ورلڈ ہارٹ فیڈریشن کے زیرِ اہتمام ہر سال دُنیا بھر میں 29 ستمبر کو ’’عالمی یومِ قلب‘‘ منایا جاتا ہے۔ اس دن کے منانے کا مقصد عوام الناس کو ایسی مہلک بیماریوں کی وجوہات آگاہی اور احتیاطی تدابیر سے روشناس کروانا ہے۔ 1900ء سے قبل امراضِ قلب نہ ہونے کے برابر تھے غربت و افلاس کے مسائل بڑھے تو اس سے انسانوں کی پریشانیوں میں بھی بے حد اضافہ ہو گیا۔ اس پریشانی، ذہنی دباؤ نے خون کی نالیوں کو سکیڑنا اور کلیسٹرول کو بڑھانا شروع کیا تو نتیجہ بلڈ پریشر، شوگر، ذیابیطس اور ہارٹ اٹیک کی صورت میں سامنے آیا۔ ایک اندازے کے مطابق دُنیا بھر میں عارضہِ قلب میں مبتلا افراد کی تعداد 17.5 ملین ہے۔ عالمی ادارہِ صحت کی جاری کردہ رپورٹ میں یہ خدشہ بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ اگر امراض قلب میں اسی رفتار سے اضافہ ہوتا رہا تو یہ تعداد 2030 تک 17.5 سے بڑھ کر 23.6 ملین تک پہنچ جائے گی۔ امراضِ قلب کو دُنیا بھر میں ہونے والی اموات کی سب سے بڑی وجہ قرار دیا جاتا ہے۔ چونکہ35 فیصد اموات کی وجہ امراضِ دل ہے۔ جنوبی و جنوب مشرقی ایشیاء خصوصاً زیادہ آبادی والے ممالک جن میں پاکستان بھی شامل ہے امراض قلب کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان میں امراضِ قلب کے مریضوں میں 3 سالوں میں 100 فیصد اضافہ چکا ہے جو غیر معمولی ہے۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ وطنِ عزیز میں ہر سال 2 لاکھ افراد امراضِ قلب کے باعث زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔ پاکستان کا شمار دُنیا کے ان 10 ممالک میں ہوتا ہے جہاں امراضِ قلب کے مریض سب سے زیادہ پائے جاتے ہیں۔ 80 فیصد دل کی بیماریاں ترقی پذیر ممالک میں پائی جاتی ہیں اس میں بھی پاکستان سر فہرست ہے۔ امراضِ قلب کے ہسپتالوں میں یومیہ 3 ہزار دل کے مریض رپورٹ ہو رہے ہیں۔ امریکہ میں ہر چوتھی اور پاکستان میں ہر تیسری موت دل کی بیماری کی وجہ سے ہو رہی ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان میں آج پیدا ہونے والے ایک تہائی بچوں کو مستقبل میں امراضِ قلب کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ وطن میں ہر سال اوسطاً 40 سے 50 لاکھ بچے پیدا ہوتے ہیں جن میں سے 40 سے 50 ہزار امراض قلب کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں۔ آبادی کے تناسب سے چین، بھارت، پاکستان میں دل کے نقص کے ساتھ پیدا ہونے والے بچوں کی تعداد دُنیا میں سب سے زیادہ ہے اور اس میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ نئی دہلی میں 1100 افراد پر ریسرچ جن کی عمر یں 29 سال تھی اور ان میں سے 50 فیصد کی کمر کے ارد گرد موٹاپے کے اثرات نمایاں تھے۔ سات سال بعد یہ علامت 70 فیصد نوجوانوں میں پائی گئی۔ جب کہ ان نوجوانوں میں بلڈ پر یشر کی شرح 11 فیصد سے بڑھ کر 34 اور خواتین میں 5 فیصد سے بڑھ کر 12 فیصد ہو گئی اور پھر ان نوجوانوں میں زیابیطس کا مرض 5 سے بڑھ کر 12 فیصد ہو گیا جبکہ خواتین میں 3.5 سے بڑھ کر 7 فیصد ہو گیا۔ 2010 میں ایک ملین سے زائد آبادی والے ملک بھارت میں دُنیا کے مریضوں کی کُل تعداد کا 60 فیصد پایا جاتا تھا۔ اس سلسلہ میں تحقیق میں انکشاف کیا گیا کہ بھارت اور جنوبی ایشیاء کے دیگر ممالک میں امراضِ دل کی بیماری تقریباً 53 برس کی عمر میں رونما ہوتی ہے۔ جبکہ دوسرے ممالک میں یہ مرض اوسطاً 59 سال کی عمر میں جنم لیتا ہے۔ وطن عزیز میں بھی دل کا دورہ پڑنے والوں کی عمریں اوسطاً 40 سے 60 سال کے درمیان ہے جن میں سے 30 فیصد افراد ہسپتالوں تک پہنچ سکتے ہیں اور 70 فیصد افراد موقع پر یا دوران سفر زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔ جبکہ سالانہ ایک لاکھ افراد ہارٹ اٹیک کے باعث موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں۔ جنوبی ایشیاء میں امراض قلب کی اموات میں ہمارا وطن سرفہرست ہے۔ پاکستان میں ناقص غذا کے باعث امراض قلب تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ گزشتہ چند سالوں میں ایشیائی ممالک میں امراض قلب میں بہت تیزی سے اضافہ ہوا ہے جن میں سے مردوں میں 103 فیصد، جبکہ خواتین میں 90 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس وقت 35 فیصد اموات کی وجہ امراضِ قلب ہے۔ عالمی ادارہِ صحت کے مطابق دُنیا میں ایک ارب کے قریب افراد موٹاپے کا شکار ہیں۔ ان میں 18 ملین افراد کی عمر 5 سال سے کم ہے جب کہ 60 فیصد ورزش نہیں کرتے۔ اس وقت ہارٹ اٹیک کے حوالہ سے اوسطاً عمر 53 سال ہے۔ پاکستان میں موٹاپے کی شرح 76.2 فیصد ہے۔ یعنی ہر تیسرا فرد موٹاپے کا شکار ہے۔ اور پھر امراض قلب میں جو سب سے اہم بات ہے وہ کولیسٹرول ہے وطن میں اس کی شرح دیکھی جائے تو یہ ایک تشویشناک امر ہے پاکستانیوں میں کولیسٹرول مقررہ حد سے93 فیصد متجاوز ہو چکی۔ ایک رپورٹ کے مطابق تقریباً 40 فیصد مریض آگہی کے فقدان سے اس مہلک مرض میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ یہ مرض جہاں فاسٹ فوڈ، ماحولیاتی آلودگی، پریشانی، تمباکو نوشی کے باعث زیادہ پھیلا رہا ہے۔ علاوہ ازیں مختلف تحقیقات سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ جہاں امراض قلب غیر معیاری خوراک، الکوحل، منشیات سے بڑھتی ہیں وہاں ہی انسانوں کی ایک بڑی آبادی جذباتی عدم توازن، بے چینی اور تشویش کا شکار ہے جو ہارٹ اٹیک کا سبب بنتی ہیں۔ ڈاکٹروں مشترکہ یہ رائے ہے کہ دل کے دورہ کے زیادہ تر شکار مریضوں کی عمریں19 سے 23 سال تک کی ہیں۔ تحقیق سے یہ بات ظاہر ہوئی ہے کہ وطن عزیز میں ایک طرف تو سگریٹ نوشی کم ہونے کے نوجوانوں میں عام ہو گئی ساتھ ہی کمپیوٹر، ٹیلی ویژن، کھیلوں کے گیجٹس کے سامنے رات بھر بیٹھے رہنے،سوشیل میڈیا کا مسلسل استعمال نوجوان نسل کو ذہنی دباؤسے دوچار کر رہا ہے جس کے بعد حرکت قلب کا بند ہونا، بلڈ پریشر کا کنٹرول میں نہ رہنا جیسی جان لیوا بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ وطن عزیز کے شہروں میں کئی امراض قلب کے ہسپتال کام کر رہے ہیں جس سے بروقت علاج، انجؤ گرافی، انجیؤ پلاسٹی، سٹنٹ، بائی پاس کیا جا تا ہے جس کے باعث کئی انسانی جانیں لقمہ اجل بننے سے بچائی جا سکتی ہیں۔ لیکن کئی دیہاتوں میں جن میں آزاد کشمیر بھی شامل ہے امراضِ قلب کا کوئی ادارہ موجود نہ ہونے سے کئی مریض بروقت علاج نہ ہونے کے باعث دم توڑ جاتے ہیں۔
آج کے دن کا یہ پیغام بھی ہے کہ اپنی طرزِ زیست تبدیل کریں فرمان مصطفی ﷺ کے مطابق کچھ بھوک معدے میں رکھ کر کھانا کھائیں۔ ورزش، سادہ خوراک، الیکڑانک اشیاء کا درست استعمال، تمباکو نوشی سے پر ہیز سے ہم ایک بھر پور و صحت مند زندگی گزار سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ بذریعہ میڈیا عوام میں ایسی بیماریوں کے حوالہ سے آگاہی مہم کا اہتمام بھی ضروری ہے۔ کیونکہ صحت مند معاشرہ ہی ترقی کا ضامن ہے۔ ایسے میں ہمیں آج کے دن مخلتف تقریبات، تحریروں، سیمنیار منعقد کرنے چاہیں کیونکہ امراضِ قلب کا سبب بننے والی وجوہات کو ختم کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