کوے ہیں سب دیکھے بھالے، تیز نظر ہے، چالاکی بھی، حرص کے بندے، دل کے کالے۔ کوے سے منسلک بہت سی کہانیاں ہیں۔ جن میں سیانا پن نمایاں ہے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کے ماہرین نے بیٹی نامی کوے پر کچھ تجربات کئے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بیٹی کوے کو پنجرے کے اندر لوہے کی ایک تار مل گئی جس کے ایک سرے کو اس نے کسی چیز پر رکھ کرموڑ لیا اور ہک بنا کر پنجرے کے پاس پڑے پیکٹ سے گوشت کا ایک ٹکڑا نکال کر مزے سے لنچ کیا۔ ماہرین اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ کوے ذہنی شعبدہ بازی کے بھی ماہر ہیں۔
ایک تحقیق کے مطابق کوے نے یہ الزام تراشی بھی کی کہ اس کی کائیں کائیں دراصل رقص و گائیکی کا ایک سلسلہ ہے۔ جس میں ربط بھی ہے اور ترتیب بھی۔ جس میں کہیں مہمان کے آنے کی اطلاع ہے اور کہیں محبوب کے وصل کی خوش خبری ہے۔ کوے کی خاموشی ہجر سے بندھی ہے۔ تاہم کائیں کائیں کی دھن پر بے ربط خیال دور جدید میں کچھ لوگوں نے چرا لیے ہیں اور اس کائیں کائیں کو روحانیت سے جوڑ رکھا ہے۔ تاہم تازہ خبر کے مطابق گلوکار کوے کو جانتا تک نہیں، نہ ہی اس نے ابھی تک کوے کی کوئی کہانی سنی ہے۔ گلوکار کو طبعاََ روڑے جمع کرنے کا شوق ہے۔ خیر یہ ماہرین میوزک کا کام ہے کہ وہ کوے اور گلوکار کے درمیان تصفیہ کروائیں اور فیصلہ کہ کس کی کائیں کائیں سود مند ہے۔ کوے میں اور بھی بہت سی خصوصیات ہیں۔
شفیق الرحمان لکھتے ہیں، "کوّے کی نظر بہت تیز ہوتی ہے۔ جن چیزوں کو وہ نہیں دیکھتا، وہ اس قابل نہیں ہوتیں کہ ان کو دیکھا جائے۔ کوّا بے چین ہوتا ہے اور جگہ جگہ اُڑتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ زندگی مختصر ہے۔ چنانچہ وہ سب کچھ دیکھنا چاہتا ہے، یہ کون نہیں چاہتا؟ کوّا باورچی خانے کے پاس بہت مسرور رہتا ہے۔ درخت پر بیٹھ کر سوچتا ہے کہ زندگی کتنی حسین ہے۔ کہیں بندوق چلے تو کوے اسے ذاتی توہین سمجھتے ہیں اور دفعتاً لاکھوں کی تعداد میں نجانے کہاں سے آ جاتے ہیں۔ اس قدر شور مچاتے ہیں کہ بندوق چلانے والا مہینوں پچھتاتا رہتا ہے"۔
اب بات بڑھ چکی ہے۔ تصفیہ ہو یا پھر وضاحت۔ امن کی کوشش کی جائے یا ملکی سلامتی و ترقی کا کوئی مرحلہ درپیش ہو۔ سیڑھی کے پیچ در پیچ زینوں پر کووں کے گروہ کا بسیرا ہے اور بس کائیں کائیں کا راگ ہے۔ کوے کے انتقام کی کہانی ڈھکی چھپی نہیں۔ کہانی میں کوے کا کوئل سے افئیر ہوا اور اسے کوی سخت بری لگنے لگی۔ کوے نے خود ہی اپنے چھوٹے بچوں کو بیچ دیا اور الزام تراشی شروع کر دی۔ وہ روز ملکہ کا قیمتی زیور چراتا اور کبھی نمبردار، کبھی جاگیردار، کبھی استاد، کبھی معالج کے گلے میں ڈال دیتا۔ اس کے بعد سب کوے مل کر کائیں کائیں شروع کر دیتے۔ جس سے لوگوں کی توجہ کوے کی چالاکی کی طرف نہ جا سکتی۔
