1. ہوم
  2. کالمز
  3. حسنین نثار
  4. فلسطین، لہو سے لکھی ہوئی داستان

فلسطین، لہو سے لکھی ہوئی داستان

فلسطین وہ پاک سرزمین ہے جہاں انبیاء کا نزول ہوا۔ یہاں حضرت ابراہیم، حضرت داوود، حضرت سلیمان اور حضرت عیسیٰؑ کی یادیں بستی ہیں۔ یہ سرزمین صرف ایک خطہ نہیں بلکہ ایمان، تاریخ اور قربانی کی علامت ہے۔ اس کے چپے چپے پر انبیاء کے قدموں کے نشان ہیں اور یہاں کے ذرے ذرے میں روحانی خوشبو بسی ہے۔

مسجد اقصیٰ مسلمانوں کا قبلہ اول ہے اور یہ وہ مقام ہے جہاں رسول اکرم ﷺ نے معراج کی رات نماز ادا کی۔ یہ مسجد صرف عبادت کا مقام نہیں بلکہ پوری امت مسلمہ کے دل کی دھڑکن ہے۔ اس کا دفاع ایمان کا حصہ اور اس کی حفاظت ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے۔

1948 میں اسرائیل کے قیام کے ساتھ ہی فلسطینیوں پر ظلم و ستم کا آغاز ہوا۔ لاکھوں افراد کو ان کے گھروں سے نکال دیا گیا، بستیاں اجاڑ دی گئیں اور ایک پوری قوم کو جلاوطن کر دیا گیا۔ ظلم صرف فزیکل نہیں بلکہ نفسیاتی، معاشی اور تہذیبی سطح پر بھی ہوا۔

پہلا پتھر ایک بچے نے پھینکا اور وہ پتھر پوری دنیا کے ضمیر پر گرا۔ فلسطینی عوام نے اپنی آزادی اور عزت نفس کے لیے قربانیاں دیں۔ وہ بچے جن کے ہاتھوں میں کتابیں ہونی چاہییں تھیں، ان کے ہاتھوں میں پتھر تھے۔ یہ مزاحمت، فلسطینی عوام کے غیرت مند جذبے کی دلیل ہے۔

1987 میں انتفاضہ کا آغاز ہوا، جس نے فلسطینی عوام کی آواز دنیا تک پہنچائی۔ یہ تحریک نہ صرف اسرائیلی ظلم کے خلاف بغاوت تھی بلکہ عالمی برادری کو جگانے کی ایک کوشش بھی تھی۔ انتفاضہ نے ایک نئی نسل کو بیدار کیا جو صرف ہتھیاروں سے نہیں، نظریے سے بھی لیس تھی۔

فلسطین کے ہر شہر اور ہر گاؤں میں شہداء کی قبریں ہیں۔ ان کی قربانیوں نے یہ پیغام دیا کہ غلامی سے موت بہتر ہے۔ فلسطینی نوجوانوں، بچوں، خواتین اور بزرگوں نے جان دے کر آزادی کی شمع روشن رکھی۔

اقوام عالم کی خاموشی خود ایک جرم بن گئی۔ انسانی حقوق کے دعویدار ادارے بے بس یا بے حس نظر آئے۔ اسرائیل کو کھلی چھوٹ ملی اور مظلوموں کی فریاد دبتی گئی۔ یہ خاموشی وقت کا سب سے بڑا ظلم بن کر ابھری۔

روایتی میڈیا نے ہمیشہ فلسطینیوں کی آواز کو دبایا، لیکن سوشل میڈیا نے سچ کو پھیلایا۔ نوجوانوں نے ویڈیوز، تصاویر اور تحریروں کے ذریعے دنیا کو حقیقت دکھائی۔ ہر ٹویٹ اور ہر پوسٹ ایک مزاحمت تھی۔

فلسطینی قوم نے اپنی ثقافت کو زندہ رکھا۔ ان کے کپڑے، رقص، کھانے اور زبان نے دشمن کی تہذیبی یلغار کو شکست دی۔ ثقافت، ان کی شناخت اور مزاحمت دونوں ہے۔ وہ مائیں جنہوں نے اپنے بیٹوں کو کفن پہنا کر رخصت کیا، وہ مزاحمت کی سب سے بڑی علامت بن گئیں۔ ان کی آہ میں درد بھی ہے اور دعا بھی۔ ان کا صبر پوری انسانیت کے لیے سبق ہے۔

