برصغیر پاک و ہند کے شمال اور چین کے جنوب میں خطہ زمین جس میں جموں، لداخ اور کشمیر ویلی بھارتی مقبوضہ جبکہ آزاد کشمیر بشمول گلگت بلتستان کے پاکستانی ایڈمنسٹریشن میں ہے۔ چین کے پاس اکسائی چن اور ٹرانس قراقرم کا علاقہ ہے۔ یہ خطہ اپنی قدرتی خوبصورتی، وسیع وعریض وادیوں، جھیلوں، دریاؤں، پہاڑوں کی وجہ سے مشہور ہے۔ کشمیر لفظ کی تاریخ پر غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ سنسکرت، قدیم یونانی اصطلاح اور کشمیری زبان میں اس کے معنی پہاڑوں اور جھیلوں کی سرزمین کے ہیں۔ کشمیر کے کل رقبے کا 37 فی صد پاکستان، 43 فی صد بھارت جبکہ 20 فی صد چین کے پاس ہے۔ یہاں کی آبادی کا تناسب دیکھیں تو برٹش انڈیا کی 1941 میں ہونے والی مردم شماری کے مطابق کشمیر میں 77 فی صد مسلم، 20 فی صد ہندو، جبکہ 3 فی صد سکھ، بُدھ اور دیگر اقلیتیں تھیں۔ آزاد کشمیر کی آبادی قریباً چار ملین ہے جو 100 فی صد مسلم اکثریتی ریاست ہے۔ گو کہ اللہ تعالیٰ نے جس جنت کا ذکر اپنے پاک کلام میں کیا ہے۔ اس کی مماثلت دنیوی کسی چیز سے غیر محل ہے۔ لیکن اگر کسی چیز کو تصور میں لانا مقصود ہو تو دنیا میں اس کی نظیر خطہ کشمیر ہے۔ اپنے منفرد، دل آویز موسموں، ثقافت، جغرافیے اور خوبصورتی کے سبب دنیا میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔ جھیلوں، بہتے جھرنوں، دریاؤں کی سرزمین جس کے آبی صدقے پہ خطہ برصغیر زندگی کی ڈگر پر چل رہا ہے۔ مظفر آباد، وادیِ نیلم خواہ آزاد جموں وکشمیر کا کوئی بھی حصہ ہو قدرت نے اسے حسنِ لازوال عطا کیا ہے۔ آزاد کشمیر کے وسطی اور بیشتر شمالی حصے میں موسم گرمیوں میں معتدل اور گرم جبکہ سردیوں میں کڑاکے کی سردی پڑتی ہے۔ برفباری عمومی طور پر دسمبر اور جنوری کے مہینوں میں ہوتی ہے۔ وادی میں بارش موسم سرما اور گرمیوں میں متواتر جاری رہتی ہے۔ گنگا چوٹی، وادی نیلم، شردہ اور ارنگ خیل کا علاقہ سیاحتی اعتبار سے زیادہ مشہور ہے۔
جو وادیاں زیادہ تر مشہور ہیں ان میں بنڈالا، جہلم، نیلم، لیپا، باغ اور سماہنی شامل ہیں۔ جھیلوں میں باغ سر، بنجوسا، گنگا، رتی گلی، سرال، شاؤنتر، سبری جھیل نمایاں ہیں۔ اس کے علاوہ شنگو، نیلم، جہلم، پونچھ دریا بھی وادی کے لازوال حسن کی دلیل ہیں۔
یہی نہیں بھارتی مقبوضہ کشمیر میں وادی کشمیر، وادی پونچھ، وادی چناب، وادی تاوی، اور وادی سندھ سیاحت اور قدرتی حسن و جمال کی تمثیل ہیں۔ اس کے علاوہ مقبوضہ کشمیر کی خوبصورتی میں مغل گارڈنز، سری نگر، گلمرگ، پہل گام، پتنی ٹاپ، جموں اور لداخ کا بھی گہرا عمل دخل ہے۔