کوے نے یہ دعوی بھی کیا ہے کہ وہ اپنی کائیں کائیں سے جب چاہے، کسی کے بھی گلے میں پھولوں یا کانٹوں کے ہار ڈال سکتا ہے۔ اب دشمنوں کا منہ کالا کرنے، جوتوں کے ہار پہنانے یا پھر گدھے پر بٹھا کر گاؤں میں گھمانا ضروری نہیں۔ کوے کی کائیں کائیں کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر ڈال کر کسی کا بھی منہ کالا کیا جا سکتا ہے۔ کوے نے یہ بھی کہا کہ جن لوگوں کو صحیح کائیں کائیں نہیں آتی وہ اپنی زبان سے خود ہی اپنا منہ کالا کروا بیٹھتے ہیں۔
جدید دور کی تحقیق کے مطابق کہانی کا کوا پیاسا نہیں تھا وہ صرف پیاس کا ناٹک کر رہا تھا۔ یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ مٹکے میں پتھر پہلے سے موجود تھے۔ کچھ محققین کا خیال ہے کہ پتھر ادھر ادھر سے لا کر چھپائے گئے تھے۔ کوے نے صرف مٹکے میں تانکا جھانکی کی، پر پھیلائے اور کائیں کائیں کرکے اڑ گیا۔ کوے نے یہ شکایت بھی کی کہ اسے ہر وقت کائیں کائیں کرنے کی عادت نہیں اور نہ ہی یہ اس کا منصب ہے۔ لیکن انسانی کائیں کائیں پر ہر کہاوت میں کوے کو ہی کیوں شامل کیا جاتا ہے۔ آخر گدھے اور دیگر جانوروں کو یہ استثنی کیوں؟
پچھلے دنوں ایک "مائیک فروغ" نے انٹرویوز کا سلسلہ شروع کیا۔ ان انٹرویوز کی بنیاد پر معلومات کا خلاصہ پیش خدمت ہے۔ کوے نے بتایا ہے کہ وہ سیانا بھی ہے اور چالاک بھی۔ اسے اچھی طرح علم ہے کہ مٹکے میں پتھر بھرنے سے پانی خشک ہو جائے گا۔ کہانی کی تخلیق کے دن وہ کھا پی کر گھر سے نکلا تھا اور ادھر ادھر کی خبریں مع تصاویر دیکھ رہا تھا۔ مٹکے میں پتھر بھرنا محض الزام تراشی ہے۔ وہ صرف کائیں کائیں کر سکتا ہے تا کہ اصل کہانی نہ کھل سکے اور تصویر کے حصے ادھورے رہیں۔ سرحد پار سے بھی ایسے کوے اس کی کائیں کائیں کو ہوا دیتے ہیں تا کہ مٹکے کا پانی خشک رہے۔
"فروغ مائیک بردار" نے ایسے کئی انٹرویو کر رکھے ہیں جن کی بنیاد پر تاریخ کا رخ بدل سکتا ہے لیکن انسانی سیاست ان غلط فہمیوں کی بنیاد پر ہی رواں دواں اور پروان چڑھ سکتی ہے۔ کوے نے یہ دعوی بھی کیا کہ ہر اہم موقع پر اصل مدعے سے نظر ہٹانے کے لیے کائیں کائیں کا مواد کوے کے خاندان کا ہی ایجاد کردہ ہے۔ اس سے پہلے کوے بھی خاموش رہ کر کام کیا کرتے تھے۔ کووں کو جب سے ڈالر ملنے لگے ہیں۔ کائیں کائیں کا شور بڑھتا جا رہا ہے۔ اس نے ہر دائرہ زندگی میں قدم جما لیے ہیں۔ اب سر اور تال پہ تالا لگ چکا ہے۔
اڑائے کچھ ورق لالے نے، کچھ نرگس نے، کچھ گل نے
چمن میں ہر طرف بکھری ہوئی ہے داستاں میری
(علامہ اقبال)