معاصر معاشرے کی طرح ہمارے معاشرے میں بھی کچھ دنیا کی زندگی اپنی مرضی سے گزارنے کے خواہاں ہیں ایسے لوگوں کو اسلام میں پابندیاں نظر آتی ہیں ٗ مذہبی اور غیر مذہبی افراد کے درمیان فکری بحوث جاری رہتی ہے انسان کو زیست گزارنے کے لیے خوراک ٗ جسم کو ڈھاپنے کے لیے لباس زیبِ تن کرنا پڑھتا ہے لیکن اب ہم نے اپنی تہذیب کو اپنے ہاتھوں دفن کر دیا فیشن کی فروانی ٗ ہوس رانی کی تسکین افزائی کے لیے ہم نے ایسا لباس اختیار کر لیا جو بے لباسی کا آئینہ دار ہے یا تو پھر جسم تو چھپ جاتا ہے لیکن اس کے پسِ پردہ فیشن پرستی ٗ لامحدود نفسانی و شیطانی خوہشات کا بھوت کار فرما ہے ٗ ہمارے گرد و نواح تقلیدِ یورپ ٗ جدت پرستی ٗ بے حیائی ٗ عریانی کا بازار گرم ہے ٗ عالمِ کفر تہذیب اسلامی کو مسخ کرنے کے لیے سر گرم ٗ یہ بات بھی نہیں کہ ہمارا اسلام زیب وزنیت کی اجازت نہیں دیتا اگر منع ہے تو بے حیائی ٗ فحاشی ٗ کپڑوں کے ہوتے بھی ننگا نظر آنا منع ہے ٗ جس لباس میں اعتدال کے اصول ہوں لباس میں نہ ہی اتنی زیب و زینت ہو کہ اسراف کی حدودوں کو چھونے لگے اور نہ ہی اتنا سادہ کہ بد وضع ٗ بے ڈھنگ اور معیوب ہو ٗ لباس اور جدید سائنس ایک نظر مشہور دانشور ماہر نفسیات ’’لی گرام ‘‘ہر دل عزیزی میں لکھتے ہیں : آپ دیکھنے میں جیسے معلوم ہوتے ہیں ٗ آپ کا خاصا اثر آپ کی مقبولیت اور ذاتی اقدار پر پڑتا ہے لوگ سب سے پہلے آپ کی شکل و صورت ٗ لباس دیکھتے ہیں ٗ اگر آپ کی ظاہری حالت بھلی نہیں معلوم ہوتی تو وہ آپ کے متعلق زیادہ جاننے کی زحمت اٹھانا گوارہ نہیں کرتے، لوگوں کی نظریں سب سے پہلے آپ کے کپڑوں پر پڑتی ہیں ٗ رفتار گفتار و طور طریق کے بعد کپڑے ہی آپ کی شخصیت کی نمائندگی کرتے ہیں ‘‘ایک دوسرے معروف یورپ ماہر نفیسات گارڈن بائرن کی تصنیف ’’خود کو بھی موقع دیجیے ‘ میں لکھتے ہیں ’’ظاہری شباہت شخصیت کو بہت کچھ بڑھا بھی سکتی ہے اور گٹھا بھی ٗ چونکہ شخصیت کامیابی کی ایک اہم خوبی ہے اس لیے خود کو نبانے سنوانے میں اور خوشاک رکھنے میں جو روپیہ اور وقت صرف کرتے ہیں یہ ایک نہایت ضروری صرفہ ہے یہ ایک حقیقت ہے کہ ایک خوبصورت فراک ایک عورت کی پوری شخصیت کو بدل کر رکھ دیتی ہے ٗاس سے محض ظاہری شباہت ہی میں اضافہ نہیں ہوں گے ٗ بلکہ وہ ذاتی طور پر بھی خود کو خوبصورت محسوس کرے گی ٗمردوں کے لیے کپڑے اتنے ہی اثر انگیز ثابت ہو سکتے ہیں ٗ خواہ وہ اس کا اعتراف کریں نہ کریں ٗ ہم میں سے بہت ایسے لوگ ہوں گے جن کو کپڑے درست نہ ہونے کی صورت میں کسی مہمان کے اچانک نزول سے خفت اٹھانی پڑتی ہے آپ ایسی صورتوں میں بڑی کوفت اور نااطمینانی محسوس کرتے ہیں اور کوئی مرد ٗ عورت اپنی شخصیت کا دل کش انداز میں مظاہر ہ نہیں کر سکتے ٗ جب انہیں ہر لحمہ یہی خوف کھائے جارہا ہو کہ ان کی شکل و شباہت ٹھیک نظر نہیں آرہی یا نہیں ٗ اچھے لباس میں روپیہ لگانا بہترین مصرف ہے ٗ یہ ضروری نہیں کہ لباس بہت زیادہ قیمتی ہو ٗ ان کے بعد جو ہم نے فیشن کی دوڑ میں تنگ لباس کا رواج شروع کر رکھا ہے کہ ایک باحیا آدمی ہمارے اداروں سے گز ر نہیں سکتا ٗ المیہ یہ ہے ہمارے تعلیمی اداروں میں بھی اس تنگ لباسی ٗ مغربی تہذیب کی اندھی تقلید ٗ نام نہاد روشن خیالی کا کوئی سدباب موجود نہیں جب ہم خود اس دلدل میں پھنس چکے ہیں تو نکالے گا کون ؟ جدید سائنس کے مطابق تنگ لباسی مضر صحت ہوتا ہے تنگ لباس سینہ اور چھاتی کو اچھی طرح پھیلنے نہیں دیتا جس سے خون پھیپھڑوں میں اچھی طرح صاف نہیں ہو پاتا ٗاسی طرح تنگ لباس رگوں پر دباو پیدا کر کے دماغی دوران خون میں رکاوٹ کا باعث ہو سکتا ہے اسی طرح چست و تنگ لنگوٹوں ٗ پتلونوں سے NOURISHENT میں کمی یا نقص واقع ہو سکتا ہے ٗ ایسے ہی Female کا چست پتلونوں کی رگڑ سے حیوانی جذبات کے ہیجان کا باعث ہوتا ہے ٗ علاوہ ازیں بچوں میں نمودوبالیدگی کے زمانے میں تنگ لباس نہایت مضر اثرات کا سبب اور مانع بن سکتا ہے ٗ بین الاقوامی شہرت کے حامل ڈاکٹر یوسی سیل نے بھی اس امر کا اظہار کیا ہے کہ لباس نہ بہت تنگ اور ڈھیلا بلکہ اوسط رہے ٗ ڈھیلے لباس کے درمیان جو فضاء ہے وہ جسم کو حرارت کو بطور Air Conditionقائم رکھنے میں مدد گار ہوا کرتی ہے ٗ تنگ لباس کے بارے میں ڈاکٹر موصوف (یوسی سیل) لکھتے ہیں کہ لباس سے جسمانی نشوونما کی رکاوٹ کے علاوہ سڑک اور آگ کے حادثات میں اس لئے زیادتی ہو جاتی ہے کہ حادثات کی صورت میں قدرتی طور پر بروقت اور غیر شعوری اچانک دفاعی (INSTANT DEFENCE) حرکات میں ہر جاندار میں قدرت نے عطا کی ہیں ٗ دشواری اور رکاوٹ پڑجاتی ہے ٗ ایسے تنگ لباس کو جسم سے الگ کرنے میں تکلیف ہوا کرتی ہے ٗ اس طرح بل باٹم کے ڈھلیے پائچوں سے کئی حادثات میں دیکھنے میں آتے ہیں ٗ تنگ لباس ہمارے دل سے خون دماغی شریانوں کے ذریعے سپلائی میں بہت بڑی رکاوٹ بنتا ہے اس کے باعث جسم کو خون کی سپلائی کم ہوتی ہے بایں ہمہ دماغی کمزوری ٗ صنعف بصارت بے خوابی ٗ بسا اوقات شریانوں کے مسلسل دباؤ میں رہنے کی وجہ سے موت کے خطرات بڑھ جاتے ہیں یا داماغ کی صلاحیتوں میں نقص واضح ہوجاتا اور پاگل پن کا شدید خطرہ ہر وقت موجود رہتا ہے ٗ پاکستان تو اسلامی نظریات کی بنیاد پر بنا لیکن یہاں کوئی اس کی پالیسی نہیں جب کہ برطانیہ میں ان خطرات کو محسوس کرتے ہوئے 1930 میں برطانیہ میں ایک جماعت موجودہ لباس میں اصلاح کی غرض سے قائم کی گئی اس وقت جب بارشیں ختم ٗ زلزلوں کے جھکٹے ٗ طوفان ٗ اضطرابی کیفیت ٗملک تباہی کے دہانے پر آن کھڑا ہے ہر طرف قتل وغارت کا بازار گرم ٗ سب سہولیات ٗ ٹیکنالوجی کے ہوتے بھی ہم مغلوب ہیں ہر کام میں غیروں کے دست و نگر ہیں ٗ کم از کم ہمارے تعلیمی اداروں کو اس بے حیاء لباس جس کے ہوتے ہماری بہن ٗ بیٹی جو عزت کا نشان سمجھی جاتی ہیں وہ ایسے لباس میں نہ ہوں کہ تہذیب کا جنازہ نکل جائے اور ہماری تہذیب مسخ ہو کر رہ جائے۔ ملک و قوم جب ایسی بے حیاء روشنی میں گم ہوتی ہے تو ملک و معاشرے کے ٹوٹنے میں دیر ہوسکتی ہے لیکن خوفناک انجام قریب ہوتا ہے ہمارا کام دوسروں کی اصلاح ہے لیکن آج ہمارا لباس ہماری بے حیائی پر کافی ہے۔ اس بے حیائی کا میڈیا ذمہ دار نہیں ہم سب ذمہ دار ہیں اور خصوصا ہمارے اداروں کو اس حوالہ سے عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