خُدا تعالیٰ کی بخشی بے شمار نعمتوں اور رحمتوں میں سے ایک رحمت انسان کا بچپن ہے، میں بچپن کو رحمتوں میں اس لیے بھی شمار کرتا ہوں کیونکہ انسان کی زندگی کا یہ وہ وقت ہے جو اسے ہر دور میں یاد آتاہے اور مسرت بھرے ناقابلِ بیاں احساسات کے ساتھ یاد آتا ہے جیسے ہی ہم کبھی اپنے بچپن کی یادوں میں جاتے ہیں تو ایکدم دنیا کی سب فکروں اور پریشانیوں سے آزاد ہو جاتے ہیں اور اگر بچپن کا زکر ہو تو یہ یادیں ماں باپ کے زکر کے بغیر نامکمل ہیں، بچپن میں حاصل بیشمار نعمتوں میں سے ایک نعمت والدین ہوتے ہیں یقینا والدین اللہ تعالیٰ کی اُن نعمتوں اور رحمتوں میں سے ہیں جن کا کوئی شمار نہیں، میں نے اکشر لوگوں کو بڑھاپے میں اپنے والدین کو یاد کر کے پھوٹ پھوٹ کے روتے دیکھا ہے تو آپ اس بات سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ انسانی زندگی کے بچپن سے بڑھاپے تک کے سفر میں ما ں باپ کی کیا اہمیت رہتی ہے، ہمارے ملک میں لڑکوں کا زیادہ تر بچپن گھر سے باہر گلیوں بازاروں میں گھومتے پھرتے اور لڑکیوں کاگھر میں اپنی ہم عمر لڑکیوں کیساتھ ان ڈور کھیل کھیلتے گزرتا ہے، بارش میں کاغذ کی کشتی، گھر گھر کھیلنا ، گڑیا گڈے کی شادی جیسے کھیل تو آج بھی ہر گلی ہر گھر میں کھیلے جاتے ہیں، ہمارے بچپن میں سکول جانا ایک نہایت ناپسندیدہ کام ہو ا کرتا تھا لیکن آج کل تو پرائیوٹ سکولوں نے بچوں کے لیے اتنی اٹریکشن پیدا کردی ہے کہ بچے کا دل گھر سے زیادہ سکول میں لگتا ہے جہاں نہ صرف اُنھیں کھیلنے کو کھلونے دیے جاتے ہیں بلکہ اور بھی کئی طرح کی ایکٹویٹیز ہیں جو بچے کی صلاحیتوں کو اُجاگر کرنے میں بہت مددگار ثابت ہوتی ہیں۔
میرا بچپن بھی عام لڑکوں کی طرح کرکٹ ، پٹھوگرم، پکڑن پکڑائی ، بتنگ بازی جیسے کھیل کھیلتے گلی محلوں میں گزرا ہے لڑکپن کی کچھ شرارتیں تو ایسی رہی ہیں کہ اگر آج بھی یاد آئیں تو ندامت ہوتی ہے جیسے بے وجہ ہاتھ دے کرگزرتی بس کو روک دینا، ویگن یا بس کے شیشوں پر ٹماٹر یا انڈے مارنا، رات کے اندھیرے میں لوگوں کے گھروں کی ڈور بیل بار بار بجانا اور ایسی بہت سی چیزیں جن میں مزاح کا عنصر تو ہوتا تھا لیکن دوسرے کو پریشانی بھی اُٹھانی پڑتی تھی اور شرارت کے پکڑے جانے کا خوف تو ہمیشہ رہتا ہی تھا بلکل اسی طرح کچھ قصے ایسے بھی ہیں جن کوسوچتے ہوئے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں، ایسا ہی ایک قصہ قارئیں کے ساتھ شےئر کر رہا ہوں،یہ سکول سے گرمیوں کی چھٹیوں کے دن تھے اور ہمارے گھر کے پاس ایک بڑے میدان میں سرکس لگی ہوئی تھی روز شام کو وہاں سرکس دیکھنے والوں کا رش لگا رہتا تھالیکن دوپہر کے وقت میں کافی سناٹا رہتا تھا میر ا گھر چونکہ اُس میدان سے زیادہ دور نہیں تھا تو میں اکثر صبخ اور دوپہر میں وہاں چلا جایا کرتا تھا ایک دوپہر میں نے چھوٹے بھائی کو ساتھ لیا اور کہا چل میں تجھے سرکس کے جانور دکھا کے لاتا ہوں جو وہیں میدان میں سرکس انتظامیہ کے بنائے گئے ایک مصنوعی