" آگ لگی بنڑ کھنڈ میں، جلیں اِک بِرج کے پَات." (جنگل میں آگ لگی اور ایک درخت کے پتے جلنے لگ گئے۔) جنگل میں لگی آگ رفتہ رفتہ اس درخت کی طرف بڑھ رہی تھی۔ درخت کی مضبوط شاخوں کے بیچ آشیانہ بنانے والے پرندے کے دل کی دھڑکن بھی تیز ہوتی جارہی تھی۔ اچانک آگ نے درخت کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اب پرندہ آگ کے بلند شعلوں کی حدت کو محسوس کر سکتا تھا۔ اسے درخت اور اپنی بے بسی پہ ترس آ رہا تھا۔ جب آگ ٹہنیوں میں موجود گھونسلے کی جانب بڑھنے لگی تب درخت پرندے کی اس حماقت کو دیکھ کر چیخ اٹھا " تم کیوں جلو او پکھیرو!! پَنکھ تمہارے ساتھ."۔ (اے نادان پرندے تم کیوں جلنا چاہتے ہو. قدرت نے تمہیں پَر لگا رکھے ہیں تو تم اڑ کیوں نہیں جاتے)۔ پرندہ ایک مختصر سی خموشی کے بعد گویا ہوا "میں نے پھل کھایا اِس بِرج کا اور بیچ لواڑے پات" (میں نے اس درخت کا پھل کھایا اور اپنی غلاظت سے اسکی شاخوں کو آلودہ کیا) پنچھی کے اس جواب پر درخت سہم گیا اور جب آخری بار اس نے پرندے کو اڑنے کی تاکید کی تو پرندہ جھٹ سے بولا کہ "یہ تو اپنا دھرم نہیں ہے، میں تو جل مَروں اسی بِرج کیساتھ"۔ (میرا عقیدہ مجھے اس درخت کے ساتھ ہی جل مرنے کا درس دیتا ہے)۔
کشمیری زبان کے اس مکالمے اور کہاوت کو اگر میں ملک پاکستان کی تازہ صورتحال سے جوڑ دوں تو سبق یقیناً واضح ہے۔ میری مراد ملک کے کچھ وہ وائٹ کالر کریمینلز ہیں جو اس قوم کی پائی پائی لوٹ کے کھا گئے۔ کچھ اس پنچھی سے ہی سیکھ لو جو اس بات کا اعتراف کر تا ہے کہ ہاں اس نے ساری زندگی اس شجر کے پھل سے اپنے پیٹ کی بھوک کو مٹایا۔ ہمیشہ اپنی نجاست سے اس کی سرسبز ٹہنیوں کو گندہ کیا۔ لیکن مجال ہے کبھی درخت نے اسے بے گھر کرنے کا اندیشہ بھی پالا ہو۔ یہ پیغام ہے اس ملک کے بیوروکریٹس، سیاستدانوں، جرنیلوں، اور اشرافیہ کے لیے جنہوں نے ساری زندگی ہر موقع پر اس ملک کی خداداد نعمتوں سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ اور بدلے میں اس معاشرے اور ملت کی رگوں میں کرپشن، بدعنوانی، قانون شکنی کا زہر بھر دیا۔ انہی کی کَج کرداری کے سبب لگائی گئی وہ آگ جس نے دہشت گردی، معاشی اور معاشرتی استحصال، سماجی خرافات و تعصب کی شکل میں پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ اب راہِ فرار کے متلاشی ہیں۔ پنچھی کا درخت کو دیا گیا جواب ان لوگوں کے منہ پر طمانچہ ہے۔ ملکی دولت کو ذاتی عیش و آرام کی خاطر پانی کی طرح بہانے والے شائید یہ بھول چکے ہیں کہ ان کا حشر بھی سیف الاسلام قذافی جیسا ہوسکتا ہے۔
اپنے انجام سے بے فکر یہ معاشرے اور ملک و قوم کے مجرم اپنی محفوظ کمین گاہوں کی تلاش میں ہیں۔ کچھ تو اس مقصدِ نامراد میں کامیابی بھی پاچکے ہیں۔ لیکن نجانے کیوں وہ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔ ہر چیز اپنے نقطہ انجام جو بالکل نقطہ آغاز کی مانند ہوتا ہے بجانب سفر کرتی ہے۔ وہ کیوں نہیں سوچتے کہ ان کی زندگیوں کا اختتام بھی کچھ ایسے ہی طریقے سے ہو سکتا ہے۔ یہ آگ محض ایک درخت تک محدود نہیں بلکہ پورے گھر کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے اور سب اس میں جل کر خاکستر ہو سکتے ہیں۔ ہم سب کو مل کر اس آگ کو بجھانا ہوگا۔