چراغ و عطر و سبو ہم نے گھر پہ رکھا ہے
یقین معجزۂ معتبر پہ رکھا ہے
یہ نعت ہے کہ صحیفے کا باب ہے کوئی
کہ ماہتاب ہے دستِ ہنر پہ رکھا ہے
بشارتوں کے اشارے فلک سے آنے لگے
جبیں کو جا کے ابھی ان کے در پہ رکھا ہے
بنامِ عشقِ محمد ﷺ بفیضِ عشقِ رسول ﷺ
کوئی ستارا مری چشمِ تر پہ رکھا ہے
خیال میرا طوافِ حرم میں ہے مشغول
اسی لئے تو مسلسل سفر پہ رکھا ہے
مرے خدا تو اسے ازنِ باریابی دے
دعا کا حرف جو بابِ اثر پہ رکھا ہے
جواب ملنے کا ایقان جاگ اٹھا ہے
ابھی تو میں نے عریضہ لہر پہ رکھا ہے
میں غرقِ بحرِ رواں ہو رہی ہوں میرے کریم
کہ میرا پاؤں مسلسل بھنور پہ رکھا ہے
کبھی ملے گی مجھے میری منزلِ فردا
یہ فیصلہ تو فقط راہبر پہ رکھا ہے
یہ عشقِ آلِ محمد ﷺ کا فیض ہے مجھ پر
کہ سائبان مرا میرے سر پہ رکھا ہے
درود پڑھتے ہی محسوس یہ ہوا ثروت
کہ جیسے دستِ مسیحا جگر پہ رکھا ہے