1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. آغر ندیم سحر/
  4. حسینہ واجد سے سبق سیکھیں

حسینہ واجد سے سبق سیکھیں

شیخ حسینہ واجد کا پندرہ سالہ اقتدار اپنے اختتام کو پہنچ گیا، جمہوری لبادے میں آمریت کا پرچار کرنے والوں کے عبرت ناک انجام ہر دنیا تاحال ششدر ہے، وہ نظام جو جبر اور فسطائیت پر کھڑا تھا، چند دنوں میں ڈھیر ہوگیا۔ عوام اور نوجوانوں کی طاقت کے ساتھ سامنے بھارت نواز پالیسی بھی دم توڑ گئی اور فوج کی حمایت بھی، سب ملیا میٹ ہوگیا اور آج بنگالی آزادی کا جشن منا رہے ہیں۔

ہمیں موجودہ احتجاج اور تکبر کے زوال کی بجائے ان پہلوؤں پر بات کرنی ہوگی جن کی وجہ سے صورت حال اس قدر خراب ہوئی کہ شیخ حسینہ واجد جو خود کو اس داستان کا لازوال کردار سمجھتی تھی، بھارت بھاگنے پر مجبور ہوگئی، انھیں پریس کانفرنس کرنے کا بھی موقع نہیں ملا، ڈنڈے کے زور پر استعفیٰ لیا گیا اور انھیں خود ساختہ جلاوطنی پر مجبور کر دیا گیا۔

شیخ حسینہ واجد چوتھی مرتبہ حکومت میں آئی تھیں اور یہ طاقت اور عہدہ عوامی امنگوں کے برعکس تھا، حالیہ الیکشن میں انھیں جتوانے کے لیے جس طرح طاقت کا استعمال کیا گیا، اپوزیشن کو اقتدار سے بے دخل رکھنے کے لیے مخالفین کو دیوار سے لگانے کا عمل ایک عرصے سے جاری تھی، بولنے والوں کی زبانیں بند کروائیں گئیں، بیوروکریسی سے لے کر میڈیا اور فوج تک، ہر اس زبان کو بند کروایا گیا جو حسینہ واجد سے جمہوریت کی بحالی کا مطالبہ کر رہا تھا، کئی فوجی افسران غائب کروائے گئے، کئی سیاست دان کو بلاوجہ جیل کی سلاخوں میں رکھا گیا، نوجوانوں کے حق پر ڈاکا مارنے کے لیے ایسی پالیسیاں بنائی گئیں جس سے صرف اشرافیہ اور طاقتور مستفید ہو سکتا تھا۔

عوام کی امنگوں کا بھی خون کیا گیا اور جذبات کا بھی، تعلیمی اداروں سے لے کر نوکر شاہی تک، ایک ایسا نظام چل رہا تھا جس کا انجام یہی ہونا تھا، یہ کچھ نیا نہیں بلکہ اس کے بارے اس وقت بھی لکھا اور بولا جا رہا تھا جب شیخ حسینہ واجد دوسری مرتبہ ذبردستی نظام پر مسلط کی گئیں تھیں۔

تین اداور مکمل کرنے کے بعد بھی اگر حسینہ واجد اپنی ساکھ بحال نہیں کر سکیں اور ایک ایسا نظام متعارف نہ کروا سکیں جو عوامی امنگوں کا ترجمان ہو تو پھر انھیں عزت ستیگھر چلے جانا چاہیے تھا مگر کیا کریں، انسان بہت خود غرض اور لالچی ہے، وہ طاقت کے نشے کو ابدی سمجھ لیتا ہے، یہی بنگالیوں کے ساتھ ہوا۔ 1996ء میں پہلی مرتبہ وزیر اعظم منتخب ہوئیں تو عوام نے جشن منایا مگر انھوں نے اس جشن میں خود کو لازوال سمجھ لیا اور پھر 2009ء سے تاحال، وہ بطور وزیر اعظم اپنی خدمات سرانجام دے رہی تھیں، بھارت نواز پالیسیوں نے ان کے اقتدار کو اس درجہ کمزور کر دیا تھا کہ ان پر سے عوام کا اعتماد بالکل ختم ہو چکا تھا۔

