آؤ اس شہر تمنا میں چلیں
جہاں اداسیوں کا
گمان نہ گزرے
ایسا شہر جس کے
درو دیوار
وصالِ یار کے نغمے
گنگناتے ہوں
جس کی فصیلوں پر
آشنائی کے پرچم لہراتے ہوں
آؤ اس شہر تمنا میں چلیں
جس کے باسیوں کے چہرے پر
ہمیش اک مسکان رہتی ہو
ایسا دیس کہ
جہاں ارمانوں کا خوں نہ ہوتا ہو
جہاں تشنگی بے زبان نہ رہتی ہو
آؤ اس شہر تمنا میں چلیں
جس کے گلیاں کوچے
آشفتہ سری سے بےخبر ہوں
جہاں فرحادوں کی قدر ہوتی ہو
جہاں خزاؤں میں دل نہ روتے ہوں
آؤ اس شہر تمنا میں چلیں
جس میں عشاق کی محفلیں
برپا ہوں دلداروں کی دہلیز پر
یوں باہم گھل مل جائیں کہ
رقابت کی آپسی بو نہ رہے
آؤ اس شہرِ تمنا میں چلیں جہاں
فقط آدمی نہ آدمی سے ملتا ہو
دل بھی مگر دل سے ملتا ہو
جہاں بولنے کی آزادی ہو
جہاں سننے کو لوگ بھی ہوں
جہاں کوئل کوُ کُو کرتی ہو
بلبل گیت چمن کے گاتے ہوں
جہاں تاحدِ نگہہ ہریالی ہو
جہاں سرخ گلاب لہراتے ہوں
آؤ اس شہر تمنا میں چلیں
جہاں پریت شناسی ہوتی ہو
جہاں کم کم ہرجائی ہوتے ہوں
جہاں دل کا لگانا واجب ہو
جہاں لگن لگانا جرم نہ ہو
آؤ اس شہرِ تمنا میں چلیں
جہاں آزادی کے مورت پر
سنگ نہ اچھالے جاتے ہوں
جہاں لہجوں کی کڑواہٹ پر
سر تن سے جدا نہ ہوتے ہوں
آؤ اس شہر میں چلیں ۔۔۔