شیڈ میں موجود رہتے تھے اور دُور سے اُن کو دیکھا جا سکتا تھا، یہ دوپہر کوئی تین بجے کا ٹائم تھا سڑکوں ، بازاروں اور اُس میدان میں ہمیشہ کی طرح سناٹا چھایا تھالیکن ایک عجیب بات اُس دن یہ تھی کے جانورں کے پنچروں کے گرد بنائی گئی کپڑے کی باونڈری کے اندر جانے والا رستہ کھلا تھا اور وہاں کوئی پہرہ دار بھی موجود نہ تھا میں نے موقعہ کو غنیمت جانا اور بھائی کا ہاتھ پکڑ کر اندر گُھس گیا اب میرے سامنے مختلف اقسام کے وہ سارے جانور تھے جو سرکس میں کرتب دکھانے کے لیے استعمال ہوتے تھے اور ظاہر ہے میری سب سے زیادہ اٹریکشن ببر شیر کی طرف تھی سو میں بھائی کے ساتھ سیدھا شیر کے پنجرے کے پاس چلا گیاچڑیا گھر کی طرح وہاں شیر کے پنجرے سے پہلے کوئی باؤنڈری نہیں تھی، پنجرے کا سائز بھی کوئی زیادہ بڑا نہیں تھا، پنچرے کی چھت ڈھکی ہوئی تھی اور ایک اےئر کولر شیر کے پنچرے کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے لگایا گیا تھا اور شیر پنچرے میں سلاخوں کے ساتھ ہی بیٹھا ہوا تھا، میں نے کچھ سوچا نہ سمجھا اور نہ ہی مجھے رتی بھر بھی خوف آیا میں شیر کے پاس گیا اور بیٹھے ہوئے شیر کے پنجرے میں ہاتھ ڈال کر اُسے ہاتھ پھیر کر سہلانا شروع کر دیاشیر جو مجھے اپنی طرف آتا ہوا دیکھ بھی رہا تھا شائد وہ میری اس حرکت کے لیے پہلے سے ہی تیار تھا یا وہ انسانی ہاتھ لگنے کا عادی تھا بہر حال اُس نے کوئی خاص ری ایکشن نہیں کیااور چپ چاپ بیٹھا رہا پھر میں نے چھوٹے بھائی کو گود میں اُٹھا کر اُوپر کیا تاکہ وہ بھی شیر کو ہاتھ لگا سکے میرے بھائی نے بھی پوری شیر دلی کا مظاہرہ کرے ہوئے شیر کے جسم پہ ہاتھ پھیرا ابھی وہ ہاتھ سے اس معصوم سے جانور کو پیار کر ہی رہا تھا کے اتنے میں ایک شخص انتحائی اُونچی اْواز میں چِلاتا ہوا ہماری طرف دوڑتا چلا آیا یہ پہلا لمحہ تھا جب میں اُس انسان کو چلاتے دیکھ کر گھبرایااور شیر سے پچھے ہٹ گیا وہ شخص ہانپتا ہوا میرے پاس پونچا اور انتحائی غصے سے ڈانتے ہوئے بولایہ تم کیا کر ہے تھے اور تمھیں اندر کس نے آنے دیا تمیں عقل نہیں اگر شیر کاٹ لیتا تو؟ اس فرشتہ نما انسان نے ایک ہی سانس میں ساری باتیں کہہ دیں اور اسی طرح ڈانتے ہوئے ہمیں گھر جانے کہ کہا، میں بھی چونکہ گھبرا گیا تھا اور مجھے اپنی غلطی کا احساس ہو گیا تھا تو میں بھی سیدھا گھر آگیا اور یہ بات میں نے کبھی کسی کو نہیں بتائی لیکن قارئین آج بھی جب یہ واقعہ یاد آتا ہے تو بلا شبہ ماں باپ کی دُعاؤں کی اہمیت کا احساس اور زور پکڑ لیتا ہے والدین کی دُعائیں جو ہر انسان کی کل زندگی کا اثاثہ ہوتی ہیں وہ اُن کی موجودگی اور اُن کے جانے کے بعد بھی ہمشہ ہمارے ساتھ رہتی ہیں اور بالکل اسی طرح سے ہر قدم ہر موڑ پر ہماری حفاظت کرتی ہیں ہمارے کام آتی ہیں تو میری تما م پڑھنے والوں سے درخوست ہے کہ جن کے ماں باپ موجود ہیں وہ اُن کی دعائیں لینا اور جن کے والدین دنیا میں نہیں اُن کے لیے دعائے بخشش کرنا کبھی نہ بھولیں۔