اگرچہ اَدب کی تاریخ میں زیادہ تر ادیبوں، شاعروں اور اُن کی کِتابوں ہی کا ذِکر ہوتا ہے۔ تاریخی حالات، تعلیم، کِتابوں کی اشاعت کے طریقے، رسائل اور اخبارات، ادبی انجمنیں، مُشاعرے، کانفرنسیں، دوسری زبانوں سے تعلّقات وغیرہ۔ اگر اِن تمام باتوں پر دھیان رکھا جائے تو کِسی اَدب کی رفتار اچھّی طرح سمجھ میں آ سکتی ہے کیونکہ اُنہیں ذریعوں سے ادیب اور شاعر عام لوگوں سے ربط اور تعلّق پیدا کرتے ہیں۔
اُردو کی اِس مختصر کہانی میں جہاں جہاں ضرورت تھی ایسے تاریخی حالات دے دیے گئے ہیں جِن سے باتوں کے سمجھنے میں آسانی ہو سکتی تھی، لیکن ایسی دوسری باتوں کا ذِکر بہت کم ہوا ہے۔ جن سے زبان اور ادب کی ترقّی میں مدد مِلتی ہے۔ جب ہندوستان میں اُردو کا اچھّی طرح رواج ہوا، اُس وقت زیادہ تر تعلیم فارسی کے ذریعہ سے دی جاتی تھی، کچھ لوگ عربی بھی پڑھتے تھے مگر جو عالم ہوتے تھے وہ سَنسکرت اور ہندوستان کی دوسری زبانیں بھی جانتے تھے۔
چنانچہ سکندؔر لودی اور شہنشاہ اکبرؔ کے زمانے میں سرکاری نوکری حاصل کرنے کے لیے فارسی کا جاننا ضروری قرار دیا گیا۔ یہ حالت بہت دِنوں تک قائم رہی۔ جب انگریزوں کا دَور دورہ ہوا تو بھی فارسی ہی سرکاری زبان رہی مگر زیادہ تر لوگ فارسی نہیں جانتے تھے، اِس لیے 1834 میں اُردو کو سرکاری زبان بنا دیا گیا اور عدالت وغیرہ کا کام اُردو میں ہونے لگا کئی جگہ اُردو ہی ذریعہ تعلیم بھی بنا دیِ گئی۔ اِس حالات کو زیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ ہندی اُردو کا جھگڑا شروع ہوگیا اور اِسکولوں اور کالجوں میں دونوں زبانوں کا انتظام کیا گیا۔
اعلیٰ تعلیم کے لیے بھی عثمانیہ یونیورسٹی (حیدرآباد دکن) نے اُردو کو مُنتخب کیا اور اُس میں سیکڑوں اعلیٰ پائے کی کِتابیں دَرسی ضروریات کے لیے لِکھی اور مرتّب کی گئیں۔ اُس وقت صُورت حال یہ ہے کہ ابتدائی تعلیم میں بھی اُردو کو ذریعہ تعلیم بنانے میں دُشواریاں ہیں، اعلیٰ تعلیم کی بات تو الگ۔ اُردو اگرچہ ہندوستان کی قومی زبانوں میں سے ایک ہے لیکن چونکہ اس وقت تک اس کے لیے کوئی ایسا علاقہ متعّین نہیں کیا گیا جہاں وہ واقعی بولی اور سمجھی جاتی ہے، اِس لیے اُردو سے مُحبّت کرنے والوں اور اُسے اپنی مادری زبان سمجھنے والوں کو دُشواریاں پیش آ رہی ہیں۔
اٹھارھویں صدی کے آخری زمانے سے ہندوستان میں پریس قائم ہوئے جِن میں کِتابیں ٹائپ میں چھپتی تھیں، پھر پریسوں کی تعداد بڑھی اور 1832 کے بعد سے زیادہ سے زیادہ کِتابیں چھپنے لگیں۔ کِتابوں کا چھپنا، بکنا اور زندگی کی ضرورت بن جانا ادب کی ترقّی میں مدد دیتا ہے اور اُس کی اشاعت ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر نول کشور پریس کو دیکھنا چاہیے جس نے 1820 سے اُس وقت تک اُردو کی ہزار ہا کِتابیں شائع کی ہیں۔ یہ تو ایک مثال ہے، دوسرے پریس بھی اُردو ادب کی اشاعت کرتے تھے اور کر رہے ہیں۔
