انسانی سمگلنگ سے مرا دکسی شخص کو جبری مشقت، جبری شادی، جنسی استحصال، گھریلو خدمت، مندر میں پوجا کرنے، یا اس کے جسمانی اعضاء جسم سے کاٹ کر فروخت کرنے یا کوئی ایسا کام جس کو وہ آزاد رضا مندی سے کرنے کے لئے تیار نہ ہو کرنے پر مجبور کرنے کے لئے طاقت کے استعمال، جھوٹ، فراڈ، دھوکہ، جبر، لالچ یا خوف کے تحت اس کی مرضی حاصل کرنا، لیا جاتا ہے۔ اس میں تمام عمر کے مرد، عورتیں، بچے اور مخنث شامل ہیں۔ انسانی سمگلنگ کا مطلب منافع کی غرض سے کسی شخص کا جنسی استحصال کرنے، غلام رکھنے، جبری مشقت یا جبری شادی کرنے کے مقصد کے لئے انسانوں کی غیر قانونی تجارت بھی لیا جاتا ہے۔ خاص طور پر بچوں اور عورتوں کوان مقاصد کے لئے استعمال کرنا۔ انسانی سمگلنگ اس وقت دُنیا میں منشیات کی سمگلنگ کے بعد دوسری بڑی غیر قانونی منافع بخش انڈسٹری بن چکی ہے جس سے اربوں ڈالر کمائے جاتے ہیں۔ 2004ء میں اس کے ذریعے 5 بلین امریکی ڈالر منافع کمایا گیا جبکہ انسانوں کی اس غیر قانونی تجارت کا بین الاقوامی سالانہ منافع 2008ء میں 31.3 بلین امریکی ڈالر تک پہنچ چکا تھا۔ اقوام متحدہ اور بین الاقوامی لیبر آرگنائزیشن کے مطابق ہر سال 127 ممالک میں سے 25 لاکھ افراد 137 ممالک میں سمگل کئے جاتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی طرف سے 2000ء میں اٹلی میں "انسداد سمگلنگ کنونشن" منعقد کیا گیا جس میں 127 ممالک اور 137 فریقین نے تمام دُنیا سے شرکت کی۔ 1973ء کے بعد جہاں لاکھوں ہنر مند پاکستانیوں کے دوسرے ممالک میں روزگار کے وسیع تر مواقع پیدا ہوئے اور اس کے توسط سے کثیر زرمبادلہ وطن عزیز آیا اس کی آڑ میں انسانی اسمگلروں کے ایسے گروہوں نے جنم لیا جو دلفریب و دلکش مستقبل کا جھانسہ دے کر سادہ لوح افراد کو غیر قانونی اور غیر انسانی طریقوں سے بیرون ملک بھیجنے لگے، ایسے سادہ لوح لوگوں کی اسمگلنگ کا سلسلہ اب بھی جاری ہے اور ان سے اربوں روپے ہتھیائے جا چکے ہیں۔ انسانی اسمگلروں کا نیٹ ورک آج بین الاقوامی حیثیت اختیار کر چکا ہے گزشتہ تیس پینتیس سال میں جو لاکھوں پاکستانی ان گروہوں کا شکار ہوئے ان میں سے ہزاروں منزل تک پہنچنے سے پہلے ہی مختلف حادثات میں ہلاک ہو چکے ہیں۔ غیر قانونی تارکین وطن کی بڑی تعداد سرحد پار کرتے ہوئے یا منزل تک پہنچ جانے کے بعد گرفتار ہو جاتی ہے۔ اس وقت ہزاروں پاکستانی مختلف ملکوں کی جیلوں میں اذیت ناک زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، بعض ممالک میں وہاں کی مقامی زبان سمجھنے سے قاصر ہزاروں پاکستانی اپنے مقدمات کا دفاع نہیں کر سکتے وہ بھی ان ملکوں کی جیلوں میں ہیں۔ خلیجی ممالک میں اکثر و بیشتر پاکستانی محنت کش، بہتر مستقبل کی امید میں گھر، اہل و عیال، وطن کو چھوڑتے ہیں، بسا اوقات غربت، بے روزگاری سے مجبور ہوکر بیرون ملک بھجوانے والوں کے جھانسہ میں آکر زمین، زیورات، مکان جائیداد تک فروخت کر دیتے ہیں۔ لیکن انسانی سمگلنگ کرنے والوں کے ہاتھوں زندگی کی جمع پونجی لوٹا دیتے ہیں۔ سمگلنگ کا شکار ہونے والے افراد مختلف نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جنسی سرگرمیوں میں ملوث سمگل شدہ افراد سب سے زیادہ منافع کمانے کا واحد ذریعہ ہیں۔ اس انڈسٹری میں ایک فرد پر 2 ہزار امریکی ڈالر خرچ ہوتے ہیں، جبکہ وہ سالانہ 30 ہزار ڈالر کماتا ہے۔ اگر یہ اضافہ اسی طرح قائم رہا تو مستقبل میں اس کاروبار کی ترقی کے بارے پیشین گوئی کرنا مشکل نہیں ہے۔ 2008ء میں 1 کروڑ 30 لاکھ افراد کو جبری مشقت، ممنوعہ کام میں ملوث کرنا اور جنسی سمگلنگ کا شکار افراد قرار دیا گیا۔ ان میں سے 14 لاکھ کاروباری جنسی غلام تھے جبکہ کل افراد کا 98 % حصہ عورتوں اور لڑکیوں پر مشتمل تھا۔ اس وقت 24 کروڑ 60 لاکھ بچے جن کی عمریں 5 سے 17 سال کے درمیان ہیں استحصال کا شکار ہیں۔ ہر سال 15 سے 20 لاکھ عورتیں اور بچے سمگل ہوتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق 1970ء سے لے کر2013ء تک دنیا میں 6 کروڑ سے زائدعورتوں کو فروخت کیا گیا۔ جنوب مشرقی ایشیاء خواتین کانفرنس کے موقع پر بیان کئے گئے اعداد و شمار کے مطابق گرمتیا پوجا کے نام پر جاپان میں ہر سال ایک لاکھ عورتوں کو بھیجا جاتا رہا ہے۔ جن کو بعد ازاں بازار اور قحبہ خانوں میں منتقل کیا گیا۔ اسی طرح لاکھوں کی تعداد میں لڑکیوں کو نیپال سے انڈیا اور برما سے تھائی لینڈ منتقل کر دیا جاتا ہے۔ 80ء اور 90ء کے عشروں میں 2 لاکھ بنگلہ دیشی عورتوں کو پاکستان لایا گیا۔ اسی طرح چینی عورتوں کو بنکاک کے قحبہ خانوں میں جگہ دی جاتی ہے۔ لاطینی امریکہ اور افریقہ سے عورتوں کو تھائی لینڈ اور یورپ سمگل کیا جاتا ہے۔ ان میں سے کچھ کو امریکہ اور کریپین ممالک میں بھیج دیا جاتا ہے۔ ان اعداد و شمار میں ایسی عورتوں کی تعداد شامل نہیں جو مقامی سطح پر سمگل ہوتی ہیں۔ اقوامِ متحدہ کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس وقت انسانی اسمگلنگ عروج پر پہنچ چکی ہے جس میں اسمگلرز فنڈز جمع کرنے کے لیے خواتین اور بچوں کی بھی اسمگلنگ کر رہے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے ادارے ڈرگز اینڈ کرائمز کی جانب سے 'ٹریفکلنگ ان پرسنز' کے نام سے رپورٹ شائع کی گئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ 13 سالوں میں سب سے زیادہ 2016 میں انسانی اسمگلنگ کے واقعات پیش آئے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ متاثرین کی بڑھتی ہوئی تعداد اس جانب اشارہ کر رہی ہے کہ اس وقت انسانی اسمگلنگ کے واقعات میں مزید اضافہ ہورہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس معاملے کی شدت کا اندازاہ لگانا مشکل ہے تاہم مقامی طور پر انسدادِ اسمگلنگ کے اداروں کی جانب سے اقدامات کرکے کمی لائی جاسکتی ہے۔ کئی ممالک میں جہاں ان واقعات میں اضافہہو رہا۔ رپورٹ کے مطابق جن ممالک میں اسمگلنگ میں سزاں کا تناسب کم رہا ہے وہاں اسمگلرز نے اپنی کارروائی جاری رکھیں کیونکہ انہیں انصاف کے کٹہرے میں پہنچنے کا ڈر نہیں تھا۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسمگلنگ کے لیے بچوں پر انحصار کیا جارہا ہے اور مجموعی طور پر متاثرین میں 30 فیصد تعداد بچوں کی ہی ہے جن میں لڑکوں کے مقابلے میں زیادہ تعداد کم عمر لڑکیوں کی ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ بچوں کی اسمگلنگ کا سب سے بڑا مقصد ان کا جنسی استحصال ہے جس کا تناسب 59 فیصد ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق 2016 میں متاثرہ افراد کی آدھی تعداد بالغ خواتین پر مشتمل تھی، ’فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن، (ایف بی آئی)کی ایک رپورٹ (2006) کے مطابق قانون نافذ کرنے والے اداروں نے امریکہ سے 18سے کم عمر 50 ہزار لڑکیوں اور 40 ہزار لڑکوں کو تحویل میں لیا جو گھروں سے بھاگے ہوئے تھے۔ گھروں یا بحالی کے مراکز سے بھاگی ہوئی لڑکیاں جلد ہی سمگلرز یا قبحہ خانوں کے دلالوں کے ہاتھ لگ جاتی ہیں۔ انسانی سمگلنگ اور استحصال پر امریکہ میں ہونے والی تقریباً تمام تحقیقات میں گھروں سے بھاگنے اور جنسی استحصال کے باہمی تعلق کو متفقہ طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔ مثلاً فرانسسکو میں 96 فیصد، بوسٹن میں 72 فیصد اورشکاگو میں 56 فیصد ایسی عورتوں کی شناخت کی گئی جو گھروں سے بھاگ کر جسم فروشی میں ملوث ہوئی تھیں۔ سنگ (seng) کی ایک رپورٹ میںیہ تعداد 77 فیصد ظاہر کی گئی ہے۔ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ گھر سے بھاگنے کے بعد48 گھنٹے کے اندر ایسے نوجوان سمگلرز یا دلالوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔ لڑکیوں کی طرح لڑکوں کا بھی جنسی استحصال کیا جاتاہے۔ ایک سٹڈی رپورٹ میں ایسے لڑکوں کی دو تہائی تعداد کا حوالہ دیا گیا ہے جو گھروں سے نکلنے سے قبل جسم فروشی میں ملوث تھے۔ "سیتل کیمشن برائے چلڈرن اینڈ یوتھ"کے ایک تحقیقی کام میں ایسے بچوں کی تعداد 50 فیصد ظاہرکی گئی ہے جن کو جنسی بے راہروی کی پاداش میں گھروں سے باہر نکالا گیا۔ تاہم اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ 15 سالوں کے دوران اسمگلنگ میں خواتین اور بچیوں کی مجموعی تعداد 70 فیصد تک رہی ہے۔ مذکورہ رپورٹ میں پاکستان، بنگلہ دیش، مالدیپ اور نیپال سے متعلق محدود معلومات فراہم کی گئی ہے تاہم ان ممالک کے مجموعی اعداد و شمار کے مطابق بھی متاثرین میں خواتین اور بچیوں کی تعداد 59 فیصد ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس غیر قانونی انسانی کاروبار کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ تاکہ وہ محنت کش گھر سے دور پردیس میں دکھ جھیلتے ہیں ان کے لیے مسائل کم ہو سکے نہ کہ دلدل میں دھکیلے جائیں۔ کیونکہ بیرون ملک مقیم پاکستانی وطن کا بہترین سرمایہ ہیں۔