وہ 4 اپریل کی ہی ایک صبح تھی جب یہ سطور لکھتے ہوئے نجانے کیوں ولید بن عتبہ بن شجیع یاد آرہے تھے۔ عربی زبان کے اس قادر الکلام شاعر نے ابو مسلم خراسانی کا مرثیہ لکھا تھا۔ ابو مسلم خراسانی جس نے بنو امیہ کے اقتدار کے خلاف ایک منظم تحریک چلائی اور نتیجتاً بنو عباس برسر اقتدار آئے۔
خلافت عباسیہ نے اپنے اس محسن کی گردن مادری۔ محسن کشی سے عبارت انسانی تاریخ میں ایک اور سانحہ کا اضافہ ہوگیا۔ مورخین نے لکھا "ابو مسلم خراسانی کے سفاکانہ قتل کی خبر بصرہ پہنچی تو ولید بن عتبہ بن شجیع نے کہا۔۔
"محسن کشی کی اس سے بری مثال شاید ہی ملے۔ خلیفہ کے محل میں پردوں کے پچیھے چھپے کرائے کے قاتلوں نے اس شخص کو موت کا رزق بنادیا جس نے عباسی خلافت کی عمارت اٹھائی تھی۔ وائے ہو ان پر جو احسان بھول گئے۔
ٹوٹ گریں زندگی کی شاہراہ پر وہ جنہوں نے ایک شہہ سوار پر چھپ کر وار کیا۔ کیسا زمانہ آگیا ہے کہ لوگ محسنوں کے خون سے پیاس بجھاتے ہیں۔
مجھے لگ رہا ہے عباسی خلافت کو فاتحہ خواں نصیب نہیں ہوں گے۔
ہائے ہائے وہ نہ رہا جو لوگوں کے دلوں پر راج کرتا تھا اور اس کے مخالفوں کے قدموں کے نیچے سے زمین کھسکتی رہتی تھی۔
عرب ایسے محسن کش تو کبھی نہ تھے۔ عربوں کے چہروں پر سیاہی ملنے والو! حساب کے دن کیا جواب دو گے؟"۔
ولید بن عتبہ کا مرثیہ ابو مسلم خراسانی کے لئے تھا لیکن اس نے دستک ذوالفقار علی بھٹو کی برسی والے دن کی صبح دی۔ بھٹو نے ایک ہارے ہوئے لشکر اور دولخت ہوئے ملک کو اپنے قدموں پر کھڑا کیا۔ ملک کو دستور دیا۔ ایٹمی پروگرام (ایٹمی پروگرام کے درست یا غلط ہونے پر مکالمہ ہوسکتا ہے ایسا ہی مکالمہ ان کے دور میں ہوئی بعض آئینی ترامیم پر بھی ہونا چاہئے) کی بنیاد رکھی مگر ہر دو سے بڑھ کر یہ کہ انہوں نے اس ملک کے کچلے ہوئے طبقات میں زندگی کی روح پھونکی۔
ان کی ذات، سیاست، نظریات اور طرز حکمرانی سے اختلاف کرنے والوں کے پاس بھی دلائل کا انبار ہے۔ ہمارے ایک صاحب مطالعہ دوست حارث مجوکہ بھٹو صاحب کے حوالے سے لکھی گئی کسی حوالے جاتی تحریر یا کالم پر اپنی فکر کی چاند ماری کا ثواب اکثر کماتے ہیں اور یہ طعنہ بھی دینے سے نہیں چوکتے تھے کہ "آپ کی نسل کے محبوب رہنما نے تعلیمی اور صنعتی و مالیاتی اداروں کو قومیانے کی پالیسی پر عمل کرکے ابتری کو کھل کھیلنے کی دعوت دی"۔
میری دانست میں ہمیں بھٹو صاحب کو انسان ہی سمجھنا چاہیے۔ گوشت پوست کا انسان وہ آسمانی اوتار تھے نہ مادرزاد ولی و صوفی۔ یقیناً ان سے غلطیاں بھی سرزد ہوئیں لیکن ان کی خوبیوں کا پلڑا بھاری ہے اور پھر ضیاء الحق کے عہد ستم میں شان کے ساتھ پھانسی پر چڑھ کر انہوں نے تاریخ میں خود کو امر کرلیا۔
