1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. آغر ندیم سحر/
  4. علم و ادب کے سرپرست

علم و ادب کے سرپرست

محترم عطاء الحق قاسمی ایک عہد ساز کالم نویس ہیں، آپ کی شاعری اور بذلہ سنجی کا ایک زمانہ معترف ہے، درجنوں کتب، لاتعداد ایوارڈز، کئی اہم اداروں کی سربراہی اور سفارت کاری میں گراں قدر خدمات، آپ کسی اجنبی سے بھی ملیں تو ایسے ملتے ہیں جیسے صدیوں پرانی شناسائی ہو، احترام اور محبت دینا کوئی آپ سے سیکھے۔ سینئرز کا احترام تو سبھی کرتے ہیں، کسی کی شخصیت کے ظرف کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب وہ اپنے جونیئرز یا چھوٹوں سے ملتا ہے، قاسمی صاحب ایسے ہی ہیں، شفیق، مہر و محبت کا پیکر۔ میرے قاسمی صاحب سے تعلق کو ایک دہائی بیت چکی ہے، یہ تعلق وقت کے ساتھ ساتھ مضبوط ہوا ہے اور اس کا کریڈٹ بھی جناب قاسمی صاحب کو جاتا ہے، آپ نے مجھے ہر موقع پر سپورٹ کیا، جب جب کوئی مسئلہ درپیش ہوا، آپ نے ایک رہنما کی طرح راستہ دکھایا، بطور سینئر ہمیشہ ایسے مشوروں سے نوازا جو میرے ادبی کیریئر کے لیے بہترین ثابت ہوئے۔

قاسمی صاحب میرے کالموں کے مستقل قاری ہیں، مستقل اس لیے کہ مجھے نہیں یاد کہ کبھی کسی کالم پر ان کا میسج یا فون نہ آیا ہو، یہ ان کا بڑا پن ہے ورنہ میری بساط کیا۔ میرے کئی ایسے کالموں پر بھی شاباش دی جو مکمل سیاسی تھے، شریف برادران سے آپ کی محبت اور وابستگی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے، میں نے درجنوں کالم نون لیگ کی سیاسی و معاشی نااہلیوں اور چالاکیوں پر لکھے، قاسمی صاحب نے ان کالموں پر بھی آج تک مجھ سے نہ شکوہ کیا اور نہ کبھی ناراضی کا اظہار کیا بلکہ اختلاف رائے پر بھی ہمیشہ سنجیدگی اور متانت سے بات کی۔ ہم جب جب ملے، ادبی و سیاسی موضوعات پر کھل کر بات ہوئی، میں ان کے سامنے اپنا نکتہ نظر بیان کرتے ہوئے آج تک نہ ہچکچایا اور نہ ہی خوف محسوس کیا کیوں کہ یہ حوصلہ بھی آپ کا دیا ہوا ہے کہ چاہے ایک لفظ ہی لکھو، پوری دیانت داری اور عمیق نظری سے لکھو۔

قاسمی صاحب نے الحمراء کی چیئرمین شپ اسی شرط پر قبول کی تھی کہ مجھے اپنی مرضی سے کام کرنے دیا جائے اور پھر ہم نے دیکھا کہ انھوں نے الحمراء میں کتنا یادگار کام کیا۔ پاکستان ٹیلی ویژن جوائن کیا تو اس مردہ گھوڑے میں جان ڈال دی اور یوں پاکستان ٹیلی ویژن کا پرانا دور واپس لوٹ آیا تھا، ہم ایک عرصے سے ڈائجسٹ مارکہ ڈرامے بنا رہے تھے، سارا کونٹینٹ بھی باہر سے امپورٹ کر رہے تھے، آپ نے پی ٹی وی کو دوبارہ اپنی تہذیب اور کلچر سے جوڑا اور پرانے ڈراموں کو دوبارہ نشر کروایا، اسٹوڈیوز جو ایک عرصے سے بند ہو چکے تھے، انھیں اوپن کیا، ان پر درجنوں نئے پروگرامز شروع کروائے اور امپورٹ کلچر ختم کیا۔ سفارت کاری کے شعبے میں آئے تو دیارِ غیر میں پاکستانیت کے فروغ کے لیے دن رات محنت کی اور وطن عزیز کا خوبصورت چہرہ دنیا کے سامنے پیش کیا۔

اب حال ہی میں قاسمی صاحب کی کلیات"ملاقاتوں کے بعد" شائع ہوئی ہے، قاسمی صاحب کا شعری سرمایہ بھی نثری سرمائے کی طرح بے تحاشا تھا مگر انھوں نے کبھی اس جانب توجہ نہیں دی تھی، کچھ دوستوں کی فرمائش پر انھوں نے اس کلیات کو چھاپنے کی ہامی بھر لی، یہ ایسی کتاب ہے جس میں کلاسیک و جدید کے کئی رنگ قاری کی توجہ اپنی جانب مبذول کریں گے، یہ صرف شاعری نہیں بلکہ ہماری مٹتی ہوئی تہذیب کا نوحہ ہے، پاکستان کی سستر سالہ تاریخ کو قاسمی صاحب نے اپنی شاعری میں سمو یا ہے۔

کلیات کے ساتھ ساتھ ایک اور اہم کام "معاصر"کی اشاعت نو ہے، یہ ادبی رسالہ کئی دہائیوں تک علم و ادب کے فروغ میں اپنا نمایاں کردار ادا کرتا رہا، اس رسالے کا شمار اردو کے چند بڑے رسائل میں ہوتا ہے۔ قاسمی صاحب نے جہاں بہت ساری محبتیں سمیٹیں، وہاں ایک ایسا طبقہ بھی سامنے آیا جس نے محض بغض اور عناد کی بنیاد پر ان سے اختلاف کیا، یہ اختلاف سراسر ذاتی نوعیت کا تھا یعنی جو عہدے اور شہرت قاسمی صاحب کو ملی، وہ ہمیں کیوں نہیں ملی حالانکہ عزت و ذلت دینا خدا کا کام ہے۔ دوسروں کی پگڑیاں اچھالنے اورہر کامیاب آدمی پر آوازیں کسنے سے عزت نہیں ملا کرتی، سگِ آوارہ جتنا بھی راستہ روکیں، منزل پانے والے منزل پا جاتے ہیں۔

عطاء الحق قاسمی صاحب یا ان جیسے دیگر درجنوں نابغے، جنھوں نے عمر سے کہیں زیادہ کام کیا، ان سے اختلاف کرنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ عزت کام کرنے والے کی ہوتی ہے، ٹانگیں کھینچنے، آوازیں کسنے اور روڑے اٹکانے سے عزت نہیں ملا کرتی، منافقین اور حاسدوں کا کام بے برکت ہو جاتا ہے اور بے برکت آدمی آوازیں کسنے کے سوا کچھ نہیں کر سکتا۔ قاسمی صاحب کا ایک زمانہ معترف ہے اور اس کی سب سے بنیادی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے محبت، عبادت کی طرح کی ہے، اپنے چھوٹوں کے لیے راستے بنائے ہیں، بڑوں سے محبت کا حق ادا کیا ہے۔ جس انسان کے ساتھ اتنی دعائیں ہوں، و ہ کیسے شکست کھا سکتا ہے۔