ترقی یافتہ ممالک میں ٹرانسپورٹ کا نظام جدید خطوط پر استوار ہے، اگر کوئی فرد کسی پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کر رہا ہو تو اسے پہلے سے ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ وہ اپنی منزل تک کب پہنچے گا، اس کے برعکس پاکستان میں آپ پبلک ٹرانسپورٹ میں اندرون شہر کسی لوکل روٹ پر بھی سفر کر رہے ہوں تو ڈرائیور کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں یا پھر ٹریفک نظام کے۔ مسافروں کا مقررہ وقت تک منزل پر پہنچنا تو کجا، گھنٹوں ذلیل و خوار ہونا پڑتا ہے جس کی بنیادی وجہ ٹریفک قوانین پر عملدرآمد کا نہ ہونا ہے۔ ٹریفک قوانین کا احترام مہذب قوموں کا شعار ہے، مہذب معاشروں میں ٹریفک قوانین پر عملدرآمد کے لیے نہ صرف سخت قوانین موجود ہوتے ہیں بلکہ عوامی شعور کی بیداری کے لیے مختلف ادارے بھی قائم کیے جاتے ہیں، دیگر شعبوں کی طرح پاکستان میں ٹریفک کے مسائل بھی اسی طرح حل طلب ہیں جس طرح دوسرے بڑے اور سنگین مسائل۔ اوور لوڈنگ، سڑکوں کی خستہ حالی، ٹریفک قوانین سے عدم واقفیت، تیز رفتاری، ون وے کی خلاف ورزی، غلط اوور ٹیکنگ، اشارہ توڑنا، غیر تربیت یافتہ ڈرائیور، ون وہیلنگ، تیز لائٹس، ہیڈ لائٹس کا نہ ہونا، پریشر ہارن، بغیر ہیلمٹ یا بیلٹ کے سفر، ڈرائیونگ کے دوران سیل فون اور / یا نشہ آور اشیا کا استعمال، غلط پارکنگ وغیرہ جیسی ٹریفک کی خلاف ورزیاں اور اس کے علاوہ بریکوں کا فیل ہو جانا اور خراب / مدت پوری کر چکے ٹائروں کا استعمال معمول بن چکے ہیں جو ان حادثوں کی اہم وجوہات ہیں۔ دُنیا کی کل آبادی کے 56 فیصد حصے پر مشتمل 24 ایشیائی ممالک میں ہر سال سڑکوں پر حادثات میں ساڑھے سات لاکھ افراد ہلاک ہو جاتے ہیں اور 30 سال سے کم عمر افراد کی موت کی ایک بڑی وجہ بھی یہی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کی جانب سے ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سالانہ30 310 افراد ٹریفک حادثات کی وجہ سے ہلاک ہوجاتے ہیں۔ پچھلے کچھ سالوں کی رپورٹ سے اندازہ لگایا گیا ہے کہ تقریباً 15افراد روزانہ کسی حادثے کا شکار ہوتے ہیں۔ حادثات کے حوالے سے اقوام متحدہ کی سالانہ رپورٹ 2015 ء کے مطابق کم یا درمیانی آمدنی والے ممالک کی گاڑیوں کی تعداد اگرچہ دنیا میں گاڑیوں کی مجموعی تعداد کا نصف ہے تاہم یہاں ہونے والے حادثات دنیا میں سالانہ ٹریفک حادثات کا نوے فیصد ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اس دوران زخمی ہونے والوں کی تعداد پانچ کروڑ سے زائد ہے جن میں 12 فیصد کو ہسپتال میں زیر علاج رہنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے 800 ارب ڈالر کا معاشی نقصان ہوتا ہے اور بتایا جاتا ہے کہ یہ نقصان ان 24 ممالک کے مجموعی قومی پیداوار کا 3.6 فیصد ہے۔ دُنیا کے ہر ملک میں ٹریفک حادثات ہوتے ہیں مگر جتنے حادثات ہمارے ملک میں ہوتے ہیں شائد ہی کسی اور ملک میں ہوتے ہوں۔ جتنی ہلاکتیں ہمارے ہاں ٹریفک حادثات میں ہوتی ہیں کہیں نہیں ہوتیں بلکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ ٹریفک حادثات میں ہونے والی ہلاکتیں، دہشت گردی کے باعث ہونے والی ہلاکتوں سے کہیں زیادہ ہیں۔ 2004ء سے 2013 ء کے دوران پچاس ہزار انسانی جانیں ٹریفک حادثات کی نذر ہو گئیں۔ اس میں سے 29 ہزار کے قریب پنجاب میں، ساڑھے نو ہزار کے قریب سندھ میں، قریب اتنے ہی خیبر پختونخوا میں اور دو ہزار کے قریب افراد بلوچستان میں ٹریفک حادثوں میں مارے گئے۔ گزشتہ سال کے دوران پاکستان میں کل 8 ہزار 885 ٹریفک حادثات رپورٹ کیے گئے، ان ٹریفک حادثات کے نتیجے میں 4 ہزار 672 افراد موت کے منہ میں چلے گئے اور 9 ہزار 864 لوگ زخمی ہوئے۔
عالمی ادارہ صحت کی روڈ سیفٹی کے بارے میں گلوبل اسٹیٹس رپورٹ کے مطابق موجودہ حالات و واقعات یہ عندیہ دیتے ہیں کہ ٹریفک قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کے موجودہ رجحانات 2030ء تک ناگہانی اموات کی پانچویں بڑی وجہ بن جائیں گے۔ دیکھا جائے تو دہشت گردی کے واقعات میں اتنی ہلاکتیں نہیں ہوتیں جتنی ٹریفک حادثات کے نتیجے میں ہوتی ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان ہر قسم کے ٹریفک حادثات میں ایشیاء میں پہلے نمبر پر ہےPakistan Bureau of Statisticsکے مطابق2016/2017 یعنی ایک سال کے دوران پاکستان میں 9582 حادثات ہوئے جن میں 5047 افراد ہلاک ہوئے۔ اور یہ تعداد دن بدن بڑھ رہی ہے2012ء میں ہلاکتوں کی کل تعداد 10 لاکھ20 ہزار تھی اور 2016ء میں بڑھ کر 13 لاکھ 35 ہزار تک پہنچ گئی۔ رواں برس مزید 15 ہزار کا اضافہ ہو کر یہ تعداد ساڑھے 13 لاکھ ہوگئی، جبکہ زخمیوں کی تعداد 5 کروڑ سے زائد ہے یہ صرف Road Accidents کی حالت ہے اس کے علاوہ ٹرین/جہاز کے حادثات، آگ لگنے کے واقعات، ڈوبنے سے ہلاکتیں، عمارتیں گرنے سے، فیکٹریوں وغیرہ میں ہونے والے حادثات کا شمار نہیں اور یہ ایک انتہائیخطرناک صورت حال ہے۔ عالمی ادارہ صحت پہلے ہی خبردار کرچکا ہے کہ 2030ء تک دنیا بھر میں ٹریفک حادثات موت کا سبب بننے والی پانچویں بڑی وجہ ہوگی۔ چونکہ سڑک حادثات میں مرنے والوں کی نصف سے زائد تعداد ایشیائی ممالک سے تعلق رکھتی ہے۔
یہ جائزہ رپورٹ سویڈن کی "چالمرز ٹیکنیکل یونیورسٹی" کی طرف سے جاری کی گئی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ چین میں ہر سال تقریباً دو لاکھ ساٹھ ہزار افراد ٹریفک حادثات میں ہلاک ہو جاتے ہیں۔ دُنیا میں سالانہ روڈ حادثات کی وجہ سے 518بلین ڈالرز ضائع ہورہے ہیں جبکہ ہرسال تقریبا12لاکھ سے زائد افراد روڈ حادثات کی وجہ سے اموات کا شکارہوجاتے ہیں۔ اس لئے عالمی ادارہ صحت نے ان ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ 2020ء تک ٹریفک حادثات میں ہلاک و زخمی ہونے والوں کی تعداد میں نصف حد تک کمی لانے کیلئے اقدامات کریں۔ رپورٹ کے مطابق افریقہ میں ہر سو میں سے 26 افراد ٹریفک حادثات سے مرتے ہیں، جو یورپ سے تین گنا زیادہ ہے۔ افریقہ کے 54 میں سے نصف ممالک میں حد رفتار کا کوئی قانون ہی نہیں ہے۔ اس لئے یہاں کار اور بائیک کے حادثات میں مرنے کی شرح سب سے زیادہ ہے۔