بلاشبہ بھٹو چاہتے تو قائداعظم محمد علی جناح کی 11 اگست 1947ء والی تقریر کو 1973ء کے آئین کا سرنامہ قرار دے سکتے تھے۔ بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا بلکہ ان جیسے سنٹرل لبرل اور ترقی پسند رہنما نے ریاست کو مشرف بہ اسلام کیا اور پھر اسلام پسندوں کے ہاتھوں پھانسی پر چڑھ گئے۔
مذہب کا اونٹ مفاہمتی سیاست کے شوق کی وجہ سے دستور (1973) کے خیمہ میں داخل نہ ہوا ہوتا تو ان بہت ساری بدعتوں کا رونا نہ رونا پڑتا جن کی وجہ سے ایک ترقی پسند لبرل اور قومی جمہوریت کے شعور سے مالامال سماج کی تعمیر کے راستے میں رکاوٹیں پیدا ہوئیں۔
طاقت کا سر چشمہ عوام کو قرار دینے والے رہنما نے سماج کے بالادستوں اور کٹھ ملائوں کے سامنے سپر ڈال دی۔
امریکی ان کے خون کے پیاسے تھے اور جیسے ہی امریکیوں کو جنرل ضیاء الحق کی شکل میں وفادار ملا وہ باقی کی کٹھ پتلیوں کو میدان میں لے آئے۔
تیسری دنیا کے ایک پسماندہ ملک کے محکوم زمین زادوں کی آواز بننے والے بھٹو کی ذات اور سیاست کا جادو آج بھی سر چڑھ کر بول رہا ہے ان کی جماعت ان کی صاحبزادی شہید محترمہ بینظیر بھٹو سے ہوتی ہوئی اب داماد اور صاحبزادے کے "قبضہ قدرت" میں ہے البتہ پیپلزپارٹی کی سامراج دشمن سیاست ماضی کا قصہ ہوئی۔
شدت پسندی اور اس کی کوکھ سے جنم لینے والی غیرریاستی عسکریت پسندی پر بھٹو صاحب کے داماد اور پارٹی کے مالکان آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو کے بیانات کے بعد اکثر کچھ دوستوں کو پی پی پی میں لبرل ازم اور سامراج دشمنی کے جراثیم دکھائی دیتے ہیں تو انہیں کسی حاذق حکیم سے رجوع کرنا چاہئے۔
یہ تاریخ کا جبر ہی ہے کہ بھٹو کو پھانسی چڑھانے والے جنرل ضیاء الحق کے سرپرست سعودی عرب کے ساتھ قدم سے قدم ملاکر بھٹو کا داماد کھڑا ہے یہی نہیں پیپلز پارٹی مسلم لیگ ن کی بھی اتحادی ہے خیر اس بحث اور سوال کو یہیں چھوڑ دیتے ہیں نظریات اب خاصے کی چیز ہوئے اکیسویں کی تیسری دہائی کے پانچویں برس تک آتے آتے بہت کچھ تبدیل ہوگیا ہے۔
پاکستان کی سیاسی، مذہبی، فرقہ وارانہ اور قوم پرست جماعتیں خاندانی اور طبقاتی کمپنیاں بن کر رہ گئی ہیں۔
یہاں اب تو "بت ہیں ہر جماعت کی آستینوں میں"۔ کب آئے گا حکم آذاں اس کا انتظار ہے؟ فی الوقت تو اس کی خبر نہیں۔
نہ ہی طوفان سے پہلے والی گہری خامشی ہے۔
بھٹو صاحب کی پارٹی اور اس کی موجودہ قیادت پاکستانی سیاست کے بدلتے ہوئے تقاضوں کا ادراک کرنے کے بجائے آج بھی وفاق پرست سیاست کا پرچم سنبھالے ہوئے ہے۔ گو ایک بار 18 ویں ترمیم کے ذریعے پی پی پی نے ا ختیارات کی صوبوں کو منتقلی کی راہ ہموار کی لیکن حقیقی صوبائی خودمختاری کا خواب کب شرمندہ تعبیر ہوگا اس بارے کچھ کہنا اس لئے ممکن نہیں کہ 18ویں ترمیم کی ارتھی اٹھائے جانے اور تدفین کرنے والے ہی ہر سُو دیکھائی دیتے ہیں اور فیصلہ سازی کا اختیار اب بھی "مقتدرہ" کے پاس ہے۔
