1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. زاہد اکرام/
  4. قصور بابا بلھےؒ دا!!

قصور بابا بلھےؒ دا!!

مگر زینب بے قصور

زاہداکرام

سادھو کس نوں کُوک سناویں، میری بکل دے وچ چور

چوری چوری نکل گیا، تے جگ وچ پے گیا شور

کہنے کو تو قصور بابا بلھے ؒ شاہ سے منسوب ہے، جہاں پر اس مرد کامل نے ڈیرے لگائے اور اسلام کے علوم و فیوض کی برکات بانٹیں، اک زمانہ تھا جب قصورکا فالودہ خالص کھویا، اندرسے مشہور تھے لوگ دور دور سے کھانے جایا کرتے تھے، پھر توا مچھلی نے بھی مشہوری پکڑی، اسی شہرسے ملکہ ترنم نورجہاں کے گیت بھی امر ہوئے، رفتہ رفتہ ان سب چیزوں کا فقدان ہونے لگا، نہ وہ لوگ رہے نہ وہ رعنائیاں اور نہ ہی خالص پن، سب کچھ ملاوٹ زدہ، رشتوں میں بھی ملاوٹ، لحاظ ختم ہوتا گیا۔ لوگوں میں پیڈوفیلیا اور ٹیلیوفیلی (Pedophilia and Teleiophile) جیسی بیماریوں نے جنم لینا شروع کیا، جوکم عمر بچوں سے جنسی میلان کی بیماری ہے، ایک نفسیاتی مرض ہے، پیڈوفیلیا میں مریض کو کم سن بچیاں بھاتی ہیں جبکہ ٹیلیوفیلی میں مریض چھوٹی عمر کے بچوں میں دلچسپی لیتا ہے یہ مرض قوم لوط علیہ السلام کی پہچان ہے، ان مرائض کا شکار انسان ایک عام شادی شدہ زندگی نہیں گذار سکتا یا گذارنے کے قابل نہیں ہوتا، بلکہ بالغ عورت کے ساتھ ازواجی تعلق قائم نہیں رکھ سکتا، تو اس کی توجہ کم عمر بچوں ( ٹیلیوفیلی) یا بچیوں ( پیڈیوفیلیا ) کی طرف جاتی ہے۔ اس بیماری میں مبتلا افراد ہمارے قریبی ہی ہوتے ہیں، ہمارے حلقہ احباب میں ہوتے ہیں بڑے سادہ اور نفیس نظر آتے ہیں لیکن اندر سے کالے۔

تن اجلا من میلا شکلوں لاگے نیک اس سے بھلا کوا جو اندر باہر سے ایک

بچوں سے جنسی فعل کی خبریں جس تواتر سے گردش میں ہیں یہ لمحہ فکریہ ہے، ایسا مسئلہ ہے جس پر بات کرنے سے ہمیشہ گریز کیا گیا، نہ اس پر کوئی سخت سزاؤں کا قانون بنا نہ ہی سزاؤں پر کبھی حکومتی سطح پر عمل ہوا، مغربی ممالک میں یہ غیر قانونی عمل اور میلان سمجھا جاتا ہے، اور اس کے قوانین بھی سخت ہیں، پاکستان ان پر عمل پیرا نہیں ہوتا بااثر افراد چھوٹ جاتے ہیں، کاش اگر اس وقت جب قصور میں ہی ڈھائی تین سو بچوں سے بدفعلی اور پورن موویز بنائی گئیں تھیں، پکڑے گئے ملزمان کو سر عام پھانسی دے دی جاتی تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا، بالکل اس طرح جب ۱۹۸۱ء مارشل لاء کے دور میں باغبانپورہ کے پپو نامی لڑکے سے زیادتی اور قتل کے چار ملزمان کو بیگم پورہ کی سبزی منڈی چوک میں پھانسی دینے کے بعدعبرت کے طور پرمغرب تک سولی پر لٹکائے رکھا، پھر کافی عرصہ تک سکون رہا تھا، لیکن ہائے ری جمہوریت جس میں ملزم دندناتے پھرتے ہیں، جن کی پشت پناہی وقت کی سیاسی اشرافیہ کر رہی ہے، ایک رپورٹ کے مطابق ۲۰۱۷ء میں ۷۶۹ کمسن بچیوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا، لیکن آواز زینب کی بلند ہوئی پورا ملک سراپا احتجاج بن گیا، کیونکہ اس کے والدین نے روضۂ رسول ؑ اور اللہ کے دربار میں دہائی دی تھی جو عمرے پر آئے ہوئے تھے اس لیے ان کی فریاد سیدھے عرش تک پہنچی اور اللہ نے چاہا تو مجرم و ملزم ضرور پکڑے جائیں گے نہ صرف زینب کے بلکہ باقی ۱۱ بچیوں کے بھی جن کا مجرم ایک ہی لگتا ہے اور تختہ دار پر جھولیں گے(ان شاء اللہ)، اللہ کر ے اسی طرح کے واقعے کی کائناتبچى جو بچ گئی ہے اللہ اسکو صحت عطا کرے اور وہ بول سکے اور مجرم کا حلیہ بتائے تاکہ معاملہ آسان ہو۔

