رمضان المبارک جیسا ماہِ مقدس آیا اور ہم نے حسبِ روایات بددیانتی، خیانت، ناجائز منافع خوری، اَنا، خود نمائی، سیزن کے نام پر غریبوں کی زندہ کھال اتارنے، غصے، بد تہذیبی، فحاشی، بے حسی سے استقبال کیا، اور اُسی بے حسی کے ساتھ ہی الوداع بھی کر رہےہیں۔ وہ ماہِ مقدس جو ہمارے لئے ایک تربیتی ورکشاپ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اِس کی افادیت جاننے کے باوجود ہمارے معاشرے میں سب سے زیادہ لڑائیاں، جھگڑے، فسادات، نفرتیں اسی ماہ میں ہوتے ہیں۔
رمضان کا روزہ ہم رضا الہٰی نہیں بلکہ دوسرے پر احسان کے لئے رکھتے۔ اس ماہِ مقدس میں بھی ہم اسلام کے نام پر غربیوں، یتیموں، بے سہاراافراد کا حق، خود صاحبِ ثروت ہونے کے باوجود شیر مادر سمجھ کر ہڑپ کرتے۔ امداد میں اخلاص کے بجائے پسند ناپسند ہماری ترجیحات میں شامل۔ کیا یہی ہمیں اسلام نے درس دیا؟ کیا یہی اس ماہِ مقدس کا احترام ہے؟
معاشرے کے ہرطبقے میں نمازیوں، روزہ داروں، معتکفین، سخاوت اور عمرہ کرنے والوں کی تعداد اس قدر زیادہ ہے تو اس کا اثر اجتماعی رویوں میں کیوں نظر نہیں آتا؟ اگر نمازبے حیائی اور برے کاموں سے روکتی، روزہ خدا خوفی پیدا کرتا، محروموں اور غریبوں کے لیے دِل میں جگہ بناتا، اعتکاف وعمرہ اللہ سے محبت، دین سے لگاؤ اور مذہب سے متعلق حمیت و حمایت پیدا کرتے ہیں تو، کم از کم رمضان المبارک ہی میں سہی، جرائم میں کمی کیوں نہیں ہوتی؟
معاشرے میں استحکام کے جذبات کو مہمیز کیوں نہیں ملتی؟ نا جائز منافع خوری کے نتیجے میں مہنگائی کا عفریت جگہ جگہ ڈیرے ڈالے کیوں نظر آتاہے؟ احساس ذمہ داری، ایمانداری اور تن دہی کے بجائے وہی روایتی انداز کی غیر ذمہ داری، رشوت ستانی، لوگوں کی عزتِ نفس مجروح، کسی کی مجبوری سے ناجائز فائدہ اٹھانے جیسی مہلک بیماریوں میں کوئی افاقہ کیوں نظرنہیں آتا؟ ایک دیہاڑی دار کے منہ سے نوالہ ہم نے اسی ماہ میں کیوں چھین لیتے؟ ہمارے معاشرہ میں مساوات کیوں نہیں؟
ہمیں اپنی رعایا کے بارے میں جواب دہ ہونے کا احساس کیوں نہیں؟ مجبور، بے سہارا افراد کی فریاد، جو عرشِ الٰہی کو ہلاتی ہے، وہ ہمیں کیوں نہیں سنائی دے رہی؟ فلسطین، کشمیر کے مسلمانوں کی آہ و بکا ہمیں کیوں نظر نہیں آرہی؟ خوفناک وبائیں، اچانک اموات، اندھیاں، طوفان، زلزلے ہماری ہوس میں کمی کا سبب کیوں نہیں؟ اس کی وجہ یہ تو نہیں ہے کہ وہ مہینہ جس میں ہمیں اپنے پروردگار سے گناہوں کی معافی، محاسبہ، خدا خوفی کا مزاج پیدا کرنا تھا، ہمارا رویہ، عوام ہوں یا خواص، مجموعی لحاظ سے بالکل الٹ ہوجاتا ہے۔
یہ ساری باتیں، کہانیاں تخیّلاتی نہیں، بلکہ ہمارے ہی معاشرے کے مجموعی رویّے کی عکّاس ہیں۔ روزہ صرف بھوکے پیاسے رہنے کا نام نہیں، بلکہ اس کے ذریعے اللہ کریم ہمیں خود احتسابی کاایک بہترین موقع فراہم کرتے ہیں۔ ہمارے سامنے یہ حقیقت بھی عیاں ہوتی ہے کہ عام دنوں میں جن گناہوں، برائیوں اور غلط کاموں کا ذمّے دار ہم شیطان کو ٹھہراتے ہیں، در اصل اُن کے اصل ذمّے دار ہم خود ہیں۔ روزہ تو ہمیں صبر و برداشت، تحمّل اور در گزر کا درس دیتا ہے۔ لیکن ہم روزے ہی کے نام پربھوک پیاس کا پرچار کرکے یا اُسے بہانہ بنا کر دوسروں پر لعن طعن، ڈانٹ ڈپٹ اور غصّے کاکوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔
خلقِ خدا کے لیے آسانیاں، راحتیں فراہم کرنے کے بجائے باعثِ اذّیت بن جاتے ہیں۔ ہمارے یہاں ایسے لوگوں کی بھی بھرمار ہے، جو روزہ تو رکھ لیتے ہیں، لیکن پھر سارا دن چڑ چڑے سے پھرتے ہیں، جیسے کسی نے اُن سے زبر دستی روزہ رکھوایا ہو۔ ہر ذی شعور جانتا ہے کہ روزہ فقط بھوک، پیاس پر ضبط کا نام نہیں، بلکہ اس کا اطلاق تو زبان، اخلاق اور عمومی رویّوں پر بھی ہوتا ہے، لیکن یہاں تو حال یہ ہے کہ صرف کھانے پینے سے ہاتھ کھینچ کر احسان جتا دیا جاتا ہے۔ کچھ نوجوان صحت سلامتی کے باوجود روزہ نہیں رکھتے اور اس کا جشن منانے کے لئے وہ بازاروں میں سگریٹ نوشی کرکے فخر کناں ہوتے جو المیہ ہے ہمارا۔
روزے کی حالت میں بگڑے رویّے، چڑچڑاہٹ، غصّے اور بد کلامی اور روزہ کا ایک دوسرے سے کوئی تعلق نہیں۔ "نبی کریم ﷺ کی تعلیمات سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ روزے دار کو اپنے اعمال، قول و فعل کی عام دنوں سے زیادہ احتیاط کرنی چاہیے۔ جیسے چغلی، غیبت، جھوٹ، لڑائی جھگڑے، کسی کو بُرا بھلا کہنے سے اجتناب برتنا چاہیےنہ کی گالیوں سے روزہ کی حرمت کو پامال کرنا چاہیے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایاکہ اگر کوئی روزے کی حالت میں تم سے لڑائی کرے، تو بس اتنا کہہ دو کہ "مَیں روزے سے ہوں"۔ ایک اور جگہ فرمایا کہ "اللہ کو تمہارے بھوکا پیاسا رہنے کی ضرورت نہیں"۔
در حقیقت روزہ تو باطنی بیماریوں جیسے غیبت، بد اخلاقی، بد کلامی وغیرہ کا خاتمہ کرتا اور نفس کو پاک کرتاہے۔ نبی محترم ﷺ کی ایک حدیث ہے کہ "بہت سے لوگ ہیں، جن کو روزے سے محض بھوک و پیاس ملتی ہے"۔ خدانخواستہ کہیں ہم بھی اس فہرست میں تو نہیں شامل ہو چکے۔ خود احتسابی نوائے وقت ہے۔ اس سے بہترین کوئی طریقہ کا ر نہیں۔ جب تک ہم دوسروں کے غیب ڈھونڈتے رہے تو یہ فسادات لازم ہوں گے۔
ہمارا معاشرہ پھر کب گلِ گلزار بنے گا؟ کیا معاشرہ ہم نے خود انگار نہیں بنایا؟ اس ماہِ مقدس میں ہمارا رویہ جو ہونا چاہیے وہ غیرؤں نے اپنایا۔ اس ماہ میں وہ مسلمانوں کو جملہ سہولیات مہیا کرتے ہیں۔ ان کی اشیاء خورد و نوش میں واضح کمی کی جاتی ہیں تاکہ غریب بھی اس کی خوشیوں میں شریک ہو سکیں۔ اس کے برعکس ہمارے ہاں ہر ایک اپنے مفاد کو مقدم رکھتا جس سے انسانی زندگیاں اجیرن ہو چکی ہیں۔ غریب افراد کی زندگی مشکل سے مشکل ترین بنتی جارہی۔ ہمارے اس ماہ میں بھی اثیار، قربانی کوئی ریلیف نام کی کوئی چیز موجود نہیں۔
ستم بالا ئے ستم رسوماتِ دُنیا نے عید، جو روزے مکمل کرنے پر ایک خوشی کا دن ہے، اسے غریب کے لئے عذاب بنا دیا گیا۔ ان رسومات کا اسلام کی تعلیمات سے دور تک کوئی واسط نہیں۔ یہ معاشرے کی بنی رسمیں ہیں جن کی پیروی نے ہمیں تباہی کے دہانے لاکھڑا کیا ہے۔ ہماری عدم مساوات نے غریب کی بچوں سے عید کی خوشیاں تک چھین لی اور امیر، امیر تر ہوتے جارہے۔ عدمِ مساوات نے ہمارا معاشرہ توڑ کر رکھ دیا اور ہم اس میں برابر کے شریک ہیں۔ ماہِ مقدس کا احترام جو ہمیں کرنا چاہیے تھا وہ غیر کر رہے، جو یہ پیغام ہے کہ رمضان کا احترام ان کا، جاہلانہ رسومات میں گری عید ہماری۔