1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. زاہد اکرام/
  4. تھانیدار

تھانیدار

’’لقدخلقناالانسان فی احسن تقویم‘‘

سبحان اللہ ،اللہ تعالی نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا اور اس کے متعلق فرمایا کہ اس کو جیومیٹری کے احسن اصولوں پر بنایا،اور اس کے اندر جدید سے جدید اور دنیا کا بہترین کمپوٹر سسٹم فٹ کیا جس کو آج کی جدید سائنس بھی نہیں پہنچ سکی ، ایک چِپ chip جسے ’’ضمیر‘‘کہتے ہیں وہ بھی بڑی خوبصورتی سے لگا دی ،جو ایک قسم کی الارمنگ ( گھنٹی ) کا کام کرتی ہے، ہر گناہ یا برے کام پربجتی ہے، روح جتنی پاکیزہ ہوگی ،اتنی تیز گھنٹی کی آواز ہوگی ،میں اسکو کا نام دیتا ہوں،ضمیر بھی کئی قسم کے ہیں ، جیسے با ضمیر ،بے ضمیر،مردہ ضمیر(ضمیر مرحوم) ،ضمیر فروش، (میرے قارئین اردو عربی گرائمر والا ضمیر نہ سمجھیں )، بے ضمیر لوگوں کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جن کا ضمیر مرتا تو نہیں پرکومے میں ہوتا ہے جس پر اگر محنت کی جائے تو امید قوی ہے کہ زندہ کیا جا ئے، ان کی گھنٹی بجتی ہے لیکن وہ بند کردیتے ہیں جیسے صبح نماز کیلئے گھڑی کا الارم بجتا ہے تو اسکو بند کردیا جاتا ہے، جن کے ضمیر مردہ ہو جاتے ہیں انکی گھنٹی نہیں بجتی، ان کا ہی مرحوم ہو جاتا ہے ،جو آجکل ہمارے معاشرے کا حال ہے، لگتا ہے سب کا ضمیر ہی مردہ ہوگیا ہے، کسی گوالے کی گھنٹی ملاوٹ زدہ دودھ ، کیمیکل ملا دودھ بچوں بوڑھوں اور شیر خوار بچوں کو پلاتے ہوئے نہیں بجتی ،قصاب نے بھی اپنی گھنٹی میوٹ Mute پر لگادی ہے پہلے تو یہ ہوتا تھا کہ مریل جانور کا گوشت کھلا دیتے تھے،لوگ واویلا مچاتے تھے تو قصاب بھائی چھپ چھپا کر چھری پھیر ہی دیتے تھے اور شاید بسم اللہ ،اللہ اکبر کا اہتمام بڑے زور و شور سے کرتے ہوں ،ممکن ہے اندر کا ملامت کرتا ہو پھر مریل سے مردہ اور مردہ سے مردار کا سفر کب طے ہوا پتہ ہی نہیں چلا (رات خفیہ والی نے دکھایا کہ لوگ کتے، گدھے کے علاوہ اب سانپ اور کچھوے کا گوشت بھی کھلانا شروع ہوگئے ہیں، ویسے دیکھا جائے توکوئی مضائقہ بھی نہیں ہم باہر والوں کی تقلید تو کرتے ہی ہیں اس میں بھی سہی ) اب تو گھنٹیاں بھی خاموش ہوگئی ہیں ان کیساتھ ساتھ کھانے والوں کی بھی، وہ بھی مری ہوئی مرغیوں کے شوارمے کو بسم اللہ پڑھ کر کھاتے اور سمجھتے ہیں حلال ہوگیا اور اللہ کا شکر ادا کرتے نظر آتے ہیں معاشرے کے مسیحا جس کے ہاتھوں میں لوگوں کی نبض ہوتی ہے وہ بھی ہوس کا شکار ہوگئے ہیں، ان کے ہاتھ مریض کی نبض پر کم اسکی جیب پر زیادہ ہوتے ہیں، ویسے اب نبض کا تو رواج نہیں رہا ،نزلہ زکام میں بھی ۵۰ قسم کے ٹیسٹ ،ایکسرے اور پھر وہی دواساز کمپنی کی کمیشن شدہ دوا کا بڑا سا نسخہ اور فیس ڈاکٹر بھی خوش لیبارٹری والا بھی مزے میں اور دوا ساز کمنی والے کی تو پوچھیں مت دوا کا اثر ہی نہیں اتنی اعلی درجے کی خالص ادویات کہ پچھلے دنوں حکومت نے نیا ڈرگ ایکٹ متعارف کروایا جس پر جعلسازوں کی ہڑتال اور دھرنے، بم بلاسٹ بھی ہوا کیا فرق پڑتا ہے، وہ مضر ہیں کہ اگر عوام نے خالص اور اصلی ادویات کھا لیں تو وہ صحت یاب ہو جائیں گے، ایک دواساز سال میں ۲ دفعہ عمرہ پر آتے ہیں بمعہ فیملی جن کے بقول ’’ گولیوں میں ایک خاص قسم کے پتھر کی پسی ہوئی مٹی پڑتی ہے جو وہ پہلے وہ چائینہ سے منگواتے تھے جو مہنگی پڑتی تھی ان کو اب وہ سرحد سے سستے داموں مل جاتی ہے، دن دوگنی رات چگنی آمدن اب چاہے تو سال میں کئی دفعہ گناہ بخشوانے چلیں آئیں جب حب اندر کی گھنٹی بجے۔ ملاوٹ کرنے والی کی گھنٹی کا علم نہیں شاید اس کو زنگ لگ گیا ہو گا جو بجنے کا نام ہی نہیں لیتی ،حالانکہ میرے نبی ﷺ نے تو کہا تھا ’’کہ ملاوٹ کرنے والا ہم میں سے نہی‘‘، واقعی یہ ہم میں سے ہو ہی نہیں سکتے ، ان کے (ضمیر) شاید مرحوم ہونے کے باوجود رشوت خورہوں ،یہ ملاوٹیے تو مدینہ مکہ میں حاجیوں کو بھی نہیں بخشتے اور ان کوئی نموشی بھی نہیں ہوتی۔ قارئین یہ نہ سمجھیں کہ میں معاشرے کی ان برائیوں کو برا سمجھتا ہوں نا ! نا ! یہ تو ہمارے معاشرے کا حسن ہے جس کو بیان کرنا میرے لئے بھی باعث صد افتخار ہے، یہ تو پاکستان کا طرہ امتیاز ہے جس نے پاکستان کو برائی میں ٹاپ ٹن ( Top Ten) کی صف میں کھڑا کردیا ہے برائی میں۔معاشرے کے سب سے بڑے مرحوم ضمیر تو آجکل کے علماء اور معلم ہیں جن کے ضمیر یا تو سلا دیئے گئے ہیں یا معاشرے کی بے اعتنائی نے بالکل ہی مار دئیے ہیں یہ معاشرے کے وہ افراد ہیں جو ریڑھ کی ہڈی کا ہی نہیں نظام عصبی کا کام کرتے ہیں ، ان کے ضمیر کی موت یا ان کے ضمیر کومے میں چلے جانے کا مطلب ہے معاشرے کی مکمل تباہی،انکا اپنا ہی نیند کی گولی کھا کر لمبی تان کر جب سوجائے گا تو باقی رہے نام اللہ احساس ذمہ داری ختم۔ ایک اور قسم کے افراد بھی اسی معاشرے کا اٹوٹ انگ ہیں ان کے قلم سے نکلے ہوئے فیصلوں سے تقدیریں لکھی جاتی ہیں ،مگر آہ! ان میں باضمیر کم اور بے ضمیر اور ضمیر فروش زیادہ ہیں،ہمارے سرکاری اداروں کے معزز اہلکار، آفیسرز اور بیوروکریٹس پر میں ضمیر کی کونسی دفعہ لگاووں یہ فریضہ میں اپنے قارئین پر چھوڑتا ہوں۔