لبرل انکل اور آنٹیاں بچوں، بچیوں کے سلیبس میں سیکس ایجوکیشن کا واویلا مچا رہی ہیں، کیا ایک سال اور تین سال کی بچوں بچیوں کو بھی سیکس ایجوکیشن دی جا سکتی ہے، کل ہی مردان میں ایک تین سالہ بچی کو بدفعلی کے بعد قتل کردیا گیا، اس طرح کے واقعات آئے روز اخبار کی زینت بنتے ہیں، اس کا حل سلیبس میں سیکس ایجوکیشن نہیں، جہاں ۷۰ فیصد بچے بچیاں سکولوں سے باہر ہیں، بلکہ والدین ہیں جن کو یہ تعلیم دی جانی چاہیے، جو بچے بچیوں کو یہ باور کرائیں کہ کیا برا ہے کیا اچھا، کس کی گود میں بیٹھنا ہے کس سے ٹافی چاکلیٹ لینی ہے یا نہیں، اصل میں سیکس ایجوکیشن والدین کو دینا ضروری ہے خاص کر والدہ کو۔ مشکل یہ بھی ہے کہ اس طرح کے مسائل کو مذہب کے ساتھ بھی نہیں جوڑا جا سکتا یہ جبلت ہے جو ایک دور میں عروج پر ہوتی ہے، اللہ تعالی نے جوڑے بنائے ہیں نر اور مادہ جن پر ایک دور آتا ہے جس میں اچھے برے کی تمیز نہیں ہو پاتی اور دوسرے وہ جو نفسیاتی مرض کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اس مرض کا صرف ایک ہی حل ہے خوفناک سزائیں، جن پر عمل بھی ہو، تاکہ اس جنسی مرض میں مبتلا افراد اس فعل کو کرنے سے پہلے سزا کا سوچ کر ہی باز رہیں، اسلامی نظام جو خالق انسان و کائنات ہے، کا دیا ہوا نظام ہے بہت ہی اعلی ہے اگر اس کا اطلاق ہوجائے تو جرائم کی شرح بہت کم ہو جائے۔

فی زمانہ انٹرنیٹ، موبایل، اور ٹیلیویزن کا بے دریغ استعمال بھی اس بے راہ روی کا ذریعہ ہے گوکہ ان کے فوائد ان گنت ہیں، اس کے علاوہ چائلڈسیکس بین الاقوامی بازار میں ایک انڈسٹری کا درجہ لے چکی ہے، جہاں پورن مویز کی مانگ بڑھتی جارہی ہے اور پاکستان کا غلیظ مافیا مخدرات کے بعد اس کو ترجیح دیتا ہے چونکہ اس میں سزائیں سخت نہیں، لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان میں اس جرم کی سخت سے سخت سزا کا قانون پاس ہو اور اس کا اطلاق بھی ہو، تاکہ کوئی زینب قصوروار نہ ٹھہرے۔