز کرے اور ہر علاقہ میں اپنے نمایندوں کا اعلان کرتی جائے اس شرط پر کہ اگر انکی پرفارمنس اچھی نہ ہوئی تو دوسرا نمایندہ عوام کی خدمت کیلیے حاضر ہوگا تو امید قوی ہوگی خفگی سے بچنے کو، اس کے ساتھ ساتھ پارٹی میں پائے جانے والے اندرونی اختلافات کو ختم کرنا بہت ضروری ہے۔ پارٹی کے پکے پرانے کارکنوں کو مسلسل نظر انداز کئے جانے کی وجہ سے ان میں بددلی اور مایوسی پپھیلتی جارہی ہے اور و رکرز کا پست ہورہا ہے، انکا اعتماد بحال کیا جائے اور انکی جدوجہد کا احترام کرتے ہو ئے انکو انکا جائز مقام دیا جائے اور فصلی بٹیروں سے اجتناب کیا جائے۔

خیبر پختونخواہ میں بہت کام کی ضرورت ہے اس سے زیادہ اسکی تشہیر (جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا) مور کو جنگل سے باہر لانا ہوگا اور ترقیاتی کامو کی طرف توجہ دینا ہوگی اور انکی تشہیر کرنا ہوگی، کم از کم ملین ٹریز (درخت) تو لگانا ہی ہونگے۔ خدارا خان صاحب سڑکوں سے اٹھ کر اسمبلیوں میں جائیں اور قانون سازی کروائیں اداروں کو مضبوط بنوائیں ،دھاندلی احتساب و قانون شکنی کیلیئے قانوں پاس کروائیں واللہ آپ آواز اٹھائیں گے تو سب آپ کا ساتھ دیں گے وہ کام کریں جس سے یہی پرانا پاکستان نیا بن جائے، نیا جب اپنی حکومت ھو گی تب بنا لیں گے۔ آخری بات نڈر بے باک اور صلح جو بنیئے، لاک ڈاون کے دن اگر آپ پش اپ لگانے کی بجائے خود اور باقی لیڈروں کے ساتھ نیچے کارکنوں میں آجاتے تو شاید اس وقت نقشہ کچھ اور ہوتا قربانی کے بغیر کچھ نہی ہوتا اب تو یہي لگتا ہے کہ جمہوریت کی گاڑی ۵ سال پورے کر ہی لے گی، لہذا وقت ہے کہ ہر محاذ پر لڑتے ہوئے کچھ کر دیکھایں لوگ آوٹ پٹ دیکھتے اور مانگتے ہیں وعدے اور باتیں کرنے والے دوسرے بہت ہیں یہ کام انہی کو کرنے دیں۔ آپ بس ورکرز، متوالوں اور جانثاروں کا بلند رکھیں، اللہ آپکا اقبال بلند رکھے۔