کافی عرصہ سے سوچ رہا تھا کہ یہ غلامی کس چیز کا نام ھے، غلامی کیا ہوتی ہے، غلام در غلام ہونا کیسا فلسفہ ہے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا لیکن بھلا ہو ٹی وی والوں کا جنہوں نے یہ نقطہ آخر کار سمجھاہی دیا۔ ایاز صادق صاحب کی حلقہ ۱۲۲ کا الیکشن جیتنے کے بعد ٹی وی کوریج دکھائی جا رہی تھی کہ نظر پڑی حمزہ شہباز (طفل مکتب سیاست) ایاز صادق صاحب کی گال تھپتھپا رہے ھیں جیسے ایک آ قا اپنے غلام کو شاباشی دے رہا ہوجی ہاں یہ ایاز صادق صاحب وہی ہیں جو سپیکر کی کرسی پر براجمان ہیں اور ایک منجھے ہوئے سیاست دان ہیں۔ یہی بات ختم نہی ھوئی ایک سین میں تو حد ہی ہوگئی ایک باریش بزرگ شکل عالم دین تو ماہ بدولت کے باقائدہ ہاتھ چوم رہا تھا اور جناب اسکی پیٹھ تھپتھپا رہے تھے۔ دوسری طرف پاکستان کے قد آور سیاستدان جیسے اعتزاز احسن خورشید شاہ قائرہ صاحب جیسے بڑے لوگ بلاول بھٹو کے سامنے سر تسلیم خم کیے ہوئے نظر آئے۔تو فلسفہ غلام در غلامی سمجھ آیا۔ اور بہ بھی سمجھ آگیا کہ کیوں ہمارے بیشتر دیہاتوں میں ہاری مزارعے غلامی کی زندگی گذارنے پر مجبورہیں جسکی مثالیں سندھ، پنجاب اور بلوچستان میں دیکھنے کو ملتی ہیں بھٹہ مزدور انکی اولادیں غلامی کی زندگی گذارنے پر مجبور ہیں۔
غلامی کی ظاہری شکل تو معروف ہے جس میں انسانوں کو قید کیا جاتا ہے یا خریدا بیچا جاتا ہے لیکن دوسری قسم‘ سوچ کی غلامی ہے جب فرد، افراد، لوگ، ادارے اور قومیں کسی سوچ کی غلام ہو جائیں تو پھر انکو اس حالت سے نکالنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں لوگ غاصبانہ سوچ کے غلام ہو چکے ہیں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی سوچ نے انہیں خواہشات کا غلام بنا دیا ہے کار، کوٹھی، بینک بیلنس، عہدہ، رتبہ حاصل کرنے کے لیے ہر جائز ناجائز حلال حرام کام میں کوئی عار محسوس نہی کرتے چاہے معصوم شیر خوار بچوں کو ملاوٹ زدہ کیمیکل والا دودھ بیمارغریب مریضوں کو پتھر پسی ادویات یا عوام کو گدھے کتے یا سؤر کا گوشت ہي کیوں نہ کھلانا پڑے بس روکڑا آنا چاھیے۔ یہی نہیں ہمارے حکمران بھی اسی فارمولے پر کام کر رہے ہیں یعنی لوٹو اور پھوٹو کمشن بناؤ جان بناؤ عوام جائے بھاڑ میں۔ میں نے جان بوجھ کر عوام کہا درحقیقت یہ پاکستان میں ۲۲ کڑور لوگوں کا ایک ھجوم ہے جو ۱۹۴۷ کے سانحے میں اس خطہ میں اکھٹا ھو گیا تھا اور یہ وہی غریب پسماندہ پسے ہوئے عوام ہے جس کو کوئی پوچھتا نہیں تھا جو غلامانہ سوچ کے حامل تھے پہلے انگریزوں کے غلام اس سے پہلے مغلوں کے یعنی غلام در غلام اور ہمارے حکمران اشرافیہ جن میں سے اکثر کو غلامی کا صلہ ملا تھا وہ اب ۲۲ کڑور ہجوم پر حکمرانی کررہے ہیں کبھی ان کو روٹی کپڑے اور مکان کا لالچ دے کر کبھی لیپ ٹاپ سڑکون کا لالچ دے کر اور کبھی اسلام لانے کا وعدہ پر کسی نے قوم بنانے کا ذکر نہیں کیا کسی نے شعور کی بیداری کا نعرہ نہی لگایا۔ ایک مرد مجاہد نے حال ہی میں قوم کے شعور کی بیداری اور قوم بنانے کا وعدہ ہی نہیں کام بھی شروع کیا تو سارا ہجوم اور اشرافیہ اسکے خلاف صف آرا ہوگئے ہیں کہ کہی یہ ہجوم ایک قوم کی شکل نہ اختیار کر جائے کیو نکہ قوموں کا اپنا کلچر ہوتا ہے اپنا مذہب ہوتا ہے۔ قومیں اپنے مذہب، کلچرریاستی پالیسیوں اور اصولوں پر کتنی حساسیت کا مظاہرہ کرتی ہیں انہیں اچھی طرح معلوم ہے۔
دنیا کی تقریباَ ہر قوم چند مخصوص مراحل سے گذرتی ہے پہلے غلامی سے مذہبی عقائد تک، پھر مذہبی عقائد سے عزم اور حوصلے تک، پھر عزم اور حوصلے کے سہارے آزادی حاصل کرنے تک، آزادی سے خوشحالی اور پھر خوشحالی سے خود غرضی تک اور خود غرصی لا تعلقی کا سبب بنتی ہے جس سے قوم بے حس ہو جاتی ہے بے حسی انحصار لاتی ہے اور انحصار دوبارہ غلامی تک پہنچا دیتا ہے۔ اس وقت پاکستانی قوم جو ایک ہجوم کی شکل اختیار کر چکا ہے پھر سے آخری مراحل سے گذر رہاہے یعنی غلامی کی طرف۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اب کی بار نسلوں کی غلامی کی طرف۔۔۔۔۔۔۔(جاری ہے)