اگر کسی ملک کی ساٹھ فیصد نوجوان نسل، اپنے ملک کے سربراہ، اداروں اور سیاست دانوں سے غیر مطمئن ہو جائے، متنفر ہو جائے اور ان سے چھٹکارے کی خواہش مند ہو تو بتائیں نظام کیسے چل سکتا ہے؟ وہ نظام کیسے چل سکتا ہے جس سے اس کے اپنے لوگ ہی خائف ہوں، حسینہ واجد کے ساتھ بھی یہی ہوا، انھوں نے اپنے دورا اقتدار میں بھارت نواز پالیسیوں سے چھٹکارا پانے کی بجائے انھیں اپنے ملک میں نافذ کیا، فوجی افسران کو صرف اس لیے نوازا کہ اس کا اقتدار چلتا رہے، تعلیمی اداروں پر سفارش مافیا کو مسلط کیا اور نوجوانوں کو حق پر دن دیہاڑے ڈاکا مارا گیا۔

کوٹہ سسٹم کی بحالی کا مقصد صرف اور صرف اشرافیہ کو نوازانا تھا، مہنگائی اور بے بہا ٹیکسوں کے ذریعے غریب عوام کا خون چوسا گیا، لوگوں کے لیے دو وقت کی روٹی مشکل بنا دی گئی، ایسے میں چند نوجوان نکلے، اپنے حق کی بات کی اور پھر دنیا نے دیکھے، کارواں بنتا گیا اور یہ چند لوگوں کا احتجاج ہزاروں اور لاکھوں کی شکل اختیار کر دیا، کوٹا سسٹم کے خاتمے سے بات شروع ہوئی اور وزیر اعظم کے استعفے تک پہنچ گئی۔

ریاست اور نظام، ان کا بنیادی مقصد اور فریضہ اپنے لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنا ہوتا ہے مگر بنگلہ دیش جیسے پس ماندہ ملکوں میں ایسا نہیں ہوتا، یہاں اقتدار میں آنے والے خود کو لازوال سمجھتے ہوئے نظام پر ایسے قابض ہوتے ہیں کہ جانے کا نام نہیں لیتے، وہ خود تو اقتدار کے مزے لیتے ہیں، اپنی نسلوں اور خاندان کے لیے بھی راستہ ہموار کرتے ہیں، انھیں اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ یہ نظام ختم ہو جائے گا، طاقت چھین لی جائے گی، لازوال صرف خدائے لم یزل ہے، باقی سب کو فنا ہے، بنگالی لیڈرشپ نے اس فنا کا مطلب نہیں سمجھا۔ حسینہ واجد کے پندرہ سالہ اقتدار میں جماعت اسلامی سمیت دیگر جماعتوں کے تین سو سے زائد افراد کو پھانسی دی گئی، جیلوں میں پھینکا گیا، ناجائز مقدمات میں پھنسایا گیا مگر اس سب کے باجود جبر اور فسطائیت کا نظام تباہ ہوگیا۔

آپ کچھ دیر کے لیے بنگلہ دیش کے موجودہ حالات کا موازنہ پاکستان سے کریں اور دیکھیں ہم کہاں کھڑے ہیں، ہمارا نظام کہاں کھڑا ہے، ہمارے لوگ کیا چاہتے ہیں، ہمارے نوجوانوں کے مطالبات کیا ہے اور ہم انھیں کس طرح نظرانداز کر رہے ہیں، یہ سوالات مجھے خوف میں مبتلا کر رہے ہیں۔ میرے حکمرانوں اور طاقتور اداروں کو ایک مرتبہ، صرف ایک مرتبہ سوچنا چاہیے کہ کراچی، اسلام آباد اور بلوچستان میں بیٹھے مظاہرین اگر مشتعل ہو گئے تو کیا ہوگا، اپنے حقوق کی جنگ لڑتے میرے نوجوان، اگر آپے سے باہر ہو گئے تو اس نظام کا کیا ہوگا، میرے ملک کا کیا ہوگا؟ ایک مرتبہ، صرف ایک مرتبہ سوچیں اور اس ملک پر رحم کریں، یا تو اقتدار چھوڑ دیں یا پھر شیخ حسینہ واجد سے سبق سیکھیں۔