قلت آب اور پاکستان
زاہداکرام
سن ۸۱ء کی بات ہے جب میرا پہلی دفعہ کراچی جانا ہوا، سمندر میں نہانے کا شوق چرایا، نہا تو لئے مگر گھر پہنچنے تک سمندری نمک نے مشکل کردی، مجھے علم نہ تھاکہ میزبان کے گھر صاف پانی کی قلت ہوتی ہے وہ پانی خرید کر پیتے اور استعمال کرتے ہیں، خیر ۵ روپے کا پانی کا کنستر (گھی والا خالی ڈبہ) خریدا، کنجوسی سے استعمال کیا اور نمک سے جان چھڑائی، یہ تمہید باندھنے کا مقصد فقط اتنا ہے کہ بسنے والوں کا پانی کا مسئلہ نیا نہیں دہائیوں سے ہے اب تو شاید کہیں زیادہ ہوگا، کیونکہ یقیناََ آبادی بڑھی ہوگی، جو فاروق ستار کا اٹھایا ہوا مسئلہ بھی ہے، جنہوں نے اس شہر پر اتنا عرصہ ہی راج کیا ہے، اور ابھی بھی کررہے ہیں، کل انہی کے علیحدہ ہوئے مصطفی کمال صاحب جو ایک ٹرم تک مئیر کراچی رہے، جنہوں نے K4 کے نام سے پانی کے منصوبے کی بنیاد رکھی، جس کی فزیبلٹی ۲۰۰۸ء میں مکمل ہوئی، اس پر کام ۲۰۱۶ء میں شروع ہوا، یعنی ۸ سال اس منصوبے کا پیپر ورک ہی ہوتا رہا، جو شاید عدم توجہی اور حکمت عملی کے فقدان کی نظر رہا، اب جبکہ اس منصوبے پر کام کا آغاز ہو چکا ہے وفاق اپنے حصہ کی آدھی رقم جوسارے منصوبہ کی کل لاگت ۵، ۲۵ ارب ہے دینے میں لیت و لعل سے کام لے رہی ہے جبکہ کراچی میں گرین ٹرین منصوبے کیلئے ۵ ارب فوراََ جاری کردیئے گئے۔ سوال یہ اٹھتا ہے کیا ان لوگوں کو صرف نمود و نمائش کا چورن دینا ہی مقصود ہے، اس عوام کے بنیادی مسائل کی طرف کوئی قدم نہیں دوسرا اس عوام کا درد اس وقت ہی اٹھتا ہے جب ان پر برا وقت آتا ہے، یہ لوگ کم از کم دس سالہ منصوبہ بندی کیوں نہیں کرتے، عرصہ دراز سے بسے ہوئے شہر کا پینے کے صاف پانی کا مسئلہ کوئی بڑی سائنس نہیں، پاکستان کا دریائے سندھ سمندر میں گرتا ہے اس کے پانی کو کراچی کے باسیوں کو دینے کا سامان کیوں نہیں کرتے، دنیا کے کئی ممالک جو ہیں وہاں کی حکومتوں نے سمندری پانی کو پینے کے قابل بنا کر عوام کیلئے مہیا کیا ہوا ہے، سعودی عرب میں بھی سب شہروں میں سمندری پانیDistillation طریقہ کے ذریعے پینے کیلئے اور عام استعمال کے لئے عوام کو مہیا کیا گیا ہے، تو پھر کراچی جو بھی ہے پانی کی قلت کیسی، جبکہ کراچی کی قلت آب کوئی زیادہ نہیں، صرف ۱۰۵۰ ملین گیلن پانی کی روزانہ ضرورت ہے، اور ۵۵۰ ملین گیلن سپلائی کیا جاتا ہے، اس کمی کو پورا کرنے کیلئےDistillation پلانٹ کیوں نہیں لگائے جا سکتے، جبکہ صاف اور معیاری پانی زندگی کی اشد ضرورت ہے۔
مجھے یاد پڑتا ہے بچپن میں ہمارے گھر میں ہاتھ نلکا ہوتا تھا تقریباََ سبھی گھروں میں یہ سہولت دستیاب ہوتی تھی، یہ الگ بات تھی کی کچھ نلکوں سے کھارا پانی آتا تھا کچھ نلکوں میں میٹھا پانی، گرمیوں میں ٹھنڈا سردیوں میں گرم، جب مرضی نلکا گھیڑلیں پانی وافر، یہ تو لاہورجیسے شہر کی بات ہو رہی ہے دیہاتوں میں کنویں ہوتے تھے اب بھی شاید ہوں، ایک گاؤں کا کنواں میری یادداشت میں ابھی بھی ہے جب صبح صبح قریب کے گھروں کے سب مرد وہاں پر نہاتے تھے، گھروں میں اٹیچ باتھ کا رواج نہ تھا، وہ زمانے خواب ہوگئے ہیں، جب سے واسا نے کنٹرول سنبھالا، اب توجو بھی وہ پلا دیں الحمدللہ، پینے کے پانی میں گٹروں کاملاپانی، اوپر سے اب آرسینک کی مقدار بہت زیادہ ہے تقریباََ سبیو لاہوریے زہریلے ہو گئے ہیں ہر وقت کاٹنے کو دوڑتے ہیں، واٹر لائینز بھی صدیوں پرانی !۔ ابھی تو پینے کے صاف پانی جیسے مسائل نے پاکستان میں سر اٹھایا ہے، تب کیا ہوگا جب ہمارے دریا خشک کر دئیے جائیں گے، جب ہماری زمینیں بنجر ہونا شروع ہونگی، ایتھوپیا کا منظر ہوگا، کیونکہ ہم نے ابھی سے سد باب نہیں کرنا، سندھ طاس معاہدے کے تحت (میری ذاتی رائے میں یہ معاہدہ خود ایک بلنڈر سے کم نہیں تھا)، بیرونی امداد کے تحت پاکستان اور انڈیا نے اپنے اپنے نہری اور ڈیموں کا نظام بنانا تھا، جو انڈیا نے تو کمال مستعدی سے پایہ تکمیل تک پہنچا لیا رہ گیا پاکستان تویہ ابھی تک حکومتی پالیسیوں کی نذر ہی ہے، کافی عرصہ پہلے جب میں منسٹری آف واٹر مدینہ منورہ میں تھا ایک کالم میں پاکستان میں پانی کی موجودہ اور آنے والے وقتوں میں صورت حال پر لکھا تھا اس وقت پانی کی بہتات تھی اور سیلاب بھی بہت آتے تھے، اس وقت دوستوں نے کچھ یو ں کہا تھا کہ دلی ابھی دورہے، شاید میرے جیسے کئی خبطیوں نے اس مسئلے پر لکھا ہو مگر ہم آج کی سوچتے ہیں، کالا باغ ڈیم کا مسئلہ آپ کے سامنے ہے، مجال ہے جو ہم نے واٹرسٹوریج ڈیم بنائے ہوں، سوائے چند ایک کے، حال ہی میں گومل ڈیم جو یو اس ایڈ کی مدد سے مکمل ہوا جس کا بلوچستان کو بہت فائدہ ہو رہا ہے اس کے علاوہ مجال ہے جو ہم نے اپنے نہری نظام کو سرے چڑھایا ہو، مگر ملک کو قرضوں اور اندھیروں میں جکڑ دیا ہے، اور جن منصوبوں کی ضرورت دیر سے تھی وہ پہلے کمال مستعدی سے مکمل کیے جارہے ہیں، مثلاََ مواصلات (سڑکوں)ڈویژن کے ترقیاتی منصوبوں کیلئے مجموعی طور پر ایک کھرب ۶۶ کڑور ۴۵ لاکھ روپے سے زائد فنڈز جاری کردیے ہیں لیکن پینے کے صاف پانی، واٹر سٹوریج ڈیم، ہیلتھ اور، ایجوکیشن کے شعبہ میں سرمایہ کاری نہیں کی گئی، کیونکہ ان منصوبوں سے پاکستان ترقی کر ے گا۔ حکمرانوں کی نااہلی کی وجہ سے انڈیا نے پانی چھیننے کا حربہ استعمال کیا، کیونکہ اسے معلوم ہے پاکستانی احمق بجلی کے منصوبوں کیلئےپانی کی بجائے فرنس آئل کو ترجیح دے رہے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ واٹر مینجمنٹ پر توجہ دی جائے، ساتھ ساتھ ملک میں چھوٹے بڑے ڈیمز تعمیر کیے جائیں، کالا باغ ڈیم کو ترجیحی بنیادوں پر بزور طاقت مکمل کیا جائے چاہے اس کے لیے چند ایک کی قربانی ہی کیوں نہ دینا پڑے، نہری نظام کو بھی پایہ تکمیل تک پہنچانے کی ضرورت ہے تاکہ زمینی واٹر لیول اوپر آئے اور بوتل کے غیر معیاری پانی سے جان چھوٹے، جس کی قیمت ۸۰ اور ۱۰۰ کے آس پاس ہے، آپ کی نظر سے انڈیا کے، واٹر میں یا جل پرش راجند کمار کی کہانی تو گذری ہوگی جس نے ایک تحریک کے ذریعے ساڑھے آٹھ ہزارسے زیادہ جوہڑ، تالاب اور چھوٹے ڈیم بنائے جن سے ایک ہزار سے زیادہ دیہات میں پانی آگیا اور زیر زمین پانی کی سطح بلند ہو گئی، راجستھان کے پانچ دریا جو خشک ہو چکے تھے، دوبارہ رواں ہوگئے، تبدیلی کے لئے حکومتی جدوجہد ہی کافی نہیں عوام کو اپنی مدد آپ کے تحت بھی کچھ کرنا ہوگا، بالخصوص بسی عوام کے امراء قلت آب کے سلسلہ میں مدد گار ثابت ہو سکتے ہیں۔