کچھ دن سے انجانے خوف نے دنیا کو گھیر رکھا ہے۔ ایک وائرس نے تمام نظام زندگی مفلوج کرکے رکھ دیا ہے۔ میرے سمیت بہت سے لوگ اسے انجامِ دنیا تصور میں لاتے ہوئے تھر تھر کانپتے ہیں۔ اس میں جدید ماس میڈیا نے سونے پر سہاگہ والا کام کیا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ آج کے حالات کو دیکھتے ہوئے آپ زندگی سے مایوس ہوگئے ہیں اور ایک نفسیاتی اضطراب کا شکار ہیں تو اس سے پہلے کہ آپ کی زندگی کی شمع اسی سوچ کے زہرِ قاتل سے گل ہوجائے۔ آئیے ایک سو سال پہلے کی دنیا کا مشاہدہ کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ اگر ہم اس دنیا کو ایک قریباً تباہ شدہ کھنڈر سمجھ رہے ہیں تو کیا یہی دنیا سو سال پہلے رہنے کی لائق تھی؟ خوف کے سوداگروں نے روایتی بے حسی کا پھندہ پہنا کر وقت کی صلیب پر آپ کو لٹکانے کا یقیناََ فیصلہ کرلیا ہے۔ آج سے ٹھیک ایک سو برس قبل دنیا تازہ تازہ پہلی جنگِ عظیم کے نرغے سے باہر آئی تھی۔ جرمنی تباہ حال تھا اس کے مستقبل کے کاغذ امریکی ایوانوں میں دھکے کھاتے پھر رہے تھے۔ برطانیہ اور آئرلینڈ کے درمیان جنگ چھڑی ہوئی تھی۔ برطانیہ نے آئر لينڈ کے دو ٹکڑے کردیے تھے۔ ٹھیک سو سال پہلے انہی دنوں دنیا کا اقوام متحدہ کی طرح کا عضو معطل لیگ آف نیشن کی شکل میں وجود میں آیا تھا۔
باقی چھوڑیے آج ایک وائرس سے تباہ حال چین اس وقت بھی ایک 8.5 شدت کے زلزلے سے لگ بھگ دو لاکھ انسانوں کی بلی دے بیٹھا تھا۔ حالیہ دنوں میں مرنے والے چائینز اس کے دو فیصد بھی نہیں۔ گھانسو میں اس زلزلے نے موت کا ایسا رقص برپا کیا کہ ہر طرف خوف ہی خوف تھا۔ آج کا شرارتی روس تب بھی شورشوں اور جنگوں میں گھرا ہوا تھا۔ کہیں فوج کشی چل رہی تھی تو کہیں انقلاب کے جھنڈے سیے جارہے تھے۔
1920 میں ہی ایک سپینش فلو کے نام سے وبا پھوٹی تھی جس نے محتاط اعداد وشمار کے مطابق دنیا کی اس وقت کی آدھی آبادی یعنی ایک ارب لوگوں کو متاثر کیا۔ دیکھا جائے تو ہر دو میں سے ایک آدمی اس کا شکار بنا۔ لگ بھگ دس کروڑ لوگ جان سے گئے۔ وباؤں کی تاریخ میں یہ انسانوں کے لیے سب سے خطرناک ترین وبا تھی۔ اس سے ایک بات تو قطعی طور پر واضح ہے کہ یہ دنیا رہنے کے لئے شاید ہی کبھی آئیڈیل رہی ہو۔ یہ سب جان کر بھی ہم لوگ کیوں جینا چھوڑ چکے ہیں۔ قدرت خود مختار ہے بالکل ایسے کہ جیسے کوئی تین تہائی اکثریت والا حکمران ہو۔ ہماری فریاد، آہ و بکا توجہ تو حاصل کرسکتی ہے۔ مگر قدرت کے فیصلوں پر نظر ثانی کرنا قدرت کا شعار نہیں۔ یہی سوچیں سو سال قبل فلو سے مرنے والے دس کروڑ انسانوں نے کیا کچھ نہ کیا ہوگا؟ مگر ہوتا وہی ہے جو قدرت کی چاہت ہوتی ہے۔ قدرت ایک حد سے زیادہ اپنے کاموں میں انسانی عمل دخل کو اچھا نہیں سمجھتی۔
ہم "CONTAGION" فلم سے جتنے مرضی اندازے لگا لیں۔ چالیس سال قبل لکھے گئے ڈین کونٹز کے ناول "THE EYES OF DARKNESS" سے جو مرضی نتیجے اخذ کرتے رہیں۔ ہم انسان جلد یا بدیر کوئی ویکسین بھی تیار کر لیں گے لیکن ہم ان چیزوں سے مکمل طور پر جان نہیں چھڑا سکتے۔ قدرت نے ابھی تو صرف ایک جھلک دکھائی ہے ماحولیاتی تبدیلی کو لے کر اصل پکچر تو ابھی باقی ہے۔ تو ایسے میں کیا ایک انجانے خوف کی وجہ سے ہم جینا چھوڑ دیں گے؟ قطعاََ نہیں۔ اس بات میں کسی حد تک سچائی کا عنصر موجود ہے کہ یہ سب ایک طے شدہ منصوبے کے تحت ہورہا ہے۔ خوف کی قیمت لگائی جارہی ہے اور یہ بکتا بھی مہنگے داموں ہے۔ خوف دنیا کا ابھی تک استعمال ہونے والا سب سے مہلک ہتھیار ہے۔ جس کے استعمال سے ایک مخصوص طبقہ اپنی جزوی خواہشات کے فانی باغ کی آبیاری کرنا چاہتا ہے۔ ہابیل اور قابیل کی یہ جنگ ازل سے جاری ہے اور ابد تک کسی نہ کسی شکل میں جاری رہے گی۔
مزے کی بات برصغیر کو لے کر یہ ہے کہ ہم سو سال پہلے بھی غلام تھے اور آج سو سالہ ترقی کے بعد بھی ہم غلامی کے گڑھے میں پڑے ہیں۔ بس ہمارے حاکموں کے سفید چہرے زمانے کی لو سے جھلس کر گندمی ہوگئے ہیں۔
ایک چینی فلاسفر Lao Tzu نے بہت پہلے اس بات کا ادراک کیا تھا کہ "دنیا میں خوف سے بڑا کوئی سراب نہیں ہے"۔
یہ انسان کا خود ساختہ جالا ہے جو وہ خود بُنتا ہے۔ احتیاط کو مقدم جانیے گھروں سے باہر مت نکلیے۔ خود کو محفوظ رکھنے کو ہر کام ہر جتن کیجیے مگر خدارا جینا مت چھوڑیے۔ لوگوں کے کے دلوں میں انجانے خوف کو اتنا مت بھریے کہ اس اندھیرے کے چھٹ جانے پر بھی لوگ بینائی ہوئے بھی دیکھنے سے محروم رہیں۔
میری آپ سے آخری گذارش یہ ہے کہ بقول حضرت واصف علی واصف رحمتہ اللہ علیہ آئیے اس چار دن کی زندگی میں زہر گھولنا بند کردیں اور اذیت دینے اور لینے کے اس اذیت ناک عمل سے توبہ کرلیں۔