1832 سے اخبارات کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ چنانچہ دِلّی اخبار، سیدؔ الاخبار شروع کے اخبارات میں سے ہیں۔ اُس کے بعد اُردو میں بہت سے مشہور اخبارات نِکلے۔ مثلاً اوَدھ اخبار، الہلال، ہمدم، ہمدرد، مدینہ، الجمعیۃ، سرفرار، زمیندار، انقلاب، خلافت، پرتاپ، تیج، ملاپ، ہند، پیام، امروز، قومی آواز، دعوت، سیاست وغیرہ۔ اِسی طرح رسائل نے بھی اُردو ادب کو مالا مال، نئے نئے لکھنے والے اُنہیں رسائل کے ذریعے میدان میں آئے۔
بحثیں ہوئیں، تحریکیں چلیں، نئے تجربے کیے گئے اور جو کچھ اُن میں لِکھا گیا وہی ادب کا جزو بن گیا۔ چند مشہور رسالوں کے نام یہ ہیں۔ مخزن، نقاد، صلائے عام، العصر، ادیب، زمانہ، مرقع، الناظر، اُردو، اُردو ادب، ادب لطیف، نقوش، ادبی دُنیا، ہمایوں، نوائے وقت، معارف، ادب، نیا ادب، شاہراہ، ساقی، افکار، معاصر، شاعر، نگار، صبا، آج کل، سب رس اور نیا دور وغیرہ اِن میں بعض بند ہو چکے ہیں بعض آج بھی نِکل رہے ہیں۔
ادبی انجمنوں اور ادبی اِداروں کے ذریعہ ادب کی جو خدمت ہوتی ہے وہ بھی قابلِ غور ہے، قدیم زمانہ میں یہ رشتہ اُستادی اور شاگردی اور شاگردوں کے گروہ کے ذریعے مستحکم ہوتا تھا۔ اور مُشاعرے ادبی انجمن کا کام دیتے تھے، وہیں اصلاح و تنقید کا کام ہوتا تھا۔ مشاعروں کا پتہ بہت قدیم زمانے سے چلتا ہے، یہ مُشاعرے بڑے اہتمام سے کیے جاتے تھے، بعد میں اِن کا زور اِتنا بڑھا کہ ہر کالج، یونیورسٹی اور اسکول کی جانب سے سالانہ مُشاعرے منعقد کیے جانے لگے۔
اُن کو ایسی ہر دِل عزیزی حاصل ہوئی کہ شہروں کے علاوہ قصبوں اور دیہاتوں میں بھی مُشاعرے ہوتے تھے۔ اور اِس طرح اُردو زبان اور شاعری کا پیام دُور دُور پہنچتا تھا۔ مشاعروں کے علاوہ ادبی کانفرنسوں کا رواج بھی عام ہوا۔ جِن میں زبان ادب کے مسائل پر غور و خوض کے لیے اہلِ عِلم اکٹھّا ہوتے، وہاں کی بحثیں اور فیصلے اُردو زبان اور ادب کی تاریخ پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ کیونکہ اُن کا اثر لکھنے والوں کے خیالات پر پڑتا ہے اور پڑھنے والے وقت کی ضرورتوں اور مسئلوں سے متاثر ہوتے ہیں۔
اُردو زبان کی ابتدا ہوئی اُس وقت اُس پر ایک طرف ہندوستان کی زبانوں کا اثر تھا دوسری طرف فارسی اور عربی کا۔ حالات ایسے تھے کہ فارسی کا اثر زیادہ ہوا۔ اِس لیے جو ترجمے ہوئے وہ فارسی ہی سے ہوئے، کبھی کبھی یہاں کی دوسری زبانوں سے بھی فائدہ اُٹھایا گیا۔ لیکن جب انگریزی کا اثر بڑھا تو انگریزی سے ترجمے کیے جانے لگے۔ انگریزی ہی کے ذریعے سے فرانسیسی، جرمن، چینی، رُوسی، اطالوی اور دوسری زبانوں کی کِتابوں کے ترجمے کیے گئے، اِن ترجموں میں صرف عِلمی کِتابیں شامِل نہیں تھیں بلکہ ناول، ڈرامے، افسانے اور نظمیں بھی ترجمہ کی گئیں۔
