کہتے ہیں میرا یہ پاک وطن دو قومی نظریے کی پاداش میں حاصل کی جانے والی نعمت خداوندی ہے۔ جب پِسے ہوئے برِصغیر کے مسلمانوں کو ہوش آیا تو کانوں کے رونگٹے بھی کھڑے ہوگئے بُدھی میں یہ بات آئی کہ سینکڑوں بُتوں کے پُجاری حلال حرام کی تمیز سے عاری قوم کے ساتھ ہمارا رہنا ناممکن ہے۔ رہن سہن تہزیب و تمدن کی تفریق سے پاکستان کا وجود ممکن ہوا اور یہی ایک مسلم حقیقت تھی کہ دونوں قوموں کیلئے الگ الگ ریاستیں ناگزیر تھیں اور وقت نے یہ ثابت کیا کہ طاقتور بے حِس قوم نے بِہار اور کشمیر میں جو کچھ مسلمانوں کے ساتھ کیا اسکا سدباب علیحدہ ریاست ہی تھی۔
انگریز کی غلط تقسیم کاریوں نے دوقوموں کو ہمیشہ کیلئے ایک دوسرے کا دشمن بنادیا قیام پاکستان سے پہلے صوبائی تقسیم میں ہیر پھیر کرکے ڈیرہ اسماعیل خان کو تخت پشور کے ماتحت کردینا بھی ایک سنگین غلطی تھی۔ صوبہ سرحد کے لوگوں کے ساتھ مخلصانہ تعلقات اور اسلامی بھائی چارے سے ہٹ کر رہن سہن میں فرق نے ہمیشہ ڈیرہ اسماعیل خان کے لوگوں اور باقی ضلعوں کی عوام میں ایک تفریق رکھی اور ایک لسانی تعصب کی فِضا سی بنی رہی جسکی وجہ سے ایک اہم ضلع وہ ترقی نہ کرسکا جتنا اسکا حق تھا۔
جنوبی پنجاب کے رسم و رواج بول چال رکھنے والے سرائیکیوں کو زبردستی کھونٹے سے باندھنے کی اندرونی وجہ یہ تھی کہ ایجنسیوں سے آئے لوگ یہاں مختلف وارداتیں کرتے تھے جنکی وجہ سے انگریز سرکار خود کو یہاں محفوظ نہیں سمجھتا تھا اس سے جان چھڑانے کیلئے دریائے سندھ کو باڑ بناکر اہل ڈیرہ کو تخت پشور کے سپرد کردیا۔ ایسے ہی کچھ اب کی بار نئی حلقہ بندیوں سے قہل پروآ کو تاسیم کیا گیا ہے جس سے ملے جُلے پلان اور سازش کی بو آرہی ہے۔
ڈیرہ اسماعیل خان کی جنوبی سرکل پروآ انتہائی پسماندہ تحصیل ہے جہاں خواندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم لوگ انتہائی ذہنی پسماندگی کا شکار بھی رہے ہیں۔ لاشعوری اور ذہنی پسماندگی کا اندازہ اس بات سے بھی بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ یہ بیچارے آج تک اپنا لوکل نمائندہ اسمبلی تک نہیں پہنچا سکے جو ان کے مسائل پر اعلیٰ مقتدر لوگوں کو آگاہ کر سکے۔ ہمیشہ بیرونی لوگوں پر اعتماد کرکے دھوکہ کھانے والی اس عوام نے اب کی بار خود کے پیروں پر کھڑا ہونے کی کوشش کی ہے۔ تحصیل پروآ کی نظامت پر بیٹھا امتیاز بلوچ ہو یا ضلعی نائب ناظم اسماعیل بلوچ، اس بات کی شہادت ہیں کہ اہلِ پروآ میں بھی دم آگیا ہے۔
اس حلقہ کے کئی لوگوں نے بیک ڈور پالیسی سے پروآ وسیب کو اکھٹا کرنے کی سر توڑ کوششیں کی ہوئی ہیں۔ اس مظلوم عوام کے جاگتے ضمیر کے شادیانے بجنے کی آواز یں مفاد پرست آقاؤں نے بھی سُن لی ہیں۔ وہ بھانپ گئے ہیں ان عزائم کو جو ان کے پنجوں سے اہل پروآ کو آزاد کرنے کے درپئے ہیں۔
حلقہ بندیوں کے نام پر حلقہ پروآ کی عوام کو تفریق کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یونین کونسل کِڑی شموزئی جوکہ کلاچی کا حصہ تھا تو PK98 پروآ میں شامل کیا گیا ہے حالانکہ رہن سہن میل ملاپ بول چال کڑی شموزئی اور کلاچی کے لوگوں کا ایک جیسا ہے جبکہ پیور سرائیکی دیہاتوں کو کلاچی کے حلقہ میں شامل کردیا گیا ہے جن میں حاجی مورہ، رکنو، کھتی، کوٹلہ حبیب وغیرہ شامل ہیں۔ کسی بھی علاقے سے نمائندہ منتخب ہونے کا مقصد ان تمام لوگوں کا ایک سربراہ مقرر ہونا ہوتا ہے جو وہاں کے مسائل کا حل اور تعمیر و ترقی کیلئے کوشاں رہتا ہے۔ پروآ کے لوگوں کو نصیب ہوتا شعور اور اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کی کوششوں نے بیرونی آقاؤں کو حواس باختہ کردیا ہے اور وہ ہر ممکن کوشش میں ہیں کہ پروآ وسیب کے لوگوں کو تقسیم کرکے رکھا جائے تاکہ اپنے ذاتی مفاد ات اور انہی کی گردنوں پر پیر رکھ کر اقتدار حاصل کیا جائے۔
اس طرح کے حالات ست ڈٹ کر مقابلہ کرنے میں ہی پروآ وسیب کی آفیت ہے۔ ہتھیار ڈال کر چُپ بیٹھنے سے بہتر ہے اعلیٰ عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹائے جائیں اور خود کو تقسیم ہونے سے بچایا جائے۔ یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ یہ سب کام صرف اور صرف اپنی شناخت قائم رکھنے کیلئے کئے جائیں ناکہ کسی تعصب میں ہم سب مسلمان اور سچے پاکستانی ہیں ہم سب ایک ہیں لیکن ہم اندر رہ کر صرف اپنی شناخت قائم رکھا چاہتے ہیں۔