وھاں میں دیکھ آیا تھا
گلابی موسموں کی دھوپ کا آنچل
جو پائن کے درختوں میں الجھتا تھا
تو ہر سو شام کی پریاں
سر دھلیز شب
ان کا نظارہ دیکھنے رکتیں
کہ
اس منظرکو آگے
منتقل کرنا تھا خوابوں کو
وھیں پر کوھساروں میں
معلق باغ
نادیدہ بہشتوں کی طرح ہوتے
جھاں سب طائران خوش گلو
کے چھچھانے اور
تتلیوں کا رقص پیہم
قامت اشجار بادل کی چٹانیں
بے پیئے سر شار جھرنیں
اورھر لمحہ بدلتے موسموں کے زاوئے
فطرت کے کینوس پر
کچھ اس انداز سے ترتیب پاتے تھے
کہ خود کو خالق بھی شاید محو حیرت ہو
مگر اب کہ وہ قریہ یوں نھیں تھا
جسطرح میں چھوڑ آیا تھا
وھاں پر روشنی کے آخری مینار
سےاٹھتا دھواں
اور تتلیوں کی صف بہ صف ھجرت
وھاں کے بھربھرے
بد رنگ موسم میں
فقط کچھ کے سا ئے تھے لرزاں ۱ور کچھ
بوجھل کے مسلک
کے پیروکار زندہ تھے
غنیم بے بصر
تتلی، کرن، مہتاب، پھولوں اور
گلابی دھوپ کا دشمن
سمجھتا ہے
کہ اب گر روشنی اس سمت آئے تو
اسی سے پوچھ کر آئے
کہ اس کی آنکھ میں
جلتے دئے سارے بجھا کر
اس کو کوئی ماتمی ملبوس پہنادے
کہ اس کو تیرگی کا خبط ھے
اور روشنی اچھی نہیں لگتی