جموں کا علاقہ وشنو دیوی مندر کی وجہ سے ہندومت کے ماننے والوں کا ٹھیٹ مقام ہے۔ یہ مقبوضہ وادی کا سب سے زیادہ سیر بازوں سے اٹا ہوا علاقہ ہے۔ لاکھوں سیاح ہر سال یہاں آتے ہیں۔ بھارت چونکہ ہندومت کی پیرو کار واحد اور بڑی ریاست ہے اس لیے یہ تعداد عام سی بات ہے۔ یہ علاقہ اپنے مندروں کی وجہ سے مشہور ہے۔
وادی کشمیر بنیادی طور پر اپنے باغات، جھرنوں اور جھیلوں کی وجہ سے جاذب نظر ہے۔ ساتھ ہی ساتھ جموں کی طرح یہ بھی قدیم مندروں، معبدوں اور صنم خانوں کی وجہ سے جانا جاتا ہے جس میں ہندومت کے ساتھ ساتھ بدھ مت بھی شامل ہیں۔
لداخ جو کہ سرسوتی یا انڈس ریور (دریائے سندھ) کی بنیاد ہے اپنا ایک الگ سیاحتی وجود رکھتا ہے۔
سری نگر کو مقبوضہ وادی کا سمر کیپیٹل بھی کہتے ہیں جو دَل جھیل کے اطراف میں کشتی گھروں پر مشتمل ہے.پاکستان میں ان کو موہاناز کہتے ہیں جو مولانا حسرت موہانی کے نام سے منسوب ہے۔ سندھ کے شہر دادو میں منچھر لیک میں ایک قبیلہ رہتا ہے جو موہانہ کہلاتا ہے۔ موہانہ دریا کے کنارے کو کہتے ہیں۔ اس قبیلے کے لوگ لکڑی کے کشتی نما تیرتے ہوئے گھروں میں رہتے ہیں بالکل اسی نوعیت کے لوگ اٹلی کے شہر وینس میں رہائش پذیر ہیں۔ انگریزی میں جسے "فلوٹنگ ویلج" کہتے ہیں۔
امر ناتھ کا مندر قابلِ ذکر مقامات میں سے ایک ہے۔ جموں وکشمیر کی سرکاری زبان اردو ہے۔ جبکہ وادی کشمیر میں کشمیری، لداخ میں لداخی، اور جموں میں ڈوگری زبان بولی جاتی ہے۔ کشمیر کے حسن و جمال کے مداحوں میں سے ایک شیر شاہ سوری بھی تھے تبھی تو جب اس کا گزر دلکش وادی سون سکیسر سے ہوا تو اس کے منہ سے بے اختیار نکل گیا "ایں بچہ کشمیر است".کہ یہ تو کشمیر کا بچہ یا چھوٹا کشمیر ہے۔
کشمیر تاریخی اعتبار سے مخلتف ادوار سے گزرتا آیا ہے۔ یہاں پورے خطہ کشمیر کی بات ہورہی ہے۔ پہلے پہل یہاں بدھ مت راج تھا جو بعد میں آہستہ آہستہ ہندومت راج میں بدل گیا۔ جس کے باقیات آج بھی وادی میں موجود ہیں۔ تیرہویں صدی عیسوی کے اوائل میں شمس الدین شاہ میر یہاں کا پہلا مسلمان حکمران تھا۔ پھر یہ سلسلہ مغلوں اور افغان حکمرانوں سے چلتا چلتا سکھ مہاراجا رنجیت سنگھ تک آن پہنچا۔ جس نے 1819 میں چار صدیوں پر محیط مسلمان راج پاٹ کو ختم کرکے سکھ سلطنت کی بنیاد رکھی۔ سکھ عمل داری کے زمانے میں ریاستی ٹیکس بے شمار لگائے گئے جس پر کشت کار لوگوں کی کثیر تعداد پنجاب منتقل ہونے پر مجبور ہوگئی۔ اس کے ساتھ ساتھ مسلمان مخالف قوانین جن میں گائے ذبح کرنے پر سزائے موت، اذان پر اور سرِ عام نماز ادا کرنے پر پابندی کے ساتھ ساتھ سری نگر کی جامع مسجد کو بھی بند کردیا گیا۔ کشمیری لوگ جو مسلمانوں کے جاہ و حشمت کے اختتام پر سکھ کا سانس لے رہے تھے اور سکھوں کو مسیحا سمجھ رہے تھے نئی مصیبت میں پھنس گئے۔ کشمیر میں ہر تہذیب کا کچھ کچھ حصہ کسی نہ کسی صورت موجود ہے۔ کشمیری شال دنیا بھر میں جانی جاتی ہے۔