ہمارے حکمران ضمیر کی تمام اشکال میں آتے ہیںیعنی سب سے بڑھ کر ضمیر فروش ہیں جو خود تو بے ضمیر ہوتے ہی ہیں اور ان کے ضمیر مردہ بھی ہوتے ہیں یہ دوسروں کے ضمیروں کا سودا کرتے ہیں یہ بیچتے خریدتے ہیں،یہ معاشرے کے بڑے خطرناک لوگ ہیں،انہوں نے اپنے وں کو لمبی چھٹی پر بھیجا ہوا ہے ، یہ اللہ کی مخلوق کو تو دھوکہ دیتے ہی ہیں ،اللہ کو بھی نہیں بخشتے، یہ لوگ ایوانوں میں بیھٹتے ہیں اور سیاسی اشرافیہ کہلاتے ہیں،جنہوں نے قوم کی تقدیر اور سیاہ وسفید کے معاملات دیکھنے ہیں ۔

؂حرف اس قوم کا بے سوز عمل زاروزبوں

ہوگیا پختہ عقائد سے تہی جس کا ضمیر


اسلام نے معاشرے کی اصلاح کے بڑے واضح اصول بتلائے تھے جن کی نظیر مغرب میں ہی ملتی ہے، کوئی ملاوٹ نہیں، قانون کی بالا دستی، ادارے مضبوط لیکن ہمارے ہاں کسی با اثر کو ملاوٹ سے روکنے پر نوکری سے سبکدوش ہونا پڑتا ہے ،وہاں انصاف کے ادارے اتنے مضبوط کہ ٹرمپ کو بھی خاطر میں نہیں لاتے اور ہمارے ہاں ایک فون کال پر پانامہ کا فیصلہ محفوظ کر لیا جاتا ہے، ایان علی کو رہا کردیا جاتا ہے۔

ضمیر مغرب ہے تاجرانہ،ضمیر مشرق ہے راہبانہ

وہاں دگر گوں ہے لحظہ لحظہ ،یہاں بدلتا نہیں زمانہ


کتنا رونا روؤں کوئی تو بتلائے اس درد کی دوا کیا ہے!!قوم کے اس کو کیسے جگایا جاوئے!!!