1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. زاہد اکرام/
  4. مختصرمختصر کڑوی باتیں

مختصرمختصر کڑوی باتیں

زاہداکرام

دیوانے کی بھڑک اورٹرمپ۔ ۔ ۔
تو جھکا جو غیر کے آگے نہ من تیرا نہ دھن
پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ صدا
کاش آج ہماری قیادت امریکہ نواز نہ ہوتی، کاش ہم ضیاء اور مشرف کی لگائی ہوئی آگ کو بجھا پاتے، کاش ہم کشکول توڑ پاتے، کاش ہم نو مور نو مور کہہ پاتے، علاقے میں اگر دو غنڈے ہوں تو علاقہ مکین محفوظ اور سکون سے رہتے ہیں لیکن اگر خدانخواستہ ان میں سے ایک ختم ہوجائے تو شامت علاقہ مکینوں کی آجاتی ہے اس کی غنڈہ گردی کیلئے، یہی ہو اعالمی غنڈہ گردی میں دو پاورز تھیں امریکہ اور سویت یونین ایک کے ختم ہوتے ہی عالم خاص کر اسلامی ریاستیں عالمی دہشت گردی کا شکار ہو گیں، اب جس کو چاہتا ہے امریکہ بہادر دھمکی لگاتا ہے کوئی پوچھنے والا نہیں، گھنٹی تو اس وقت ہی بج گئی تھی جب ٹرمپ نے ریاض میں اسلامی ممالک کے سربراہان کو اسلامی لیکچر دیا تھا، اب کل سے سب ذی شعور تو تپ رہے ہیں مگر نہیں تپے تو ہمارے حکمران جن کو امداد بند ہونے کی فکر ہے فقط۔ ۔ ۔ رہی بات انڈیا کی نجانے ! لوگ کیوں کلبھوشن یادیو کو بھول گئے۔ ۔ ۔ اور معدنیات سے بھرے افغانستان کو کیوں کر نظر انداز کیا جاتا ہے۔ ۔ ۔ ۔

قانون کا تیاء پانچا اور جسٹس کھوسہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جسٹس کھوسہ پر پارلیمان کے سپیکر کی طرف سے ۵ صفحات پر مشتمل ریفرنس دائرکرنے کی شنید تھی، موقف یہ اختیار کرنا تھا کہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے پاناما کیس میں کہا کہ اسپیکر قومی اسمبلی نے اپنی ذمہ دارایاں ادا نہیں کی جس بنیاد پرکیس عدالت کو سننا پڑا، اب اللہ جانے اس میں کتنی سچائی تھی، لیکن جہاں آگ سلگتی ہے دھواں وہی سے اٹھتا ہے، یہ تو ہوا عدالت اور ججوں کو پریشرائز کرنا، اسی پریشر کے تحت آج کھوسہ صاحب کو ہارٹ اٹیک آیا اور وہ ہسپتال میں ہیں اللہ انہیں صحت و تندرستی عطا فرمائے، لیکن یہ کیا کہ آئین میں چھیڑ خانی، ۶۲/۶۳ کو ختم یا اس میں ترامیم کرنا، کیونکہ پالیمنٹ کے اکثر سیاستدانوں کی ڈگریاں جعلی، دس دس سالہ جیل کاٹنے کا تجربہ، بلوے، غنڈہ گردی اور قتل جیسے سنگیں جرائم کے سرٹیفیکیٹ ہیں، جو ۶۲، ۶۳ پر پورے نہیں ٹھرتے، تو ایسے قانون کا ختم ہونا یا تبدیل ہونا ہی ضروری ہے۔ اور تو اور اب نااہل وزیر اعظم کمر بستہ ہوگئے ہیں، تازہ دم ہوکر اپنے ٹولے کے ساتھ عدلیہ کے خلاف بیانات دینا شروع کردیئے ہیں، اور عوام اور اداروں کے سامنے کئی سوال اٹھا دیئے۔

ایک مچھر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ایک مچھر انسان کو ہیجڑا بنا دیتا ہے، اس کا عملی نمونہ خیبر پختونخواہ میں دیکھنے کو ملا جہاں شور تھا نئے صوبے کا جس میں شورتھا کہ ہسپتالوں اور ڈاکٹروں کا بہترین نظام، لیکن ایک مچھر نے پول کھول دیا، کہ ڈینگی کنٹرول میں نہیں آرہا جس کیلئے پنجاب کی مدد تو ٹھیک لیکن سیاست، اللہ اللہ، ایسا لگ رہا ہے جیسے کسی دوسری ریاست یا ملک کو امداد بھیجی جار ہی ہو، کیا خیبر پختونخواہ والے پاکستان کے باشندے نہیں، مخالفانہ بیان بازی ہمارے سیاستدانوں کا وطیرہ ہے جو بڑھتے بڑھتے کردار کشی تک پہنچ گئی ہے، خیرسے اینٹی ڈینگی میڈیکل ٹیم کا خیر مقدم کرکے خیبر پختونخواہ حکومت نے اپنے اور عمران خان کے خلاف کھلنے والے پروپیگنڈے والے نئے محاذ کے سامنے بند توباندھ دیا ہے، لیکن کیا اپنی نااہلی پر بھی کوئی افسوس ہے یا اس ماڈل صوبے میں بھی لوگ مرتے رہے گے۔