اینگلو سکھ وار جس میں گلاب سنگھ اور برٹش سکار میں معاہدے کے تحت ویسٹ پنجاب جس میں سٹیٹ آف لاہور شامل تھی برٹش عمل داری میں دے دی گئی۔ جبکہ پچھتر لاکھ کے عوض وادی کشمیر جس میں ویسٹ آف راوی اور ایسٹ آف انڈس کے پہاڑی علاقے شامل مہا راجا گلاب سنگھ کے حوالے کردیے گئے۔ جس پر ڈاکٹر علامہ محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے فارسی میں فرمایا کہ "قومے فروختند چے ارزاں فروختند"۔ قوم بیچ دی اور کتنی سستی بیچ دی۔ 1857 کی جنگ میں بھی کشمیر عمل داری نے برٹش اقتدار کا ساتھ دیا۔ 1947 میں تقسیم برصغیر کے وقت رنبیر سنگھ کے پوتے ہری سنگھ کی حکومت تھی۔ شروع شروع میں وہ آزاد کشمیری ریاست کی شدو مد میں مبتلا تھا۔ لیکن قائد اعظم رحمتہ اللہ علیہ کے فرمان کے بعد کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔ اور مسلم اکثریتی علاقے پر بدنیتی سے قابض رہنا نا قابلِ برداشت تھا۔ ریاست کشمیر میں اندرونی طور پر شدید ردعمل سامنے آیا۔ کشمیر کے مسلمان لا محالہ طور پر مسلمان ریاست کے ساتھ شمولیت اختیار کرنا چاہتے تھے۔ مہاراجا اور اس کے چیلوں نے بھارتی رضامندی پر مسلمانوں کا قتلِ عام شروع کردیا جس پر پاکستان کے قبائلی علاقوں کی عوام نے بھی دخل اندازی کی۔ قریباً پورے کشمیر پر کنٹرول حاصل کرنے ہی والے تھے کہ یہ تنازع 27 اکتوبر کو جنگ کی شکل اختیار کر گیا۔ جب نہرو سرکار، ماؤنٹ بیٹن اور مہاراجا ہری سنگھ کے گٹھ جوڑ پر سات لاکھ بھارتی فوج نے ریاست جموں کشمیر پر حملہ کردیا۔ یہ جنگ 48 ء کے اواخر تک جاری رہی۔ عالمی مداخلت کے بعد جنگ بندی پر لائن آف کنٹرول کی بنیاد رکھی گئی۔ جو علاقہ افواجِ پاکستان اور قبائلی علاقہ جات کے غیور عوام کی مداخلت پر آزاد کرایا گیا اس کو گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کا نام دیا گیا۔ اور بقیہ مقبوضہ کشمیر جو آج بھی اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل ہونا باقی ہے۔ ہر سال 27 اکتوبر کو یومِ سیاہ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ جس روز قابض بھارتی فوج نے نہتے کشمیریوں کا قتلِ عام کرنے کے ساتھ ساتھ عزتوں کی عصمت دری کی۔ سفاک بھارت نے جس طرح جوت سروپ وادی کا چہرہ مسخ کیا اس دردندگی کی مثال دنیا میں نہیں ملتی۔ لیکن آج بھی وادی قدرت کا ایک حسین و جمیل شاہکار ہے۔