خوبیوں، خامیوں کی بحث اپنی جگہ یہ امر مسلمہ ہے کہ بھٹو بیسویں صدی کے چند بڑے رہنمائوں میں سے تھے۔ ان کی ذات اور طرز حکمرانی پر بحث اٹھانے والوں کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ بھٹو ہی تھے جنہوں نے دولخت ہوئے ملک کی تعمیر نو میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ ان کے انداز سیاست نے ہی رعایا کو عوام ہونے کا شعور دیا اور عوام نے طبقاتی سیاست کے بڑے بڑے برج الٹا دیئے۔
لاریب وہ سکندر مرزا کے عہد میں ایوان اقتدار میں داخل ہوئے پھر پہلے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل ایوب خان کے دور میں وزیر خارجہ کے طور پر انہوں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔
ایوب خانی رجیم سے الگ ہوئے تو ان کی اولین ترجیح نیشنل عوامی پارٹی اور دوسری کونسل مسلم لیگ تھی۔ بیل منڈھے نہ چڑھ پائی۔ انہوں نے پاکستان پیپلزپارٹی کی بنیاد رکھی۔
ترقی پسندانہ خیالات و نظریات کی حامل پی پی پی نے گھپ گھور اندھیرے میں عوام دوست سیاست کی شمع روشن کی۔
5 جولائی 1977ء کو ان کے اقتدار کا دوسرا دور تمام ہوا۔ جنرل ضیاء الحق نے (جنہیں انہوں نے 8ویں درجہ سے اٹھاکر آرمی چیف بنایا تھا) ملک میں مارشل لاء نافذ کردیا۔
ضیا کی باندی بنی عدالتوں نے قتل کے ایک جھوٹے مقدمے میں انہیں سزائے موت سنائی۔ 4 اپریل 1979ء کی صبح پھانسی گھاٹ پر ان کے سانسوں کی ڈور ٹوٹ گئی۔ بھٹو ضیاء الحق کے لئے پھانسی پر چڑھ کر زیادہ خطرناک ثابت ہوئے۔ ضیاء کے گیارہ سالہ مارشل لاء نے ہزاروں جیالوں کو کوڑے مارے۔ سوا لاکھ کے قریب سیاسی کارکنوں، ادیبوں، شاعروں، دانشوروں اور صحافیوں کو فوجی عدالتوں سے سزائیں دلوائیں مگر وہ بھٹو کی محبت لوگوں کے دلوں سے نہ نکال پائے۔
پچھلے 46 برسوں سے ان کی یادیں تازہ کرنے والے 4 اپریل کو گڑھی خدا بخش میں جمع ہوتے ہیں۔ کاش گڑھی خدا بخش میں ہر سال 4 اپریل کو جمع ہونے والے پاکستان پیپلزپارٹی کو پھر سے اس ملک کے محکوم و مجبور طبقات کی جماعت بناسکیں۔
وہ اس حقیقت کو سمجھ پائیں کہ پاکستان اس میں آباد پانچ قوموں کا ملک ہے اور بدلتے ہوئے حالات میں پانچوں قوموں کے درمیان نئے عمرانی معاہدے کی ضرورت ہے
مگر کیا وہ پیپلزپارٹی جس پر اشرافیہ کے مختلف الخیال طبقات کا قبضہ ہے سیاسی بیداری کے ساتھ میدان عمل میں اتر پائے گی؟
یہ سوال خصوصی اہیمت کا حامل ہے مگر کیا اسیر اقتدار پیپلزپارٹی اپنے اصل کی طرف پلٹ پائے گی۔ دوسرا سوال پہلے سوال سے بندھا ہوا ہے۔
دیکھنا یہ ہے کہ 1988ء سے سمجھوتوں کی سیاست میں مصروف پی پی پی کی نشاۃ ثانیہ ہوپائے گی یا یہ خواب بھی تعبیر سے پہلے چوری ہوجائے گا۔