ثبوت کہاں سے لاؤں؟۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
سبق پڑھ پھر صداقت کا شرافت کا
لیا جائے گا حساب ساری خباثت کا
اپنے کالم ’’صادق اور امین کون؟‘‘، میں نے اپنے ایک دوست جو سرکاری عہدہ پر فائیز تھے کا ذکر کیا تھا کہ کیسے وہ اپنے عہدہ کا جائزناجائز استعمال کرتے ہوئے، ککھ سے لکھ پتی ہوئے، اگر آپ اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو آپ کو بے شمار ایسے کردار مل جائیں گے، رہی بات محترم جناب نااہل وزیراعظم کی تو، موصوف کی دولت ہمارے بزرگوں کے ساتھ پروان چڑھی ہے، اخباریں اور میرے کئی سینئر صحافی عرصہ دراز سے بڑی محنت شاقہ کے بعد ان کے کارنامے زیر قلم لاتے رہے ہیں، جس میں ان کی جائیدادوں کے پروان چڑھنے کی تفصیل لحمہ بہ لحمہ بیان کی گئی ہے، دور نہ جائیں جاتی عمرہ کی تعمیر پر نظر دوڑا لیں اس پر اس خاندان نے کتنا دھن اپنی جیب سے خرچ کیا ہوگا، اس طرح کی جائیداد کا ثبوت کہا ں ہونگے، جس کیلئے نااہل وزیر اعظم کا بیان ہی کافی سمجھا جائے کہ چوری کرنے والا اپنے نام پر جائیدادیں نہیں بناتا، اسکی تازہ مثال مریم کے طالبعلم بیٹے کے اکاونٹس میں بے پناہ دولت!! تو پھر ثبوت کہاں ہونگے ؟؟ میاں صاحب جن کے لیے یہ جرم کئے وہ تو مکر گئے ہیں اور کہنا نہیں مانتے، اور پاکستان آنا بھی نہیں چاہتے، بس اللہ ہی کی پکڑ کافی ہے، میاں صاحب آپ ہلکان نہ ہوں، ثبوتوں کو چھوڑیں جو دولت عوام کی ہے واپس لوٹادیں عوام آپکو معاف کردے گی۔

مقابلہ حلقہ ۱۲۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
حلقہ ۱۲۰ اس وقت خبروں کا گرم حصہ ہے، جہاں ایک ڈاکٹر اور ا یک سیاسی عورت کا مقابلہ ہوگا، جس کی انتخابی مہم حمزہ شہباز کررہے تھے، یہ وہی حمزہ ہے جو بطور ضمانت ۲۰۰۰ء میں پاکستان رہا مشرف کی ڈیمانڈپر، جس کو لارا لگایا تھا کہ تم میرے(نواز) جانشین بنوں گے، لیکن اب حالات ایسے ہیں کہ حلقہ ۱۲۰ کی انتخابی مہم سے بھی علیحدہ کردیا ہے اور یہ مہم وزیر تجارت پرویز کو سونپ دی گئی ہے اس کے دو فائدے ہیں ایک تو یہ سرمایہ کاری ہے جس کو احسن طریقے سے وزیر تجارت ہی نبھا سکتے ہیں دوسرا شریکے سے بچ جائیں گے، اسکے علاوہ مریم صاحبہ خود بھی میدان میں کود چکی ہیں اب دیکھیں حلقہ ۱۲۰ کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے، ویسے اگرعلاقہ مکینوں کوشعور آجائے تو اونٹ سہی کروٹ ہی بیٹھے گا

بجلی بھری ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
آ ج درویش صفدر کی تقریر سنی مزا گیا، فرماتے ہیں میرے قائد(سسر) نے اگلے سو سال کی بجلی پیدا کرنے کی منصوبہ بندی کرلی تھی، اگر نکالے نہ جاتے تو (اگلے ۱۰ ماہ میں) ۴۲۰۰ میگاواٹ بجلی قوم کے سپرد کردینی تھی، بہت سارے ڈیم، بھاشا ڈیم، داسو ڈیم، نیلم جہلم ڈیم، گولی ڈیم، ونڈپراجیکٹس تبت سے نکلنے والا پانی سارے کا سارا بجلی بنانے پر لگنے والا تھا پر نکال دیا!!، سسر صاحب بھی فرماتے ہیں قوم نے کہا بجلی لا کر دو میں نے لا دی پر مجھے نکال دیا گیا، مجھے کیوں نکالا؟؟مجھے نااہل کردیا ساتھ ہی بجلی بھی نااہل ہوگئی، اسی لئے تو اس نے کہا ہے’’ بجلی بھری ہے انکے انگ انگ میں۔ ۔ ۔ ۔