ایک خاص عمر ہوتی ہے جب شائد ہر نوجوان کے اندرایک شاعر پیدا ہونے کی کوشش کرتا ہے۔ میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا میں گھر بیٹھے محلے میں یا کالج میں زیادہ تر وقت شاعری لکھنے یا پڑھنے میں گزار رہا تھا۔ کچھ دنوں کی کوشش کے بعد بل آخر میں ایک نظم لکھنے میں کامیاب ہو گیاجس کا عنوان کچھ یوں تھا۔۔۔۔ دل کی آواز یہ دل کی آواز قلم کے سہارے میں کاغذ پر تو لے آیا لیکن اب اصل مسئلہ یہ تھا کہ یہ نظم میں سب سے پہلے کسے سناؤ اور داد حاصل کروں دوستوں کا تو خیر آپ سوچیں بھی نہ اُن کو توشکسپئر کے قول بھی مزاحیہ لگتے تھے میری شاعری اُن کی سمجھ میں آنے سے رہی تھی گھر میں امی ابو طبیعتً کچھ سخت ہوا کرتے تھے تو اتنی ہمت میرے جیسا نوآموز شاعرکر ہی نہیں سکتا تھاکہ اُن کو کچھ سنائے سو باقی بچے بہنیں اور بھائی ہا ں یہ رسک لیا جا سکتا تھاکہ اپنے بہن بھائیوں سے شروعات کی جاتی میں نے سمجھ داری سے کام لیتے ہوئے پہلے اپنے چھوٹے بھائی بہن کو نظم سنانے کا فیصلہ کیا کیونکہ چھوٹوں پہ تو رعب بھی ڈالا جا سکتا تھاکہ وہ نظم کی شان میں کوئی گستاخی نہ کر سکیں۔ خیر میں نے دونوں کو بلایا اور کہا کہ یہ میری لکھی ہوئی نطم سنوجس کا عنوان ہے ۔۔دل کی آواز ۔ میں اتنا بولا ہی تھا کے اچانک ابو کی آواز آئی او... نالائک تجھے کل کہا تھا کہ میرا نیا جوڑا سینے کے لیے درزی کو دے آیئں اور یہ اب تک یہیں پڑا ہے میں نے فورًا مودبانہ جواب دیا کہ ابو کل درزی کی دکان بند تھی وہ کسی فوتگی میں گیا ہوا تھا تو ابو غصے سے دہاڑتے ہوئے بولے گدھے کی اولاد میں نے آج فجر کے وقت مسجد میں درزی سے ملا تھا اُس نے بتایا کے کل آپ کا کوئی سُوٹ سلنے کے لیے نہیں آیا بس پھر کیا میرا جھوٹ پکڑا گیا تھا اب میں گھبرایا گھبرایا اپنے بہن بھائی کو اور وہ مجھے دیکھ رہے تھے میرے دل تو دور منہ سے بھی کوئی آواز نہی نکل رہی تھی اتنے میں دروازے کی گھنٹی بجی بھلا ہو ابو کے دوست کا جنھوں نے عین موقعہ پر پہنچ کر میری جان بچائی میں نے بھی مو قع کو غنیمت جانا اور چپ کر کے گھر سے نکل کھڑا ہوااس دفعہ میں ابو کا جوڑا گھر نہیں بھولا تھا ٖجوڑا لے کے میں سیدھا درزی کی دکان میں داخل ہواسلام کیا تو اُس نے مجھے کھا جانے والی نظروں سے دیکھا میں نے پوچھا چچا ایسے کیا دیکھ رہے ہوتو وہ بولے کل میرے کس رشتے دار کو مار ا تھا تم نے؟ میں نے برجستہ جواب دیا چچا جوانی میں آپ نے بھی تو سکول میں اپنے رشتے داروں کو کئی کئی دفعہ فوت کیا ہو گا اگر میں نے کسی مرے ہؤے کو مارا تو کیا برا کیا میری یہ بات سن کہ اُنہوں نے فورًا کہا تمھارے ابوتمھارے بارے میں صحیح کہہ رہے تھے میں نے حیرانگی سے پوچھا کیا کہ رہے تھے تووہ بولے ( نالائق، گدھا ) بس میرے وہاں سے جانے کے لیے اتنا کافی تھا میں نے نظریں جھکا کے اُن کو سلام کیا اور پھر پلٹ کے نہیں دیکھا۔
خیر میرا تجسُس میرا شوق ابھی وہیں تھا یعنی سارے دن کی بے عزتی کے باوجود میں اپنی شاعری کسی کو نہیں سنا سکا تھا اچانک میرے ذہن میں انٹرنٹ پہ شاعری پوسٹ کرنے کا خیال آیاکیونکہ کئی ایسی ویب سائٹس میں جانتا تھا جو نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افذائی کرتے ہیں سو فورًا گھر جا کر کمپیوٹر آن کیا اور ایک ویب سائٹ پر اپنی نظم بھیج دی اب اگلے دن کا انتظار تھا کیونکہ کوئی بھی جواب اگلے دن ہی متوقع تھا اگلی صبح میں کالج سے سیدھا گھر آیا اور کمپیوٹر پے اپنی ای۔میل دیکھنے لگااُسی ویب سائٹ کی ایک ای۔میل دیکھ کر میرے دل کی دھڑکنیں تیز ہو گئیں جلدی سے ای۔میل اوپن کی تاکہ پتا چل سکے میری نظم اُن کو کیسی لگی ای۔ میل میں جو جواب آیا تھا وہ اپنے پڑھنے والوں کی خدمت میں آدھاجواب ہی کاپی پیسٹ کر رہا ہوں
ڈیئر آلموسٹ شاعر صاحب
آپ کے دل کی آواز ہم تک پہنچی کاش ہم بھی آپ تک پہنچ سکتے۔ آپ کو یہ جان کر خوشی ہو گئی کہ میں اور میری تمام ٹیم اپنی ساری توجہ اور کوشش کے باوجودیہ سمجھنے سے قاصر رہے کہ آپ کی اصل پریشانی کیا ہے جسکی وجہ سے یہ نوبت آئی کے آپ کو ہمیں ای۔میل کرنے کی زحمت اُٹھانا پڑی۔ میں یہاں خوشی لفظ کا استعمال اس لیے کر رہا ہوں کیونکہ یہ بھی تو ایک کامیابی ہی ہے کہ کوئی آپ کی تحریر سمجھ ہی نہ پائے یعنی یہ صاف اشارہ ہے کہ آپ کے اندرایک کمال درجے کا سسپنس رائٹر موجود ہے باقی جہاں تک بات رہی آپ کی شیر والی شاعری کی تو اُس پریشانی کے لیے ہم آپ کو روحانی علاج کا مشورہ دیتے ہیں کیونکہ اپنی ای۔میل میں آپ کچھ محبت کا زکر کرتے پائے گئے ہیں توچونکہ اس محبت نامی بیماری کا علاج ڈاکٹرز یا حکیموں کے پاس تو ہے نہیں اسلئے آپ کو کسی پیر صاحب سے ہی رابطہ کرنا پڑے گا۔
بس اس سے آگے میری ای۔میل پڑنے کی ہمت نہ ہوئی اور غصے میں ای۔میل ڈیلیٹ کرنے کے بعد میں نے سوچا کہ اپنا ای۔میل اکاؤنٹ بھی ڈیلیٹ کر دوں اور شاعری سے توبہ کر لوں لیکن پھر اچانک میری نظر اگلی ای۔میل پہ جم کے رہ گئی جسکا عنوان تھا تین دن میں سٹوری رائٹر بنئے۔