روڈحادثات میں ایشیاء میں پاکستان پہلے نمبر پر ہے جبکہ دنیا بھر میں 48 ویں نمبر پر ہے۔ جس کی جہاں اور متعدد وجوہات ہیں وہاں ہی ہماراپڑھا لکھا طبقہ بھی قانون کی پاسداری نہیں کرتا جس کی وجہ سے روڈ حادثات میں آئے دن اضافہ ہورہاہے۔ پاکستان میں سب سے زیادہ تعداد موٹر سائیکلزکی ہے، موٹرسائیکل کے محفوظ استعمال سے کئی جانوں کو بچایا جا سکتاہے۔ موٹر سائیکل چلانے والوں کیلئے ہیلمٹ کا استعمال ناگزیر ہے۔ اس طرح کے آگاہی سیمینار کا انعقاد وقتا فوقتا ہونا چاہیے تاکہ روڈ حادثات سے بچنے میں مدد ملے۔
بڑھتی ہوئی آبادی، صنعتی ترقی کی بدولت لوگوں کا ہجوم، مضافات اور دیہات سے قصبوں اور شہروں کی طرف بڑھ رہا ہے۔ لوگوں کو روزانہ اپنے کاروبار اور ملازمت کی جگہوں پر جانے کیلئے سفر اختیار کرنا پڑ رہا ہے۔ جس کی وجہ سے صبح و شام بالخصوص اور تمام دن بالعموم سڑکوں پر عوام اور گاڑیوں کا سمندر امڈ آتا ہے، ۔ یہاں نہ ہی ٹریفک قوانین کی پابندی کی جاتی ہے اور نہ ہی گاڑیوں کی فٹنس پر توجہ دی جاتی ہے جبکہ کم سن بچے گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں چلا رہے ہوتے ہیں اور ان کے والدین اور بزرگ ان کے ہمراہ بیٹھے ہوتے ہیں۔ رکشہ اور موٹر سائیکل رکشے ہر طرح کے اصول ضابطے اور قانون کی پرواہ کئے بنا خود کش بمبار کی طرح سڑکوں پر دوڑ رہے ہوتے ہیں۔ سست رفتار گدھا گاڑیوں، گڈوں، تانگوں یا پیٹر انجن سے وجود میں آنے والی گاڑیوں کی بھرمار، ٹریفک میں رکاوٹ کا باعث بنتی ہیں۔ عملہ کو بہتر ٹریننگ اور جدید طریقہ کار اپنا کر ان کی صلاحیتوں کا بہتر استعمال کرنا چاہئے۔ ہمارے تعلیمی نظام میں ٹریفک سے متعلقہ تعلیم بالکل نہیں دی جاتی۔ ترقی یافتہ ممالک میں افراد کومعاشرے کاکارآمدشہری بنانے کے لئے ہرضروری تعلیم اورتربیت دی جاتی ہے مگرہمارے ہاں اس قسم کی تعلیم کاکوئی رواج نہیں ہے۔ معاشرے کا مفیدشہری کیسے بننا ہے اس پرکوئی توجہ نہیں دیتا۔ حالانکہ ہونا یہ چاہیے کہ سکول، کالج اوریونیورسٹی ہردرجے پرباقاعدہ کورس ہوں کہ سٹرک پرکیسے چلنا ہے؟ٹریفک کے قوانین کیاہیں؟مختلف اشارے کیا بتاتے ہیں؟ اور باقاعدہ طورپر یہ چیزیں نصاب کاحصہ ہوں۔
عالمی ادارہ صحت نے ایشیائی ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ 2020ء تک ٹریفک حادثات میں ہلاک و زخمی ہونے والوں کی تعداد میں نصف حد تک کمی لانے کیلئے اقدامات کریں۔ تفصیلات کے مطابق عالمی ادارہ صحت نے دنیابھر میں ٹریفک حادثات میں ہلاک و زخمی ہونے والوں کے حوالے سے جائزہ رپورٹ مرتب کی ہے۔ موجودہ اعدادوشمار کے مطابق پوری دُنیا میں اموات کی وجوہات میں روڈ حادثات نویں نمبر پر ہے اور اگر اس پر قابونہ پایاگیا تو 2020 تک یہ تعداد تیسرے نمبر پر آجائے گی۔ ہمارے نوجوان طبقے کو چاہیے کہ وہ نہ صرف خود ٹریفک کے قوانین کی پاسداری کریں بلکہ دوسروں کو بھی اس کی ترغیب بھی دیں اگرہماری نوجوان نسل مذکورہ مسئلے کو حل کرنے کیلئے اپنا مثبت اور کلیدی کردار اداکریں توکوئی وجہ نہیں کہ روڈ حادثات میں کمی واقع نہ ہو۔