ترجموں کے علاوہ یہ بھی ہوا کہ یورپ کی ادبی تحریکوں، لکھنے کے ڈھنگ اور خیالات کا اثر بھی قبول کیا گیا۔ خود ہندوستان میں بہت سی زبانیں ہیں جِن کا ادب بہت ترقّی یافتہ ہے۔ اُردو کے ادیبوں نے اُن سے بھی فائدہ اُٹھایا ہے اب اُردو پڑھنے والے سرت چندؔر چٹرجی، بنکم چندؔر، ٹیگوؔر، نذؔرالاسلام کے بنگالی کارناموں سے کِسی نہ کِسی قدر واقف ہیں، کچھ ترجمے ہندی، گجراتی، مراٹھی وغیرہ سے بھی ہوئے ہیں، تاریخ ادب پڑھنے والے کو اِن تمام باتوں پر نظر رکھنا چاہیے تاکہ وہ ترقّی کے ہر پہلو سے واقف ہو سکے۔
دُنیا کا کوئی ادب الگ تھلک رہ کر ترقّی نہیں کر سکتا، اثر لینا اور اثر ڈالنا دونوں باتیں فطری ہیں، اُن سے ادب کو نقصان نہیں پہنچتا ہے۔ اُردو زبان و ادب کی تاریخ سے دِلچسپی لینے والا، جب اِس کہانی کو ختم کرنے لگے گا تو فطرتاً اُس کے دِل میں یہ سوال پیدا ہوگا کہ مستقبل میں اِس زبان اور اُس کے ادب کی کیا حیثیت ہوگی، ملک کی ترقّی اور تعمیر میں اُس کی کیا جگہ ہوگی؟ اِس سوال کے پیدا ہونے کی وجہ یہ ہے کہ کچھ دِنوں سے اُردو کی مُخالفت نے ایسی شکل اختیار کر لی ہے جس سے اُس کی زندگی ہی خطرے میں نظر آتی ہے۔
کچھ لوگ اُس کو بدیسی زبان کہتے ہیں، کچھ کہتے ہیں اُس کی کوئی الگ حیثیت نہیں، یہ صرف ہندی کا ایک رُوپ ہے، کچھ کہتے ہیں اُس نے ملک کی کوئی خدمت نہیں کی بلکہ مُختلف مذہب کے لوگوں کو ایک دوسرے سے دُور کیا، کچھ اُسے مسلمانوں کی زبان قرار دیتے ہیں، کچھ اُس کو دیش سے نکال دینا چاہتے ہیں اور کچھ اُس کی خوبیوں کے قائل ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اُس کو بھی ہندوستان کی دوسری زبانوں کی طرح جینے کا حق حاصل ہے۔
اُردو ہندوستان ہی کی زبان ہے، یہ صرف مسلمانوں کی زبان نہیں ہے اُس نے ہندوستان کی تہذیبی زندگی کی تصویریں بڑی خوبی سے پیش کی ہیں، اُس نے اتحاد، امن اور انسانوں سے مُحبّت کا سبق سِکھایا ہے، اُس نے ہندوستان کی جنگِ آزادی میں ایک سپاہی کی طرح حِصّہ لیا ہے، اُس کے پاس بڑا ادبی خزانہ ہے، اُس نے دوسری زبانوں اور اُن کے ادب سے فائدہ اُٹھایا ہے اِس لیے اُس پر جو الزام لگائے جاتے ہیں اور جو اعتراض کیے جاتے ہیں وہ سب غلط ہیں۔
اُردو سے مُحبّت کرنے والوں کا فرض ہے کہ وہ اس کی ان تمام خوبیوں کو برقرار رکھیں بلکہ اس میں اضافہ کریں، اس میں ایسا ادب پیدا کریں جو قومی زندگی کو بنانے میں مدد کرے، پریم، امن اور بھائی چارے کا سبق دے، ہر پھُول سے رَس چوسے، ہر زبان سے فائدہ اُٹھائے اور ہر دِل میں اپنی مِٹھاس اور خوشبو سے گھر بنائے۔ اُردو کہانی کتاب سے اقتباس۔