فلسطینی بچے اسکول کے بجائے جنازوں میں شامل ہوتے ہیں۔ وہ مسکراتے ہیں، لیکن ان کی آنکھوں میں دکھ چھپا ہوتا ہے۔ ان کا بچپن بمباری میں گزرتا ہے، لیکن ان کے چہروں پر حوصلہ ہوتا ہے۔ غزہ دنیا کی سب سے بڑی جیل ہے، لیکن یہاں کے لوگ سب سے زیادہ باہمت ہیں۔ ہر حملے کے بعد یہ شہر پھر سے کھڑا ہوتا ہے۔ یہاں کی گلیاں گواہ ہیں ان گمنام ہیروز کی، جنہوں نے اپنے خون سے تاریخ لکھی۔

بیت المقدس وہ شہر ہے جو ہر مسلمان کے دل میں بستا ہے۔ اس شہر نے ظلم، درد، مزاحمت اور عبادت کو اپنے اندر سمیٹ رکھا ہے۔ یہ شہر آج بھی پکار رہا ہے: "کیا کوئی ہے جو میری حفاظت کرے؟"

فلسطینی خواتین صرف گھر کی رکھوالی نہیں کرتیں، وہ میدان عمل میں بھی نظر آتی ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں بچے بھی ہوتے ہیں اور علم و شعور کا پرچم بھی۔ وہ مظلوم بھی ہیں اور مزاحمت کی رہنما بھی۔

فلسطینی نوجوان صرف لڑنے والے نہیں، وہ لکھنے والے، بولنے والے اور دکھانے والے بھی ہیں۔ انہوں نے موبائل کو ہتھیار بنایا اور دنیا کو اپنے دکھ کی تصویر دکھائی۔ دنیا کے عوام فلسطین کے ساتھ کھڑے ہوئے۔ یورپ، امریکہ، ایشیا میں فلسطین کے حق میں مظاہرے ہوئے۔ یہ امید کی کرن ہے کہ دنیا کے دل ابھی زندہ ہیں۔

جب عوام نے ظالم کمپنیوں کا بائیکاٹ کیا، تو یہ پیغام دیا کہ ہم ظلم کے خریدار نہیں۔ بائیکاٹ ایک خاموش انقلاب ہے جو ظالم کو معیشتی ضرب لگاتا ہے۔

فلسطینی قیدی زندہ شہداء ہیں۔ ان کے حوصلے، اذیتوں کے باوجود ٹوٹے نہیں۔ جیل کی دیواریں ان کے ارادوں کو قید نہ کر سکیں۔ جب کوئی ظالم کے آگے بے بس ہو جاتا ہے، تو وہ دعا کرتا ہے۔ فلسطینیوں کی دعائیں عرش تک پہنچتی ہیں اور وہی دعائیں ظالموں کی نیند حرام کرتی ہیں۔

اقوام متحدہ نے قراردادیں تو پاس کیں، لیکن عملی اقدامات سے گریز کیا۔ یہ ادارہ طاقتوروں کا خادم اور مظلوموں کا قاتل خاموش گواہ بن گیا۔ اسلامی ممالک کی قیادت نے صرف بیانات دیے، عملی مدد نہ کی۔ امت مسلمہ کے کروڑوں لوگ انتظار میں ہیں کہ کوئی صلاح الدین ایوبی آئے۔

شاعری، کہانی اور نثر نے فلسطین کا سچ زندہ رکھا۔ فلسطینی شاعروں کے الفاظ توپوں سے زیادہ طاقتور ثابت ہوئے۔ غم کی اندھیری راتوں میں فلسطینیوں نے امید کا چراغ بجھنے نہیں دیا۔ ہر شہید ایک نئی امید بن گیا۔ ہر بچہ ایک نئی صبح کا پیغام ہے۔ فلسطین صرف ایک زمین نہیں، یہ ایک نظریہ ہے، ایک جذبہ ہے۔ یہ نظریہ گولیوں سے مٹایا نہیں جا سکتا۔

ہم سب کا فرض ہے کہ اپنی آواز اٹھائیں، ظالم کا بائیکاٹ کریں اور فلسطین کے ساتھ کھڑے ہوں۔ ہم کمزور نہیں، اگر متحد ہو جائیں۔ ہر دل میں ایک فلسطین ہونا چاہیے۔